Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 94
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْیِهٖ١ۚ وَ اِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ
فَمَنْ : پس جو يَّعْمَلْ : کرے مِنَ : کچھ الصّٰلِحٰتِ : نیک کام وَهُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : ایمان والا فَلَا كُفْرَانَ : تو ناقدری (اکارت) نہیں لِسَعْيِهٖ : اس کی کوشش وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے كٰتِبُوْنَ : لکھ لینے والے
(پس جو شخص نیک عمل کرے گا اس حال میں کہ وہ مومن ہو تو اس کے کام کی ناقدری نہیں ہوگی اور ہم اس کے لیے (اس کے اعمال کو) لکھنے والے ہیں۔
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلاَ کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ ج وَاِنَّا لَـہٗ کٰتِبُوْنَ ۔ (الانبیاء : 94) (پس جو شخص نیک عمل کرے گا اس حال میں کہ وہ مومن ہو تو اس کے کام کی ناقدری نہیں ہوگی اور ہم اس کے لیے (اس کے اعمال کو) لکھنے والے ہیں۔ ) بہت بڑی بشارت گزشتہ امتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیائے کرام اور رسولانِ گرامی تشریف لاتے رہے اور مختلف ادوار میں انسانوں کی اصلاح کے لیے مقدور بھر مساعی انجام دیتے رہے، لیکن نزول قرآن کے وقت دنیا کا یہ حال ہے کہ اہل دنیا نے انسانی شیرازہ بندی اور اللہ تعالیٰ کے دین کی وحدت کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہر دردمند دل محسوس کرتا ہے کہ شاید اس دنیا کا مقدر اب کبھی نہیں بدلے گا اور تباہی اس کے لیے لکھ دی گئی ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس ناگفتہ بہ حالت میں بھی امید کا ایک چراغ روشن کیا گیا ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ انسانوں نے اگرچہ اپنی قسمت بگاڑنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے انسان کو محروم نہیں فرمایا کیونکہ انسان وقتی اور کمزور جذبات کا شکار ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس طرح کے تمام جذبات سے پاک اور ماورا ہے۔ انسان سرکشی اور تمرد کا راستہ اختیار کرتا ہے لیکن اس کی ذات اسے ہمیشہ ڈھیل دیتی رہتی ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا جارہا ہے کہ آج بھی جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ضروریاتِ دین کا یقین پیدا کرے اور اس کی شریعت کے مطابق اپنے اعمال کی اصلاح کرے اور پھر ہر عمل کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو اپنا مقصد بنائے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے شخص کی مساعی کو کبھی رد نہیں کیا جائے گا۔ اس کی کوشش کی کبھی ناقدری نہیں ہوگی، اس کے ہر عمل کو قبولیت کے ترازو میں تولا جائے گا، وہ دنیا میں بھی اپنے اعمال کا پھل کھائے گا اور قیامت کے دن بھی اس کے اعمال محفوظ اور مکتوب حالت میں اس کے ہاتھوں میں تھما دیئے جائیں گے اور انھیں کے مطابق اس کے ساتھ جزاء اور سزا کا معاملہ ہوگا۔ اس آیت کا پیغام ایسا حوصلہ افزاء اور روح کو سرشار کرنے والا ہے کہ جس نے نہ جانے کتنی مرجھائی ہوئی امیدوں کو ازسرنو زندگی بخشی اور تباہی کے کنارے کھڑے انسان کو ایک روشن راستہ دکھایا اور مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انتہائی رحمت کا سلوک فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ ایمان و اخلاص کی روشنی میں کیے ہوئے اعمال اللہ تعالیٰ کو اس قدر محبوب ہیں کہ وہ انھیں نہ صرف محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے بلکہ اس کو محفوظ کرنے کے اسباب بھی فراہم کرتا ہے اور اس کے کارکنان اس کے ایک ایک قول اور فعل کو کتابت کی صورت میں محفوظ کردیتے ہیں۔
Top