Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 18
فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَةِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسْتَنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُهٗ١ؕ قَالَ لَهٗ مُوْسٰۤى اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ
فَاَصْبَحَ : پس صبح ہوئی اس کی فِي الْمَدِيْنَةِ : شہر میں خَآئِفًا : ڈرتا ہوا يَّتَرَقَّبُ : انتظار کرتا ہوا فَاِذَا الَّذِي : تو ناگہاں وہ جس اسْتَنْصَرَهٗ : اس نے مددمانگی تھی اس سے بِالْاَمْسِ : کل يَسْتَصْرِخُهٗ : وہ (پھر) اس سے فریاد کر رہا ہے قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّكَ : بیشک تو لَغَوِيٌّ : البتہ گمراہ مُّبِيْنٌ : کھلا
پس دوسرے روز حضرت موسیٰ شہر میں داخل ہوئے ڈرتے ہوئے اور ہر طرف سے خطرہ بھانپتے ہوئے تو اچانک آپ نے دیکھا کہ وہی شخص جس نے کل آپ کو مدد کے لیے پکارا تھا، آج پھر آپ کو پکار رہا ہے، حضرت موسیٰ نے اس سے کہا کہ تو، تو بڑا ہی بہکا ہوا آدمی ہے
فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَۃِ خَآئِفًایَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسْتَـنْصَرَہٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُہٗ ط قَالَ لَـہٗ مُوْسٰٓی اِنَّـکَ لَغَوٍیٌّ مُّبِیْنٌ۔ فَلَمَّـآ اَنْ اَرَادَاَنْ یَّبْطِشَ بِالَّذِیْ ھُوَعَدُوٌّلَّہُمَالا قَالَ یٰمُوْسٰٓی اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا م بِالْاَمْسِصلے ق اِنْ تُرِیْدُ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ وَمَا تُرِیْدُ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ ۔ (القصص : 18، 19) (پس دوسرے روز حضرت موسیٰ شہر میں داخل ہوئے ڈرتے ہوئے اور ہر طرف سے خطرہ بھانپتے ہوئے تو اچانک آپ نے دیکھا کہ وہی شخص جس نے کل آپ کو مدد کے لیے پکارا تھا، آج پھر آپ کو پکار رہا ہے، حضرت موسیٰ نے اس سے کہا کہ تو، تو بڑا ہی بہکا ہوا آدمی ہے۔ پھر جب حضرت موسیٰ نے ارادہ کیا کہ پکڑیں اس شخص کو جو ان دونوں کا دشمن تھا۔ تو وہ بول اٹھا کہ اے موسیٰ ! کیا تم آج مجھے قتل کرنا چاہتے ہو، جس طرح تم نے کل ایک شخص کو قتل کیا، تم اس ملک میں ایک جبار بننے کا ارادہ کررہے ہو، تم اصلاح کرنے والوں میں سے نہیں بننا چاہتے۔ ) عہد کے پاس کے لیے مزید احتیاط حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے معمول کے مطابق دوسرے روز اس حال میں شہر میں داخل ہوئے کہ آپ ( علیہ السلام) خوفزدہ بھی تھے اور حالات کو سونگھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے نہایت احتیاط سے آگے بڑھ رہے تھے۔ یوں تو احتیاط آپ پہلے بھی کرتے تھے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جس طرح میں طریقے طریقے سے اسرائیلیوں کی حمایت کر رہا ہوں اور ان کے معاملات کی درستگی کے لیے کوشاں ہوں اس سے قوم کے بعض بڑے لوگ مجھے شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر اسرائیلیوں سے آپ ( علیہ السلام) کی ہمدردی کا سبب کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کا نسبی تعلق بنی اسرائیل سے ہو اور بنی اسرائیل نے بڑی ہوشیاری سے آپ کو فرعون کے محل میں پہنچا دیا ہو۔ لیکن ابھی تک ان باتوں کی حیثیت صرف واہموں کی تھی کیونکہ فرعون اور اس کے اہل خانہ کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسی بات ظہورپذیر نہیں ہوئی تھی جس سے محل چھوڑنے کی نوبت آتی اور ریاست کا قانون آپ کیخلاف حرکت میں آتا۔ لیکن آپ کے ہاتھوں ایک قبطی کے مارے جانے کی وجہ سے آپ زیادہ محتاط ہوگئے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس موت کا راز کھل جائے تو قبطی میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس لیے آپ حالات کی ٹوہ لیتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے، لیکن آپ کیا دیکھتے ہیں کہ وہی شخص جو کل ایک قبطی سے لڑ رہا تھا وہی آج بھی ایک قبطی سے الجھا ہوا ہے اور آپ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ آپ اس کی یہ حالت دیکھ کر فوراً سمجھ گئے کہ میں نے کل اس کو مظلوم سمجھ کر اس کی مدد کی اور اس کے نتیجے میں ایک انسانی جان ضائع ہوگئی۔ لیکن یہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود بہکا ہوا، بگڑا ہوا اور شریر آدمی ہے۔ چناچہ آپ نے اس کو ڈانٹا کہ تم تو ایک کھلے ہوئے شریر آدمی ہو۔ پھر آپ اس خیال سے آگے بڑھے کہ بجائے اس شخص کی مدد کرنے کے میں دونوں کو سمجھا بجھا کر معاملہ رفع دفع کردیتا ہوں، لیکن قبطی اپنے نسبی غرور اور حکومت سے تعلق کے زعم میں آپ کی مصالحانہ کوششوں کی قدر کرنے کی بجائے آپ سے الجھنے لگا۔ چناچہ اب آپ کے لیے ضروری ہوگیا کہ اس کو طاقت سے اسرائیلی سے الگ کردیں۔ چناچہ جیسے ہی آپ اس کی طرف بڑھے تو اسرائیلی نے یہ سمجھا کہ چونکہ مجھے اس سے پہلے ڈانٹ پلا چکے ہیں اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھونسا جو کل جو قبطی پر پڑا تھا، آج مجھ پر پڑے گا۔ اس لیے اس نے شور مچا دیا کہ اے موسیٰ ! تم نے جس طرح کل ایک آدمی کو مار ڈالا تھا، معلوم ہوتا ہے آج مجھے مار ڈالو گے۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ تم ایک مصلح بن کر اٹھے ہو، لیکن تمہارے رویئے سے محسوس ہوتا ہے کہ تم ایک مطلق العنان اور بےقابو آدمی بن کر زندگی بسر کرنا چاہتے ہو۔ تمہیں جو شاہی مراعات کا تحفظ حاصل ہے اس سے اصلاح کا کام لینے کی بجائے اپنی طاقت میں اضافے اور اپنی ہیبت بٹھانے کے لیے کام لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح سے اس نے نہایت کمینگی کا ثبوت دیتے ہوئے قبطی کے قتل کا راز فاش کردیا۔ اور اس طرح سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے مہیب خطرات پیدا کردیئے۔
Top