Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 95
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
وَحَرٰمٌ : اور حرام عَلٰي قَرْيَةٍ : بستی پر اَهْلَكْنٰهَآ : جسے ہم نے ہلاک کردیا اَنَّهُمْ : کہ وہ لَا يَرْجِعُوْنَ : لوٹ کر نہیں آئیں گے
اور ناممکن ہے اس بستی پر جسے ہم نے ہلاک کردیا ہو، وہ پھر پلٹ سکے۔
وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰـھَـآ اَنَّھُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ ۔ (الانبیاء : 95) (اور ناممکن ہے اس بستی پر جسے ہم نے ہلاک کردیا ہو، وہ پھر پلٹ سکے۔ ) یہاں حرام کا معنی ممنوع ہے۔ قال الراغب الحرام الممنوع ایک وارننگ سابقہ آیت کریمہ میں جس طرح نوع انسانی کے لیے امید کا ایک چراغ جلایا گیا اسی طرح نوع انسانی کے لیے اس چراغ کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ایک وارننگ بھی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت اپنی جگہ لیکن انسانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کا قانون اس قدر بےلچک ہے کہ جب کوئی قوم اپنے وقت کے پیغمبر پر ایمان نہیں لاتی اور اس کی طرف آنے والی کتاب کو وظیفہ عمل نہیں بناتی بلکہ مخالفت پر کمربستہ ہوجاتی ہے اور مخالفت میں بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اس ہدایت کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے گل کرنے کے منصوبے باندھنے لگتی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے تو اس کا عذاب اس کی محرومی اور تباہی کا پیغام بن کر نازل ہوتا ہے اور اس قوم کی جڑ مار دی جاتی ہے۔ چناچہ اسی بات کی طرف توجہ دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ اس طرح کی جس بستی پر بھی ہمارا عذاب نازل ہوچکا ہے اس کے بارے میں یہ بات حتمی ہے کہ ان معذب قوموں میں سے کوئی قوم دوبارہ سر نہیں اٹھا سکتی اور ان کی نشاۃ ثانیہ اور حیات نو کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اور اس کا بھی کوئی امکان نہیں کہ دوبارہ انھیں وجود سے بہرہ ور کیا جائے گا اور نئی زندگی دے کر دوبارہ اس دارالامتحان میں بھیج دیا جائے گا۔ اب تو انھیں صرف قیامت کو اپنے کرتوتوں کا جواب دینا ہے۔ جس طرح کوئی معذب قوم دوبارہ زندہ نہیں کی جاتی، اسی طرح اگر کسی قوم کی مسلسل سرکشی اور تمرد کی وجہ سے ہدایت سے محرومی کا فیصلہ کردیا جاتا ہے تو پھر اسے توبہ اور انابت الی اللہ کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کے رسول کی ہزار کوششوں کے باوجود بھی وہ قوم کبھی ہدایت سے نوازی نہیں جاتی۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں بیان کردہ ان تمام مفاہیم کا امکان موجود ہے اور قریش مکہ کو اس آیت کے واسطے سے آئینہ دکھانا مقصود ہے تاکہ وہ اچھی طرح اس آئینہ میں اپنی شکل دیکھ کر کوئی سا فیصلہ کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔
Top