Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 67
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَآ اَنْفَقُوْا : جب وہ خرچ کرتے ہیں لَمْ يُسْرِفُوْا : نہ فضول خرچی کرتے ہیں وَلَمْ يَقْتُرُوْا : ور نہ تنگی کرتے ہیں وَكَانَ : اور ہے بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان قَوَامًا : اعتدال
اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں بلکہ ان کا خرچ کرنا اسراف اور بخل کے درمیان اعتدال سے ہوتا ہے
وَالَّذِیْنَ اِذَٓا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔ (الفرقان : 67) (اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں بلکہ ان کا خرچ کرنا اسراف اور بخل کے درمیان اعتدال سے ہوتا ہے۔ ) عبادالرحمن کی ایک اور صفت عبادالرحمن کی ایک صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اگر دولت عطا کرے تو وہ دولت کے نشے میں مخمور ہو کر بےاعتدالی کی روش اختیار نہیں کرتے۔ زندگی کے باقی معاملات کی طرح ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی نہایت اعتدال کی تصویر ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس مال و دولت اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، ہماری ملکیت نہیں۔ ملکیت رکھنے والا شخص تو کسی حد تک اپنی مملوک چیز میں من مرضی کا رویہ اختیار کرسکتا ہے لیکن کسی امانت کا حامل ان حدود سے ہرگز تجاوز نہیں کرسکتا جو امانت رکھنے والے نے امانت رکھتے ہوئے اس پر لازم کی ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے زیر تصرف مال و دولت میں دوسروں کے بھی حقوق ہیں۔ اس لیے ہم خرچ کرتے ہوئے ایسا طریقہ اختیار نہیں کرسکتے جس میں دوسروں کے حقوق متأثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ ان تصورات کی وجہ سے وہ اپنے زیرتصرف مال میں نہ اسراف کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور نہ بخیل بن کر خزانے کا سانپ بن جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مال و دولت خرچ کرتے ہوئے آدمی کے سامنے وہ کیا معیار رہنا چاہیے جس سے اسراف سے بھی بچا جاسکے اور بخل سے بھی۔ علماء نے اسراف کی تعریف کرتے ہوئے تین چیزوں کی نشاندہی کی ہے۔ 1 ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا اسراف ہے، خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی کوئی ایسی چیز خریدنا جو بجائے خود حرام ہو یا حرام کا ذریعہ بن سکتی ہو، ایسے لوگوں کی خدمت کرنا جن کی وجہ سے برائی پھیل رہی ہو، ایسے ذرائع پر پیسہ لگانا جس سے غربت بڑھے اور بےحیائی پھیلے۔ 2 جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا، یعنی اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرنا جس سے ان کے حقوق کو نقصان پہنچے جو اس کے پاس مال و دولت پر عائد ہوتے ہیں۔ 3 نیکی کے کاموں میں ریا اور نمائش کے لیے خرچ کرنا یا شہرت کے حصول کے لیے پیسہ لٹانا، یہ سب اسراف کی مختلف شکلیں ہیں۔ بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ 1 آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی طاقت اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے۔ مثلاً بچوں کی تعلیم و تربیت میں جائز حد تک بھی دولت خرچ کرنے سے گریز کرے۔ بچوں کو ایسا لباس بنا کر نہ دے جو ان کی جائز ضرورت ہو۔ جس معاشرے میں رہائش ہواستطاعت رکھتے ہوئے بھی ایسا مکان نہ بنائے یا گھر کی ایسی حالت رکھنے سے گریز کرے جو عزت نفس کے لیے ضروری ہو۔ اہل خانہ پر ایسی مالی پابندیاں لگا دے جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی۔ 2 نیکی اور بھلائی کے کاموں میں پیسہ خرچ کرنا گوارا نہ کرے۔ ذاتی ضروریات اور اہل خانہ کی ضروریات پر بےدریغ روپیہ لٹائے، لیکن غریب لوگوں، رفاہی کاموں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے ایک پیسہ بھی اس کے ہاتھ سے نہ نکلے۔ ان دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال کی راہ، اسلام کی راہ ہے۔ اس کے لیے ایک معین معیار مقرر کرنا اگرچہ مشکل ہے کیونکہ حالات کے تغیر کے اعتبار سے فرق پیدا ہوسکتا ہے۔ لیکن جو شخص زندہ ضمیر رکھتا ہے اور اس کے اندر بصیرت نام کی کوئی چیز بھی پائی جاتی ہے اور وہ اپنے معاشرے کی جائز ضروریات کو بھی سمجھتا ہے اور بچوں اور خواتین کے لیے احساسات کو بھی جانتا ہے، تو اس کے لیے اعتدال کی راہ اختیار کرنا اور اس کے لیے ایک معیار مقرر کرلینا کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہمارے سلف صالحین نے جو نمونہ چھوڑا ہے اس کا رجحان انفاق فی سبیل اللہ کی طرف ہے۔ وہ معیارِ زندگی اونچا کرنے کی خبط میں مبتلا ہونے کی بجائے زیادہ سے زیادہ غریبوں کی بھلائی اور دینی ضروریات پر خرچ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے برائیاں بھی روکی جاسکتی ہیں اور معاشرے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا جو مرض پیدا ہوتا جارہا ہے اس کا بھی علاج ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ احتیاطیں ملحوظ نہ رکھیں جائیں تو پھر اس کے نتیجے میں ایک ایسی سرمایہ دارانہ ذہنیت پیدا ہوتی ہے جس میں اخلاقی قدریں عدم تحفظ کی وجہ سے دم توڑ جاتی ہیں اور ایسے معاشرے پر بالآخر اشتراکیت کا عذاب مسلط ہو کر رہتا ہے۔
Top