Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 47
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِكَ وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ ہوتا اَنْ تُصِيْبَهُمْ : کہ پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا قَدَّمَتْ : اس کے سبب۔ جو بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ (ان کے اعمال) فَيَقُوْلُوْا : تو وہ کہتے رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَوْلَآ : کیوں نہ اَرْسَلْتَ : بھیجا تونے اِلَيْنَا : ہماری طرف رَسُوْلًا : کوئی رسول فَنَتَّبِعَ : پس پیروی کرتے ہم اٰيٰتِكَ : تیرے احکام وَنَكُوْنَ : اور ہم ہوتے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور ہم رسول نہ بھیجتے) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان پر ان کے اعمال کے سبب سے کوئی مصیبت آئے تو وہ کہیں اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہل ایمان میں سے ہوتے
وَلَوْ لَآ اَنْ تُصِیْبَہُمْ مُّصِیْبَۃٌ م بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلاً فَنَتَّبِعَ اٰیٰـتِکَ وَنَـکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (القصص : 47) (اور ہم رسول نہ بھیجتے) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان پر ان کے اعمال کے سبب سے کوئی مصیبت آئے تو وہ کہیں اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہل ایمان میں سے ہوتے۔ ) تین باتوں کی طرف اشارہ اس آیت کریمہ میں تین باتوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے فطرت، حواس اور عقل کی جو روشنی عطا فرمائی ہے وہ بھی انسان کو گمراہی اور بدعملی کی زندگی سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ اس روشنی کے عطا کردینے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ وحیِ الٰہی کا نور بھی نازل فرمائے۔ کیونکہ یہ بات تو صحیح ہے کہ تفصیلی احکام وحی الٰہی کے بغیر جاننا ممکن نہیں۔ لیکن ضروریاتِ دین کی پہچان اور اللہ تعالیٰ کے عرفان کے لیے عقل اور فطرت کی رہنمائی کفایت کرتی ہے۔ اس رہنمائی کے بعد اگر پروردگار کی جانب سے لوگوں کی بدعملیوں کی سزا کا سلسلہ شروع ہوجاتا تو وہ عدل کیخلاف ہرگز نہ ہوتا۔ دوسری بات جس کی طرف اشارہ فرمایا گیا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو زمین پر فساد پسند نہیں۔ وہ انسانوں کی کج روی اور بدعملی کو ایک حد تک ہی برداشت کرتا ہے۔ جب اخلاقی پیمانے بھر جاتے ہیں تو پھر اس کی طرف سے سزا نازل ہوجاتی ہے۔ اور اس کے لیے ضروری نہیں کہ اس سے پہلے کسی نبی کی بعثت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ تیسری بات جس کی طرف اشارہ فرمایا گیا وہ یہ ہے کہ وحی الٰہی کا نزول اور رسول کی بعثت اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص ہے۔ یہ ہدایت کی بنیادی ضرورت نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے کمال عدل سے یہ پسند فرمایا کہ وہ ہر طرح کے عذر کو ختم کردے اور لوگوں پر حجت تمام کردے۔ اس کے لیے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں۔ قریش اور دیگر اہل عرب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا فضلِ خاص اور اس کی خصوصی رحمت ہے کہ اس نے آخری رسول کو ہمارے اندر مبعوث فرمایا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ تنبیہ بھی ہے کہ اگر اتنی بڑی عنایت کے بعد بھی تم لوگوں نے اس کی قدر نہ کی تو پھر انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت تمام ہوچکی ہے اب قیامت کے دن ان کا کوئی عذر مسموع نہیں ہوگا۔
Top