Ruh-ul-Quran - An-Naml : 12
وَ اَدْخِلْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ١۫ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ قَوْمِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ
وَاَدْخِلْ : اور داخل کر (ڈال) يَدَكَ : اپنے گریبان میں فِيْ جَيْبِكَ : اپنے گریبان میں تَخْرُجْ : وہ نکلے گا بَيْضَآءَ : سفید۔ روشن مِنْ : سے۔ کے غَيْرِ سُوْٓءٍ : کسی عیب کے بغیر فِيْ : میں تِسْعِ اٰيٰتٍ : نو نشانیاں اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَقَوْمِهٖ : اور اس کی قوم اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : ہیں قَوْمًا : قوم فٰسِقِيْنَ : نافرمان
آپ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالیے، وہ بغیر کسی مرض کے چمکتا ہوا نکلے گا، (یہ دو معجزات) نو معجزات میں سے ہیں، فرعون اور اس کی قوم کی طرف جایئے، بیشک وہ بڑے سرکش لوگ ہیں
وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِسُؤٓئٍ قف فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ ط اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ۔ (النمل : 12) (آپ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالیے، وہ بغیر کسی مرض کے چمکتا ہوا نکلے گا، (یہ دو معجزات) نو معجزات میں سے ہیں، فرعون اور اس کی قوم کی طرف جایئے، بیشک وہ بڑے سرکش لوگ ہیں۔ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا جانے والا دوسرا معجزہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصائے موسیٰ کے ساتھ جو دوسرا معجزہ عطا کیا گیا یہ اس کا بیان ہے۔ آپ ( علیہ السلام) سے کہا گیا کہ آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالیے۔ چناچہ جب باہر نکالا گیا تو وہ چمکتے ہوئے سورج کی مانند تھا۔ لیکن ساتھ ہی ہر طرح کا تردد ختم کرنے کے لیے فرمایا کہ اس ہاتھ کی سفیدی اور چمک کسی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ معجزے کی وجہ سے ہوگی۔ ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تردد ختم کرنے کے لیے یہ بات کہی گئی ہو۔ کیونکہ وہ اس سے پہلے اپنے عصا کو سانپ کی طرح رینگتا ہوا دیکھ کر غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے۔ ہاتھ کو چمکتا ہوا دیکھ کر بھی ممکن تھا کہ ان کے ذہن میں کوئی اور خیال پیدا ہوتا، اس لیے پہلے سے اس کی وضاحت کردی گئی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ مخالفین کی جانب سے کی جانے والی تأویلوں کا راستہ بند کرنا بھی مقصود ہو۔ کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جن لوگوں نے معجزات کا انکار کیا انھوں نے ہر معجزے کی کوئی نہ کوئی تأویل کی۔ یدِبیضا کے بارے میں کہا گیا کہ یہ کوئی معجزہ نہ تھا بلکہ برص کی بیماری تھی جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ہاتھ سفید ہوگیا تھا۔ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ تورات میں تحریف کرنے والوں نے یہ لکھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں برص کے مانند سفیدی تھی۔ یعنی انھوں نے بھی اسے برص کی بیماری قرار دیا اور معجزے کو تسلیم کرنے سے پہلوتہی کی۔ اس آیت کریمہ سے ایک اور بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزات عطا کیے گئے تھے جن کی تفصیل سورة الاعراف میں جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے۔ 1 عصائے موسیٰ 2 یدِ بیضا 3 جادوگروں کی شکست 4 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پیشگی اعلان کے مطابق سارے ملک میں قحط 5 طوفان 6 ٹڈی دل 7 تمام غلے کے ذخیروں میں سرسریاں اور انسان و حیوان سب کے بالوں میں جوئیں 8 مینڈکوں کا ہجوم 9 خون۔ چناچہ ابتداء میں صرف دو معجزات دے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو انذار کے لیے بھیجا گیا اور باقی معجزات کا ظہور آئندہ سالوں میں مختلف وقتوں میں ہوا۔ قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر واضح کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعلان کے مطابق کوئی بلائے عام مصر پر نازل ہوتی تھی تو فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہتا تھا کہ آپ ( علیہ السلام) اپنے خدا سے دعا کرکے اس بلا کو دور کرا دیجیے تو پھر جو کچھ آپ ( علیہ السلام) کہیں گے ہم مان لیں گے۔ مگر جب وہ بلا ٹل جاتی تھی تو فرعون اپنی ہٹ دھرمی پر اڑ جاتا تھا۔ ایک سوال اور اس کا جواب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ باقی انبیائے کرام کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ انھیں اپنی قوم کے پاس انذار کے لیے بھیجا گیا لیکن معجزات کا ظہور اس وقت شروع ہوا جب تبلیغ و دعوت کو ایک مدت گزر گئی اور لوگوں نے ایمان لانے کی بجائے نشانیوں کا مطالبہ شروع کردیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کی تائید و نصرت کے لیے مختلف مواقع پر مختلف نشانیاں دکھائیں لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سلسلے میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں فریضہ نبوت کی ادائیگی کے لیے بھیجنے سے پہلے دو بڑے معجزات سے مسلح کیا، اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرعون بہت بڑی طاقت کا مالک، مطلق العنان فرمانروا، خدائی کا دعویدار، انتہائی متکبر اور منتقم المزاج آدمی تھا۔ اور ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر پہلے سے قبطی کے قتل کا ایک دعویٰ قائم تھا۔ اس کے قصاص کے لیے آپ ( علیہ السلام) کو گرفتار کیا جانے والا تھا کہ آپ ( علیہ السلام) مصر سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب آپ ( علیہ السلام) کی واپسی کی صورت میں اس کا غالب گمان تھا کہ وہ آپ ( علیہ السلام) کو دیکھتے ہی قصاص لینے کا حکم جاری نہ کردے۔ اس لیے ضروری تھا کہ آپ ( علیہ السلام) کو ایسے اسلحہ سے مسلح کرکے بھیجا جاتا کہ فرعون آپ ( علیہ السلام) پر دست درازی سے پہلے سوچنے پر مجبور ہوجاتا۔ یہ معجزات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ایک طرح کا دفاعی اسلحہ بھی تھا اور سند ماموریت بھی۔ ان کو دیکھ لینے کے بعد کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا تھا کہ آپ ( علیہ السلام) محض اپنی طرف سے نبوت کا دعویٰ کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف آپ ( علیہ السلام) کے دعوے کا انتساب بالکل غلط ہے۔
Top