Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 5
بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ١ۖۚ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ
بَلْ : بلکہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَضْغَاثُ : پریشان اَحْلَامٍ : خواب بَلِ : بلکہ افْتَرٰىهُ : اسنے گھڑ لیا بَلْ هُوَ : بلکہ وہ شَاعِرٌ : ایک شاعر فَلْيَاْتِنَا : پس وہ ہمارے پاس لے آئے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی كَمَآ : جیسے اُرْسِلَ : بھیجے گئے الْاَوَّلُوْنَ : پہلے
بلکہ انھوں نے کہا یہ تو خواب پریشان ہیں بلکہ اس کو انھوں نے خود گھڑ لیا ہے بلکہ وہ ایک شاعر ہیں، پس یہ ہمارے پاس کوئی اس طرح کی نشانی لائیں جس طرح کی نشانیوں کے ساتھ پہلے رسول بھیجے گئے تھے۔
بَلْ قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلاَمٍ م بَلِ افْتَرٰہُ بَلْ ھُوَشَاعِرٌ صلے ج فَلْیَاْتِنَا بِاٰیـَۃٍ کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ۔ (الانبیاء : 5) (بلکہ انھوں نے کہا یہ تو خواب پریشان ہیں بلکہ اس کو انھوں نے خود گھڑ لیا ہے بلکہ وہ ایک شاعر ہیں، پس یہ ہمارے پاس کوئی اس طرح کی نشانی لائیں جس طرح کی نشانیوں کے ساتھ پہلے رسول بھیجے گئے تھے۔ ) مشرکین کے اشکالات کی تعبیر ” اضغاثِ احلام “ کا مفہوم بَلْ … کلمہ استدراک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایک بات کہتا ہے۔ جب دیکھتا ہے کہ اس سے میرا مقصد پورا نہیں ہوا تو ایک قدم آگے بڑھ کر دوسری بات کہتا ہے۔ مشرکین مکہ کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ اس لیے قرآن کریم نے ان کے اتہامات کو کلمہ بَلْ سے ذکر فرمایا کیونکہ وہ کسی ایک بات پر جمنے کی بجائے آئے دن نئی بات اختراع کرتے تھے۔ پیش نظر صرف یہ تھا کہ کسی طرح آنحضرت ﷺ کی دعوت کے اثرات کو بےاثر کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ انھوں نے سب سے پہلے آپ ﷺ کو بشر قرار دیا اور یہ کوئی تہمت یا الزام نہ تھا بلکہ ایک حقیقت تھی لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس کے لوازم کو خود اختراع کیا۔ ان کے نزدیک جو بشر ہوتا ہے، وہ نبی نہیں ہوسکتا اور جو نبی ہوتا ہے وہ بشر نہیں ہوسکتا۔ ان کے اور عام لوگوں کے ذہن میں بھی یہ غلط بات پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی کہ نبوت اور بشریت میں تضاد ہے۔ یہ ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، پھر دوسرا الزام لگایا کہ وہ جادوگر ہے اور اس کے کلام کی تاثیر دراصل اس کے جادو کا نتیجہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے الزامات کو رد کرتے ہوئے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کیونکہ وہ جس گھٹیا سطح پر اتر چکے تھے آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی ان کا تعاقب کرتے ہوئے وہاں تک نہیں جاسکتی تھی۔ اب اس آیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے محسوس کیا کہ ہمارے لگائے ہوئے الزامات وہ اثر نہیں دکھا رہے جو ہم چاہتے ہیں تو اب انھوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر ایک اور بات کہی کہ تم اس پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے شخص کی زبان سے جو عالم غیب کی خبریں سنتے ہو اور جس طرح وہ جنت دوزخ کا ذکر کرتا، عالم برزخ کی تفصیلات بیان کرتا ہے، زندگی اور موت کے حقائق کو واضح کرتا اور ہماری فلاح وبقاء کے لیے نہایت اہم باتوں کو لازم ٹھہراتا ہے تو تم ان باتوں سے متأثر ہو کر اس کے قریب ہونے لگتے ہو حالانکہ ان باتوں کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ خواب پریشاں ہیں، یعنی صرف خواب ہی نہیں بلکہ منتشر اور متضاد خواب۔ ایک تو خواب ہی کی کوئی حقیقت ضروری نہیں ہوتی اور پھر پریشان خواب تو معدے کی خرابی یا شخصیت کے انتشار کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ احلام خوابوں کو کہتے ہیں اور اضغاث، ضغث کی جمع ہے۔ ضغث گھاس کی اس مٹھی کو کہتے ہیں جو رطب و یابس اور خشک و تر دونوں کا مجموعہ ہو۔ اس لیے اس کا ترجمہ خواب پریشان کیا جاتا ہے۔ اس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اس شخص کے دل میں کچھ خیالات بسے ہوئے ہیں۔ اس کی قوت واہمہ انھیں خیالات کو مختلف شکلوں میں اس کے خواب میں متشکل کردیتی ہیں اور وہ شاید اسے حقیقت سمجھ کر لوگوں سے کہنا شروع کردیتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ باتیں مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بارہا دنیا میں ایسا ہوچکا ہے کہ بعض لوگ اپنے ہی خیالات کو اپنے خواب کی صورت میں دیکھتے اور اسے ایک حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔ اور یہی وہ افترا ہے جس کی وجہ سے یہ سارا فساد پیدا ہوا ہے۔ یعنی خواب پریشاں دیکھنے والا شاید اس قدر ذمہ دار نہیں کیونکہ خواب پر کسی کا قابو نہیں ہوتا۔ لیکن اس سے من پسند نتائج نکالنا اور پھر کوئی دعویٰ کشید کرلینا یہ وہ گناہ ہے جو اس نبوت کا دعویٰ کرنے والے سے سرزد ہورہا ہے۔ آنحضرت ﷺ پر شاعر ہونے کا الزام مشرکینِ مکہ کو ایک مشکل یہ پیش آرہی تھی کہ وہ قرآن کریم میں بیان کردہ حقائق کو تو خواب پریشاں کہہ کر لوگوں کو بدگمان کرنے میں شاید کامیاب ہوجاتے لیکن جب وہ یہ دیکھتے کہ قرآن کریم کے کلام میں جس طرح شیرینی ہے، اسی طرح ہیبت و شوکت بھی ہے۔ ایک وقار اور تمکنت بھی ہے۔ اس کی فصاحت و بلاغت کا جواب ممکن نہیں۔ اور مزید یہ کہ عام لوگ قرآن کریم کی انہی خصوصیات کے باعث جب اپنے سرداروں سے پوچھتے کہ اگر یہ شخص پیغمبر نہیں تو جو یہ کلام پڑھ کے سناتا ہے وہ غیرمعمولی کلام کیوں ہے۔ اس کی ہر بات انسانی کلام سے بہت ممتاز، بہت ارفع اور بالکل نرالی ہے، تو اس کا سبب کیا ہے۔ تو اس کا جواب دینے کے لیے اشرافِ قریش نے باہمی سرگوشیاں کیں۔ تو آخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ لوگوں سے یہ کہا جائے کہ اس کلام میں یہ خصوصیات اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ اس کا کہنے والا شاعر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں، محمد ﷺ کا کلام ہے۔ اور اس کلام میں شیرینی اور دلآویزی اس وجہ سے پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ایک شاعر بھی ہے۔ اس کے کلام کی سحرآفرینی بالکل اسی نوعیت کی ہے جس نوعیت کی سحرآفرینی ہمارے بڑے بڑے شاعروں کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ اور اس میں ان شاعروں کا کوئی کمال نہیں ہوتا، اصل میں ان کے ساتھ ایک جن ہوتا ہے جو ان کو شعر القا کرتا ہے۔ اہل عرب کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر بڑے شاعر کے ساتھ ایک جن ہوتا ہے جو اس کے دل میں عجیب و غریب خیالات ڈالتا ہے اور بعض دفعہ بنے بنائے اشعار اس کے دل میں اتار دیتا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے قرآن پاک کی تعلیمات اور اس کی غیرمعمولی خصوصیات کو بےاثر کرنے کا ایک راستہ نکالا اور آخری حربہ جس کو وہ نہایت موثر سمجھتے تھے یہ اختیار کیا کہ اگر یہ شخص واقعی پیغمبر ہے جیسے پہلے پیغمبر گزرے ہیں تو پھر ان کی طرح حسی معجزات کیوں نہیں دکھاتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھ عصائے موسیٰ اور یدبیضا لے کر آئے تھے۔ یہی حال باقی انبیاء کا بھی تھا، تو آخر یہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا شخص ایسے محسوس معجزات ہمیں کیوں نہیں دکھاتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص شاعر ہے، ساحر ہے، پیغمبر نہیں۔ اگر پیغمبر ہوتا تو ہمیں بھی ایسے ہی معجزات دکھاتا۔ ایک خلجان کا ازالہ اس بات سے ذہن میں یہ خلجان نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ سے شاید کبھی کوئی معجزہ ظہور پذیر نہیں ہوا۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ مختلف اوقات میں نبی کریم ﷺ سے خرق عادت واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ شق القمر یعنی چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا، مٹھی میں کنکریوں کا کلمہ پڑھنا، آپ ﷺ کے ہاتھوں کی انگلیوں سے پانی کے چشموں کا رواں ہونا، آپ ﷺ کی دعا سے چند آدمیوں کا کھانا کئی سو آدمیوں کے لیے کافی ہوجانا، بعض جانوروں کا آپ ﷺ کے کان میں باتیں کہنا، قبروں میں اصحابِ قبر کو عذاب ہوتے ہوئے محسوس کرنا اور اس کے سبب کی خبردینا۔ ایسے بیشمار معجزات ہیں جسے لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے دیکھا، لیکن آپ ﷺ نے کبھی کسی مطلوبہ معجزے کو دکھانا پسند نہیں فرمایا۔ جس طرح مثلاً قوم صالح نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ آپ ( علیہ السلام) ہمیں پہاڑ سے اونٹنی نکال کردکھائیں تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، پہاڑ پھٹا اور اونٹنی نکل آئی۔ لیکن وہی اونٹنی بالآخر ان کی تباہی کا باعث ہوئی۔ مشرکینِ مکہ بھی اس طرح کے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اس طرح کے کسی مطالبے کو پذیرائی نہیں بخشی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی قوم کوئی مخصوص معجزہ مانگتی ہے اور اپنے ایمان کو اس کے ساتھ مشروط کردیتی ہے تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اگر وہ مخصوص معجزہ اس کو دکھا دیں اور وہ پھر بھی ایمان نہ لائے تو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی دعائوں سے اور آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے یہ وعدہ کرچکے تھے کہ جب تک آپ ﷺ ان میں ہیں، ہم انھیں عذاب نہیں دیں گے۔ اور جب تک ان میں استغفار کرنے والے موجود ہیں اس وقت تک ان پر عذاب نازل نہیں ہوگا۔ اب اگر ان کا کوئی مخصوص مطالبہ جو ایمان کے ساتھ مشروط ہوتا ہے پورا کردیا جاتا اور وہ اس کے بعد بھی ایمان نہ لاتے تو اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق ان پر عذاب نازل ہوجاتا جبکہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ یہ قوم عذاب میں مبتلا ہو کیونکہ آپ ﷺ کی موجودگی میں عذاب نہ بھیجنے کا پروردگار وعدہ فرما چکے تھے اور مزید یہ بات کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہ تھا جس سے اصلاح کا سلسلہ باقی رہتا۔ آنحضرت ﷺ کو اٹھا لیا جاتا اور کفار عذاب کی نذر ہوجاتے تو پھر قیامت تک آنے والے انسانوں کو دین کہاں سے ملتا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اب نوع انسانی ارتقا کے آخری مراحل کی طرف بڑھ رہی تھی اور نبی آخرالزماں ﷺ قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے ہدایت کا سامان لے کر آئے تھے۔ حسی معجزات وقتی طور پر متأثر تو کرسکتے ہیں لیکن آنے والے دور میں ان سے دل و دماغ کو متأثر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ آخری پیغمبر کی دعوت کا دارومدار معجزات پر نہیں بلکہ آفاق وانفس اور عقل و بصیرت کے دلائل پر رکھا جاتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو قرآن کریم جیسا معجزہ عطا فرمایا جو قیامت تک آنے والے انسانوں کو رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔ اس میں دماغوں اور عقلوں کو جلا دینے کا سامان بھی ہے، دلوں کو تسکین دینے کی قوت بھی ہے اور وہ ضابطہ حیات بھی ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اور سابقہ امتوں کا یہ تجربہ بھی ہے کہ ان کے مطلوب معجزات انھیں مہیا کردیئے گئے، اس کے باوجود وہ ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئے حالانکہ انھوں نے ان معجزات کے ظہور کو ایمان کے ساتھ مشروط کیا تھا۔ لیکن جب معجزات ظہورپذیر ہوگئے تو اسے انھوں نے جادو یا شعبدہ بازی قرار دینا شروع کردیا۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ افکار کی تبدیلی اور کردار کی تعمیر ایسی تعلیم سے ممکن ہوتی ہے جس کی بنیاد آفاق وانفس کے دلائل اور عقل و فطرت کے داعیات پر ہو۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کا مدار چونکہ ایسے ہی دلائل پر رکھا گیا تھا، اس لیے اس کے نتیجے میں جو انقلاب برپا ہوا اس کی نمود اس سے پہلے انسان نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ صرف 23 سال کے عرصے میں ایک ایسی صالح جماعت تیار ہوگئی جس نے ایک محدود عرصے میں معلوم زمین کے زیادہ حصے پر اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کردیا۔ وہ جہاں بھی گئے لوگوں کے دکھ سمٹتے گئے اور خوشیوں کی بہار آتی گئی۔ ان کے سامنے صرف سر ہی نہیں جھکے بلکہ دل بھی جھکتے چلے گئے اور وہ لوگ جو پہلے ہر بھلی بات کے دشمن تھے، اب وہ خدا کے دین کے مناد، مبلغ اور منفذ بن کر دنیا میں پھیل گئے۔
Top