Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 136
قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَ عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَۙ
قَالُوْا : وہ بولے سَوَآءٌ : برابر عَلَيْنَآ : ہم پر اَوَعَظْتَ : خواہ تم نصیحت کرو اَمْ لَمْ تَكُنْ : یا نہ ہو تم مِّنَ : سے الْوٰعِظِيْنَ : نصیحت کرنے والے
یہ باتیں تو یونہی ہوتی چلی آئی ہیں
قَالُوْا سَوَآئٌ عَلَیْنَـآ اَوَعَظْتَ اَمْ لَمْ تَـکُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْن۔ (الشعرآء : 136) (انھوں نے جواب دیا کہ تم نصیحت کرو یا نہ کرو، ہمارے لیے سب یکساں ہیں۔ ) قلبی قساوت کی آخری حد قوموں میں بگاڑ کے بھی درجات ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ قومیں نصیحت سے لاپرواہی کا رویہ اختیار کرتی ہیں، پھر بےاعتنائی پیدا ہوتی ہے، لیکن دل میں اس بات کا احساس ضرور ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنا وقت اور اپنی توانائی صرف کرکے ہمارے پاس نصیحت کے لیے آتے ہیں یقینا وہ ہمارے خیرخواہ ہیں۔ نصیحت قبول نہ بھی کی جائے، دل میں ناصح کی خیرخواہی کا احساس ضرور ہوتا ہے لیکن بگاڑ کا آخری درجہ یہ ہے کہ نہ، نصیحت سے تعلق رہے اور نہ ناصح سے، بلکہ ناصح سے بیزاری پیدا ہوجائے۔ اور صاف کہا جانے لگے کہ آپ ہمیں نصیحت کریں یا نہ کریں، ہمارے دلوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، کیونکہ ہمارے ماحول، ہماری تعلیم و تربیت اور ہمارے طوراطوار نے ہمیں جو مزاج دیا ہے وہ تمہاری باتوں سے یکسر مختلف ہے۔ تم جو کچھ کہتے ہو ہمارے طبیعتیں اسے قبول نہیں کرتیں۔ تم اور وادی کے مسافر ہو، ہم اور وادی کے۔
Top