Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 64
وَ قِیْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ وَ رَاَوُا الْعَذَابَ١ۚ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا یَهْتَدُوْنَ
وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا ادْعُوْا : تم پکارو شُرَكَآءَكُمْ : اپنے شریکوں کو فَدَعَوْهُمْ : سو وہ انہیں پکاریں گے فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا : تو وہ جواب نہ دیں گے لَهُمْ : انہیں وَرَاَوُا : اور وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب لَوْ اَنَّهُمْ : کاش وہ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ : وہ ہدایت یافتہ ہوتے
اور انھیں کہا جائے گا، اب پکارو اپنے شریکوں کو، تو وہ انھیں پکاریں گے لیکن وہ انھیں کوئی جواب نہیں دیں گے اور وہ عذاب سے دوچار ہوں گے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ ہدایت یافتہ ہوتے
وَقِیْلَ ادْعُوْا شُرَکَآئَ کُمْ فَدَعَوْھُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَھُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ ج لَوْ اَنَّھُمْ کَانُوْا یَھْتَدُوْنَ ۔ (القصص : 64) (اور انھیں کہا جائے گا، اب پکارو اپنے شریکوں کو، تو وہ انھیں پکاریں گے لیکن وہ انھیں کوئی جواب نہیں دیں گے اور وہ عذاب سے دوچار ہوں گے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ ) مشرکین کی بےبسی جن لیڈروں کے بارے میں مشرکین کا خیال تھا کہ وہ ان کو گمراہ کرنے والے تھے، جب وہ ان سے اظہارِ براءت کردیں گے تو اللہ تعالیٰ مشرکین سے فرمائے گا کہ تمہارے لیڈر تو تم سے اظہارِ براءت کرچکے، اب تمہارے پاس آخری سہارا ایک ہی ہے کہ تم جن قوتوں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ معبود مانتے رہے ہو انھیں اپنی مدد کے لیے پکارو۔ ممکن ہے یہ بات ان سے اس لیے کہی جائے کہ انھیں اچھی طرح اپنی گمراہی کا یقین ہوجائے۔ اور جن سہاروں پر انھوں نے آخرت کا انکار کیا تھا ان سہاروں کی حقیقت بھی ان پر کھل جائے۔ چناچہ وہ بےبسی کی حالت میں ان نام نہاد معبودوں کو پکاریں گے۔ لیکن توہمات اور خیال آرائی کو نہ پہلے کہیں وجود ملا ہے اور نہ آج ملے گا۔ افسانہ کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کرسکا۔ ان کی بےبسی کی پکار بھی کسی کو جواب دینے پر آمادہ نہ کرسکے گی۔ چناچہ ادھر سے مکمل طور پر مایوس ہوجانے کے بعد اور ہر سہارے کے ٹوٹ جانے کے بعد وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے اور اس عذاب سے دوچار کردیئے جائیں گے جس سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رسول نے انھیں ڈرایا تھا۔ آیت کریمہ کے آخر میں پروردگار ان کے حال پر اظہارِحسرت و افسوس کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کاش یہ لوگ ہدایت کے راستے پر چلنے والے ہوتے، اللہ تعالیٰ کے نبی کی دعوت کو قبول کرتے اور حق سے وابستگی اختیار کرتے تو آج اس عذاب سے دوچار نہ ہوتے۔
Top