Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 58
فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ
فَجَعَلَهُمْ : پس اس نے انہیں کر ڈالا جُذٰذًا : ریزہ ریزہ اِلَّا : سوائے كَبِيْرًا : بڑا لَّهُمْ : ان کا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
پس آپ نے انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا بجز ان کے بڑے بت کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔
فَجَعَلَھُمْ جُذٰذًا اِلاَّ کَبِیْرًا لَّھُمْ لَعَلَّہُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ ۔ (الانبیاء : 58) (پس آپ نے انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا بجز ان کے بڑے بت کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ ) تہوار کا دن آیا، لوگ ہجوم در ہجوم شہر سے باہر تہوار منانے کے لیے نکل گئے۔ دن بھر تفریحی جھمیلوں میں مشغول رہے۔ وہاں نہ کوئی پجاری رہا اور نہ کوئی محافظ۔ خالی بت کدے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوگئے۔ ہاتھ میں ایک بڑا کلہاڑا تھا۔ بت کدے کے وسیع ہال میں ایک بڑا بت نصب تھا اور اس کے دونوں طرف ایک ترتیب سے چھوٹے بت رکھے ہوئے تھے اور سب کے سامنے چڑھاؤوں کی مٹھائی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی تدبیر کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی کا کان کاٹا، کسی کی ناک، کسی کی آنکھ پھوڑی اور کسی کا بازو توڑ ڈالا اور سب مٹھائیاں اٹھا کر بڑے بت کے سامنے ڈھیر کردیں اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا اور خود وہاں سے کھسک گئے۔ مقصود یہ تھا کہ جب بت خانے کے پجاری اور دوسرے عقیدت مند بتوں کی یہ تباہی اور توڑ پھوڑ دیکھیں گے تو اس کا فوری نتیجہ ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ ان میں ایسے لوگ کہ جن کے دلوں کی روشنی بت پرستی نے بالکل بجھا نہیں دی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹیں اور سوچیں کہ ایسے بےبس اور ناکارہ ہمارے خدا تو نہیں ہوسکتے۔ خدا یقینا وہ ہے جس نے ہمیں زندگی دی اور زندگی کے امکانات روشن کیے اور دوسرا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ ضمیر کا مرجع خدا کی بجائے خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوں اور ان کی یہ ساری تدبیر صرف اس مقصد کے لیے ہو کہ جب اس شہر کے لوگ اور بت خانے کے مجاور اور متولی اپنے بتوں کا یہ انجام دیکھیں گے تو یقینا تلاش اور تحقیق کے بعد وہ مجھ تک پہنچیں گے کیونکہ شہر بھر میں کوئی اور سر پھرا ایسا نہیں جس کی زبان سے کبھی بت پرستی کیخلاف ایک کلمہ بھی سرزد ہوا ہو۔ میرے خیالات سے جو لوگ واقف ہیں وہ یقینا اس سیلاب کا رخ میری طرف پھیر دیں گے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ مجھے لوگوں کے سامنے علی روئوس الاشہاد اپنی بات کہنے کا موقع ملے۔ میں توحید کو دلائل سے ثابت کروں اور بت پرستی کے نقصانات اور اس کے بےعقل ہونے پر لوگوں کو متوجہ کروں اور جھنجھوڑوں۔ حیرانی کی بات ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جانتے تھے کہ میں اتنا بڑا اقدام کررہا ہوں جسے نہ عوام برداشت کریں گے اور نہ حکمران طبقہ اسے برداشت کرسکے گا۔ یقینا اس کے نتیجے میں، میں ناقابلِ بیان اذیتوں میں مبتلا کردیا جاؤں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں دینی حمیت سے اس قدر مالامال کیا تھا کہ وہ اس کے مقابلے میں بڑے سے بڑے خطرے کو انگیخت کرنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لوگوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کرنا اور باطل کو سرعام شکست دینا اس تدبیر کے سوا ممکن نہیں۔
Top