Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 189
فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
فَكَذَّبُوْهُ : تو انہوں نے جھٹلایا اسے فَاَخَذَهُمْ : پس پکڑا انہیں عَذَابُ : عذاب يَوْمِ الظُّلَّةِ : سائبان والا دن اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : بڑا (سخت) دن
پس انھوں نے اسے جھٹلا دیا، پس آدبوچا ان کو چھتری والے دن کے عذاب نے، بیشک وہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا
فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ ط اِنَّـہٗ کَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ۔ (الشعرآء : 189) (پس انھوں نے اسے جھٹلا دیا، پس آدبوچا ان کو چھتری والے دن کے عذاب نے، بیشک وہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا۔ ) یَوْمِ الظُّلَّۃِ کا عذاب آگیا قومِ شعیب پر جو عذاب آیا، اس کی کوئی تفصیل قرآن مجید میں یا کسی صحیح حدیث میں مذکور نہیں ہے۔ اس آیت کے ظاہر الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے چونکہ آسمانی عذاب مانگا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک بادل بھیج دیا، وہ چھتری کی طرح ان پر اس وقت تک چھایا رہا جب تک عذاب نے ان کو بالکل تباہ نہ کردیا۔ سورة ہود آیت 94 میں اس آیت کی تعبیر لفظ صَیْحَۃٌسے کی گئی ہے جس کے معنی ڈانٹ اور کڑک کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب دور سے دیکھنے میں غبار یا ابر یا دھویں کے ایک ستون یا سائبان کی شکل میں نظر آیا۔ اور پھر اس نے صَیْحَۃٌ کی شکل اختیار کرلی۔ ابنِ جریر ( رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) کا یہ قول نقل کیا ہے من حدثک من العلماء ما عذاب یوم الظلۃ فکذبہ۔ ” علماء میں سے جو کوئی تم سے بیان کرے کہ یوم الظلۃ کا عذاب کیا تھا، اس نے جھوٹ بولا۔ “ واللہ اعلم۔
Top