Ruh-ul-Quran - An-Naml : 8
فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَا١ؕ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَهَا : اس ( آگ) کے پاس آیا نُوْدِيَ : ندا دی گئی اَنْۢ بُوْرِكَ : کہ برکت دیا گیا مَنْ : جو فِي النَّارِ : آگ میں وَمَنْ : اور جو حَوْلَهَا : اس کے آس پاس وَسُبْحٰنَ : اور پاک اللّٰهِ : اللہ رَبِّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں
تو جب ( حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے پاس آئے تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے اردگرد ہے، اور پاک ہے اللہ سب جہان والوں کا رب
فَلَمَّا جَآئَ ھَا نُوْدِیَ اَنْ م بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا ط وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (النمل : 8) (تو جب ( حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے پاس آئے تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے اردگرد ہے، اور پاک ہے اللہ سب جہان والوں کا رب۔ ) وادیِ طور میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر عنایتِ ربانی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب وہاں پہنچے جہاں آپ ( علیہ السلام) کو آگ دکھائی دی تھی تو آپ ( علیہ السلام) نے دیکھا کہ وادی کے کنارے ایک خطے میں آگ سی لگی ہوئی ہے۔ مگر نہ کچھ جل رہا تھا اور نہ کوئی دھواں اٹھ رہا تھا۔ اور سورة القصص کی وضاحت کے مطابق اس آگ کے اندر ایک ہرا بھرا درخت کھڑا تھا جو جلنے کی بجائے اپنی سرسبزی اور شادابی میں پہلے سے دوچند ہوتا جارہا تھا۔ یکایک اس درخت میں سے آواز آنے لگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کچھ اندازہ نہ کرسکے کہ یہ آواز کس کی ہے اور کہاں سے آرہی ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کو چاروں طرف سے آواز سنائی دے رہی تھی۔ یہ ایک غیرمعمولی کیفیت تھی جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہلی دفعہ دوچار ہوئے تھے اور انبیائے کرام کے ساتھ ایسے ہی معاملات پیش آتے ہیں جو ان کے لیے حیرانی کا باعث ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیاء (علیہم السلام) کے نفوس میں اور خارج کے ماحول میں ایک ایسی غیرمعمولی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے جس سے یہ یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ ہونے والا واقعہ یا آنے والی آواز اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، کسی شیطان کا کرشمہ نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ہاتف کی آواز تھی۔ چناچہ اس کی وضاحت کے لیے اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ آگ نہیں ہے بلکہ اس روشنی کے پردے میں اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات اپنے بابرکت کروبیوں کے جلو میں جلوہ گر ہے۔ اس غیرمعمولی صورتحال سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مانوس کرنے کے لیے یہ فرمایا گیا کہ وہ ذات بڑی بابرکت ہے جو اس آتش نما نور میں ہے اور اس کا سارا ماحول بھی بہت برکت والا ہے۔ ایک شبہ کا ازالہ البتہ اس آگ کا ایک مخصوص جگہ میں پایا جانا اور ہاتفِ غیبی کا یہ کہنا کہ بہت بابرکت ہے جو اس کے اندر ہے، یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف اشارہ تھا۔ اس سے غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی محدود مقام میں سما جاتا ہے اور انسانوں کی طرح مخصوص زبان میں گفتگو فرماتا ہے۔ اس لیے شبہ کے ازالے کا یہی بہترین طریقہ تھا جو اختیار کیا گیا۔ فرمایا : سُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ” یعنی اللہ تعالیٰ پاک اور منزہ ہے جہت و مکان سے، اور ان تمام عیوب سے جو حدوث کو مستلزم ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس بات پر متنبہ کرنا مقصود ہو کہ یہ معاملہ کمال درجہ تنزیہہ کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ اس آواز میں نہ درخت کا دخل ہے، نہ اللہ تعالیٰ کا نور کسی میں اترا ہے، نہ اس کی ذات نے کسی میں حلول کیا ہے۔ وہ ذات جو ہر طرح کی مشابہت سے پاک، ہر طرح کے حدوث سے منزہ اور ہر چون و چرا سے بالا ہے۔ وہ ان تمام صفات سے متصف ہوتے ہوئے بھی بذات خود تم سے مخاطب ہے۔ یہ اس کی تجلی ہے جو تمہیں نظر آرہی ہے۔
Top