Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 34
وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ١٘ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ
وَاَخِيْ : اور میرا بھائی هٰرُوْنُ : ہارون هُوَ : وہ اَفْصَحُ : زیادہ فصیح مِنِّيْ : مجھ سے لِسَانًا : زبان فَاَرْسِلْهُ : سو بھیجدے اسے مَعِيَ : میرے ساتھ رِدْاً : مددگار يُّصَدِّقُنِيْٓ : اور تصدیق کرے میری اِنِّىْٓ اَخَافُ : بیشک میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يُّكَذِّبُوْنِ : وہ جھٹلائیں گے مجھے
اور میرے بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں، انھیں میرے ساتھ مدد کے طور پر بھیج دیجیے تاکہ وہ میری تائید کریں، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے
وَاَخِیْ ھٰرُوْنُ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْأً یُّـصَدِّقُـنِٓیْ ز اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّـکَذِّبُوْنِ ۔ (القصص : 34) (اور میرے بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں، انھیں میرے ساتھ مدد کے طور پر بھیج دیجیے تاکہ وہ میری تائید کریں، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔ ) اپنی تائید و نصرت کے لیے حضرت ہارون (علیہ السلام) کے تعاون کی درخواست حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی تائید و نصرت کے لیے ایک اور درخواست پیش کی۔ سورة طٰہٰ میں ہم اس کی وضاحت کرچکے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں لکنت نہ تھی لیکن وہ اپنی عظیم ذمہ داری کے اعتبار سے اپنی قوت بیان میں کمی محسوس فرماتے تھے۔ اور اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ انھیں کبھی اس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی اور نہ اس کا تجربہ ہوا تھا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم تھی کہ وہ ان کے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو قدرت کلام اور فصاحتِ بیان میں ان پر تفوق دے چکا تھا۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے اسی حوالے سے التجا کی کہ انھیں اس کام میں میرا مددگار بنادیا جائے تاکہ وہ ہر موقع پر میری تائید اور مدد کریں۔ اگرچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے تو ہر موقع پر آپ ( علیہ السلام) کی مدد کی لیکن رفتہ رفتہ آپ ( علیہ السلام) کی فصاحت و بلاغت اور زبان آوری میں اس حد تک ترقی ہوئی کہ آپ ( علیہ السلام) کو اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔
Top