Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 10
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۠   ۧ
ذٰلِكَ بِمَا : یہ اس سبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا يَدٰكَ : تیرے ہاتھ وَاَنَّ اللّٰهَ : اور یہ کہ اللہ لَيْسَ : نہیں بِظَلَّامٍ : ظلم کرنے والا لِّلْعَبِيْدِ : اپنے بندوں پر
اور اسے بتایا جائے گا کہ) یہ سزا ہے اس کی جو تیرے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ )
ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰکَ وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ ۔ (الحج : 10) (اور اسے بتایا جائے گا کہ) یہ سزا ہے اس کی جو تیرے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ ) آخرت کا عذاب کرتوتوں کا نتیجہ ہے اس آیت کریمہ میں یہ تصور کارفرما ہے کہ آخرت میں ہر شخص کو جس صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا وہ اچانک پیدا نہیں ہوگی بلکہ وہ نتیجہ ہوگا ان اعمال اور کرتوتوں کا جو اس نے دنیا میں کیے ہوں گے۔ یہ دنیا ایک کھیتی ہے یہاں آدمی جو کچھ کرتا ہے وہ بیج کی مانند اس میں بویا جاتا ہے۔ بعض اعمال تو ایسے ہوتے ہیں جس کی فصل دنیا میں ہی لہلہانے لگتی ہے اور ان اعمال کا کرنے والا دنیا میں اس کا پھل دیکھ لیتا ہے۔ لیکن بیشتر اعمال فصل کی صورت میں آخرت میں ظاہر ہوں گے۔ جس نے یہاں دنیا میں تکبر اور غرور کا تخم بویا ہوگا وہ قیامت کے دن رسوائی کی فصل کاٹے گا اور اگر اس نے حق کے خلاف غصہ اور نفرت کی پرورش کی ہوگی تو اس کے حاصل کے طور پر قیامت کے دن اسے جلایا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ عمل کی مدت محدود تھی لیکن سزا غیرمحدود صورت میں ملی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن اعمال کی مدت محدود معلوم ہوتی ہے وہ برگ و بار لانے میں محدود نہیں ہوتے اور ان کے نتائج صدیوں تک پھیلنے کی وجہ سے قیامت میں لامحدود ہوجائیں گی۔ چینیوں کی مشہور کہاوت ہے کہ جو شخص ہوا کاشت کرتا ہے وہ آندھی کی فصل کاٹتا ہے کیونکہ جب اس کے کٹنے کا وقت آئے گا تو وہ اپنے اثرات و نتائج میں آندھی کی شکل اختیار کرچکا ہوگا۔ ٹھیک کہا کسی نے ؎ ہَوا کی تخم ریزی سے فصل آندھی کی کاٹو گے دوسرے جملے میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ یہاں مبالغے پر نفی وارد ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں مقصود مبالغہ فی النفی ہوتا ہے۔ یعنی اس کا معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں۔ ہر شخص کا عمل اپنے ٹھیک انجام کو پہنچے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم آج اس کے اثرات و نتائج کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ لیکن صدیاں گزرنے سے نہ جانے اس کے اثرات و نتائج کہاں تک پہنچیں۔ اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے اور اس کے مطابق سلوک کرے گا۔
Top