Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 52
وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ
وَاِنَّ : اور بیشک هٰذِهٖٓ : یہ اُمَّتُكُمْ : تمہاری امت اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک امت، امت واحدہ وَّاَنَا : اور میں رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاتَّقُوْنِ : پس مجھ سے ڈرو
اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم مجھ ہی سے ڈرو
وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَا تَّقُوْن۔ فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ زُبُرًا ط کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ۔ (المومنون : 52، 53) (اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم مجھ ہی سے ڈرو۔ پس انھوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا اب ہر گروہ اسی میں مگن ہے جو اس کے پاس ہے۔ ) گزشتہ حقیقت کا اظہار یٰٓاَیُّھَا الرُّسُل کے خطاب سے جس حقیقتِ ثابتہ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس کو کھول دیا گیا ہے کہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہی رہی ہے اور یہ سب ایک ہی امت تھے کیونکہ یہ ایک ہی دین لے کر آئے۔ امت کا لفظ اس مجموعہ افراد پر بولا جاتا ہے جو کسی اصل مشترک پر جمع ہوں۔ انبیائے کرام چونکہ اختلافِ زمانہ ومقام کے باوجود ایک عقیدے، ایک دین اور ایک دعوت پر جمع تھے اس لیے فرمایا گیا کہ ان سب کی ایک ہی امت ہے اور ان کی دعوت نے دیکھنے کو مختلف امتیں تیار کیں لیکن حقیقت میں وہ سب ایک امت تھیں کیونکہ ان کی بنیاد ایک تھی۔ آیت کریمہ کے دوسرے جملے نے اس بنیاد کو واضح فرمادیا۔ وَاَنَا رَبُّکُمْ فَا تَّقُوْن ” اور میں تمہارا رب ہوں پس تم مجھ ہی سے ڈرو “۔ رب وہ ذات ہے جو تمام مخلوقات کی تربیت کا سامان کرتی ہے۔ جسمانی تربیت کے لیے غذا مہیا کرتی، موسم کے شدائد سے بچاتی اور زندگی کے امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے مطلوبہ رہنمائی سے نوازتی ہے۔ لیکن معنوی اور روحانی تربیت کے لیے جن وانس کی حد تک حواس اور عقل عطا کرتی اور زندگی کے وہ دوائر جو عقل کی رسائی سے باہر ہیں ان کے لیے وحی الہٰی کا فانوس روشن کرتی ہے اور مزید یہ بات کہ رب جس طرح تربیت کرنے والے کو کہتے ہیں اسی طرح اس ذات کو بھی کہتے ہیں جو غیر مشروط طور پر اور غیر محدود حدتک قانون سازی کا حق رکھتی ہے۔ تحلیل وتحریم کا حق صرف اسی کو زیب دیتا ہے۔ قرآن کریم نے اہل کتاب پر جب یہ الزام لگایا کہ انھوں نے اپنے احبارو رہبان کو اپنا رب بنالیا ہے تو حضرت عدی ابن حاتم طائی نے آنحضرت ﷺ سے اس کی وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ جس کو تحلیل وتحریم یعنی قانون سازی کا غیر مشروط اختیار دے دیا جائے اسی کو رب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبیوں نے اپنی امتوں کو جو تعلیم دی تھی اس کی بنیاد یہ تھی کہ اللہ ہی تمہارا رب ہے اس لیے اس کی غیرمشروط اطاعت تم پر واجب ہے اس اطاعت میں کمی بیشی کے حوالے سے صرف اسی سے ڈرنا ہے۔ زندگی کی رہنمائی میں کسی اور کو شریک کرنا یہ شرک ہے اسے اللہ گوارا نہیں فرماتا۔ لیکن ان کی امتوں نے اسی بنیادی تعلیم کو جس نے ان کے درمیان وحدت فکر اور وحدت عمل پیدا کی تھی پارہ پارہ کر ڈالا۔ اصل دین کو اپنی تنگ نظری اور تعصب کے باعث مختلف شکلوں میں تبدیل کردیا۔ اب ہر گروہ اور ہر فرقہ جو کچھ اس کے پاس ہے جو محرف بھی ہے اور ناتمام بھی۔ اس پر اڑا ہوا ہے اور اسی پر خوش ہے کہ میں بالکل صحیح راستے پر ہوں۔ قریش بھی اسی گمراہی کا شکار تھے۔ وہ وحی الہٰی کی رہنمائی سے بالکل محروم ہوچکے تھے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کی طرف اپنا نسبی انتساب تو رکھتے تھے لیکن ان کی مذہبی رہنمائی کو یکسر فراموش کرچکے تھے۔ اب ن کے پاس ان کی خانہ سازشریعت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ لیکن وہ اس پر اس حدتک مطمئن اور خوش تھے کہ اللہ کے آخری رسول کی دعوت کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔
Top