Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 81
بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ
بَلْ قَالُوْا : بلکہ انہوں نے کہا مِثْلَ : جیسے مَا قَالَ : جو کہا الْاَوَّلُوْنَ : پہلوں نے
بلکہ انھوں نے وہی بات کہی جو پہلے کفار کہا کرتے تھے
بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ ۔ قَالُوْٓائَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًائَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْن۔ َ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَآؤُ نَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ۔ (المومنون : 81، 83) (بلکہ انھوں نے وہی بات کہی جو پہلے کفار کہا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کیا جب ہم مرجائیں گے اور خاک اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا ہمیں پھر اٹھایا جائے گا۔ بلاشبہ ہم سے اور ہمارے آبائواجداد کے ساتھ بھی آج سے پہلے یہی وعدہ کیا گیا، یہ محض اگلوں کے افسانے ہیں۔ ) قریش کا فسادِ عقیدہ اپنے جاہل آباء کا تسلسل ہے اللہ تعالیٰ کی ان بےپناہ قدرتوں اور کائنات کے اس دقیق اور حکیمانہ نظم و نسق کو دیکھ کر چاہیے تو یہ تھا کہ وہ یہ کہتے کہ یہ کائنات جس ذات عظیم کی شاہکار ہے وہ یقینا تمام صفاتِ کمال سے متصف ہے۔ اس کی قدرت کاملہ کے سامنے مردوں کو زندہ کرنا اور ایک نئی دنیا بسانا اور تمام اگلوں اور پچھلوں کو حساب کتاب کے لیے ایک جگہ جمع کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن ان عقل کے دشمنوں کا حال یہ ہے کہ بجائے اس سامنے کی بات کو تسلیم کرنے کے انھوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے جو ان کے آبائواجداد نے لگا رکھی تھی کہ ہم جب مرنے کے بعد متفرق ہڈیوں میں تبدیل ہوجائیں گے، آخر ہماری ہڈیاں بھی بوسیدگی کی نذر ہوجائیں گی اور مٹی کے ڈھیر کے سوا کوئی چیز باقی نہیں بچے گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمیں ازسرنو زندہ کرکے اٹھا کھڑا کیا جائے۔ یہ ایک ایسی انہونی بات ہے جس سے ہمارے اگلوں کو بھی ڈرایا گیا اور ہمیں بھی اس کی دھمکی دی جارہی ہے لیکن نہ اس سے پہلے قیامت آئی اور نہ آج آرہی ہے۔ یہ سب پرانے افسانے ہیں، قصے کہانیاں ہیں جنھیں بار بار دہرایا جارہا ہے، ہم ان دھمکیوں میں آنے والے نہیں۔ صدیاں گزر گئیں اگر قیامت کو آنا ہوتا تو وہ کبھی کی آچکی ہوتی۔ ایسی بےسروپا باتوں پر ہم یقین لانے سے قاصر ہیں اور ایسی انہونی بات کو قبول کرکے ہم اپنی زندگیوں کے عیش و آرام کو دائو پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ اَسَاطِیْرُ : نحو و آدب کے امام مبرد نے اس لفظ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اَسَاطِیْرُ اسطورہ کی جمع ہے، جس طرح احادیث احدوثۃ کی جمع ہے۔ اور اعاجیب، اعجوبہ کی جمع ہے۔ یہ ایسی تحریر پر بولا جاتا ہے جو محض دل بہلانے کے لیے لکھی گئی ہو، جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ تفسیر مظہری کے مصنف کا ارشاد ہے کہ جھوٹی اور بےسروپا باتوں کو اساطیر کہتے ہیں۔ مشرکین مکہ بھی قرآن کریم کو اسی معنی میں پہلے لوگوں کے اساطیر قرار دیتے تھے۔
Top