Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 155
قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۚ
قَالَ : اس نے فرمایا هٰذِهٖ : یہ نَاقَةٌ : اونٹنی لَّهَا : اس کے لیے شِرْبٌ : پانی پینے کی باری وَّلَكُمْ : اور تمہارے لیے شِرْبُ : بایک باری پانی پینے کی يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ : معین دن
حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے، ایک دن اس کے پانی پینے کی باری ہے اور ایک مقرر دن تمہاری باری ہے
قَالَ ھٰذِہٖ نَاقَـۃٌ لَّھَا شِرْبٌ وَّلَـکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ۔ وَلاَ تَمَسُّوْھَا بِسْوْٓئٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ۔ (الشعرآء : 155، 156) (حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے، ایک دن اس کے پانی پینے کی باری ہے اور ایک مقرر دن تمہاری باری ہے۔ اسے کوئی گزند نہ پہنچانا ورنہ تمہیں ایک برے دن کا عذاب آپکڑے گا۔ ) حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) سے مروی ہے کہ قوم ثمود نے آپ ( علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ اس چٹان سے سرخ رنگ کی اونٹنی نکلے، جو دس ماہ کی حاملہ ہو اور ہماری آنکھوں کے سامنے بچہ جنے، تو ہم تمہیں رسول مان لیں گے۔ آپ ( علیہ السلام) نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔ دعا قبول ہوئی اور اس چٹان سے ان کی مطلوبہ اونٹنی نکل آئی۔ قوم کے مطالبے پر نشانی کا ظہور بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ وہ ایک عام اونٹنی تھی، ہوسکتا ہے کہ وہ اونٹنی حضرت صالح (علیہ السلام) کی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوم ثمود کی آزمائش کے لیے اسے مقرر کردیا گیا۔ لیکن یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ قوم ثمود نے معجزہ طلب کیا تھا اور کوئی سی اونٹنی بطور معجزہ اگر پیش کی جاتی تو قوم اسے یقینا ایک مذاق سمجھتی۔ اور سورة ہود سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے جو اونٹنی ان کے سامنے پیش کی، قرآن کریم نے اسے آیت، یعنی معجزہ سے تعبیر کیا ہے۔ اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) کی روایت کے مطابق وہ اونٹنی ایک چٹان سے نکلی ہو تو کوئی بعید بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی کو اس قوم کے لیے ایک آزمائش بنادیا۔ اولاً تو اونٹنی کا غیرمعمولی طریقے سے وجود میں آنا ہی ان کے ایمان لانے کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا لیکن مزید ان کے لیے اس بات کو آزائش بنایا گیا کہ یہ اونٹنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابل میں ایک بند کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر تم نے اس بند کو توڑا تو تم پر عذاب الٰہی آدھمکے گا۔ ایک دن تنہا یہ اونٹنی تمہارے کنوئوں اور چشموں سے پانی پیئے گی اور ایک دن ساری قوم کے انسان اور حیوان پانی پئیں گے۔ جو دن اونٹنی کی باری کا ہو اس دن کوئی اس کے مزاحم ہونے کی کوشش نہ کرے۔ عرب میں پانی کی کمیابی کی وجہ سے اس کی جو اہمیت تھی اس کے پیش نظر یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔ اور قوم چونکہ اپنی آنکھوں سے غیرمعمولی طریقے سے چٹان سے اونٹنی کا نکلنا دیکھ چکی تھی اس لیے وہ اتنے سخت مطالبے پر بھی احتجاج تو کیا کرتی، خاموش رہی۔ اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کتنا عرصہ اس آزمائش کی بجاآوری میں گزرا۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر ہم نے اس اونٹنی کو کوئی نقصان پہنچایا تو ہم پر کوئی تباہی آسکتی ہے۔
Top