Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 55
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ
وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ رہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ : میں مِرْيَةٍ : شک مِّنْهُ : اس سے حَتّٰى : یہاں تک تَاْتِيَهُمُ : آئے ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک اَوْ يَاْتِيَهُمْ : یا آجائے ان پر عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَقِيْمٍ : منحوس دن
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اس کی طرف سے ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک قیامت آجائے یا ان پر ایک منحوس دن کا عذاب آجائے۔
وَلَایَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً اَوْیَاْ تِیَھُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ ۔ (الحج : 55) (اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اس کی طرف سے ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک قیامت آجائے یا ان پر ایک منحوس دن کا عذاب آجائے۔ ) آنحضرت ﷺ کے لیے مزید تسلی اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ کو مزید تسلی دی گئی ہے کہ آپ اشرافِ قریش یعنی ان بڑے بڑے کافروں کے بارے میں جو شب وروز آپ کی مخالفت اور معاندت میں مشغول رہتے ہیں اور آپ کی کوئی نصیحت ان پر اثر انداز نہیں ہوتی، پریشان اور دل گرفتہ نہ ہوں۔ نصیحت حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی نصیحت کی ضرورت محسوس کرے۔ سنجیدگی سے بات کو سنے اور کم ازکم اتنی بات کو قبول کرلے کہ جو کچھ پیغمبر کی طرف سے کہا جارہا ہے عین ممکن ہے کہ وہ حق اور سچ ہو اور ہماری دنیا اور عقبیٰ کا دارومدار اس کے قبول کرنے پر ہو۔ اس صورت میں امید کی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ہمدردی اور غمگساری میں ڈوبی ہوئی نصیحتیں اور ان کی ہدایت کے لیے انتہائی اضطراب ان کی طبیعتوں پر اثرانداز ہوسکے۔ لیکن وہ جب تک اس معمولی بات کو بھی قبول کرنے کیلیے تیار نہیں ہوتے اور ان کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے عذاب اور قیامت کو بھی مذاق سمجھ رکھا ہے تو ایسے لوگ کبھی حق کے قریب نہیں آسکتے۔ ان پر آپ ہزار محنت کریں وہ اپنے شک وارتیاب کی دنیا سے کبھی باہر نہیں نکلیں گے۔ وہ اپنے کفر وشرک پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک اچانک قیامت نہیں آدھمکتی اور یا اللہ کی طرف سے عذاب نہیں آجاتا۔ عذاب کی ہولناکی یا قیامت کی ناقابلِ بیان کیفیت کو دیکھ کر وہ یقینا واویلا کریں گے کہ ہائے ہماری شامت اور بدنصیبی کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کی دعوت پر کان دھرنے کی زحمت نہ کی وہ جو کچھ کہتے تھے بالکل صحیح تھا آج اس کی صداقت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس وقت کا اعتراف ان کے کسی کام نہیں آئے گا کیونکہ عذاب تباہی کا فیصلہ بن کر آتا ہے اور قیامت دارالجزا ہے جو عمل کے ہر امکان کو ختم کردیتی ہے۔ عقیم کا مفہوم عذاب کی شدت اور گیرائی کو واضح کرنے کے لیے، جس دن عذاب آئے گا، اس دن کی صفت ” عقیم “ لائی گئی ہے۔ عقیم اس کو کہتے ہیں جو اولاد کے قابل نہ ہو اور وہ دن جس کے بعد رات نہ آئے اور نہ اس کے بعد کوئی نیا دن طلوع ہو تو اس کو بھی اس لحاظ سے ” عقیم “ کہتے ہیں۔ جب کسی قوم پر تباہی نازل ہوتی ہے تو اس کی زندگی کا وہ ایسا دن ہوتا ہے جس کے بعد نہ اس کے لیے کوئی رات آتی ہے اور نہ دن طلوع ہوتا ہے۔ نہ اسے توبہ کی توفیق ہوتی ہے اور نہ اس کا ایمان کام آتا ہے۔ گویا اسے ہر خیر سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی زندگی عقیم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے ضحاک نے کہا ” عذاب یوم لالیلۃ لہ وھو یوم القیامۃ “ ضحاک اور بعض دیگر مفسرین کے نزدیک اس سے قیامت کا دن مراد ہے کیونکہ اس کے بعد کوئی رات نہیں آئے گی۔ لیکن جس قوم پر عذاب آتا ہے اس کا وہ دن بھی عقیم ہوتا ہے۔ جس میں عذاب نازل ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد اس قوم پر کوئی رات نہیں آتی اور وہ قوم اس لحاظ سے عقیم ہوتی ہے کہ اس سے کسی نئے عمل کا ظہور نہیں ہوتا اور وہ کسی کار خیر کو انجام نہیں دے سکتی۔
Top