Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 79
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پر (سامنے) قَوْمِهٖ : اپنی قوم فِيْ : میں (ساتھ) زِيْنَتِهٖ : اپنی زیب و زینت قَالَ : کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُرِيْدُوْنَ : چاہتے تھے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی يٰلَيْتَ : اے کاش لَنَا مِثْلَ : ہمارے پاس ہوتا ایسا مَآ اُوْتِيَ : جو دیا گیا قَارُوْنُ : قارون اِنَّهٗ : بیشک وہ لَذُوْ حَظٍّ : نصیب والا عَظِيْمٍ : بڑا
پس وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا، تو جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے کہنے لگے، کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، بیشک وہ بڑے نصیبے والا ہے
فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ ط قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوَنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰـلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ لا اِنَّـہٗ لَذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ ۔ (القصص : 79) (پس وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا، تو جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے کہنے لگے، کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، بیشک وہ بڑے نصیبے والا ہے۔ ) قارون کا اظہارِطاقت اور کمزور لوگوں کا تأثر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن دنوں حق و باطل کی کشمکش جاری تھی اور قارون اپنے خزانوں اور اپنے اثرواقتدار سے فرعون کی تائید کررہا تھا، تو ایک روز اس نے اپنی قوت و جمعیت کی نمائش کے لیے کوئی جلوس نکالا تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں پر یہ ظاہر کرے کہ وہ کتنی بڑی حیثیت کا مالک ہے اور اس کے بدلے میں فرعون سے مزید مراعات حاصل کرسکے۔ اور فِیْ زِیْنَتِہٖ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر اس نے اپنی دولت و حشمت کا خاص طور پر مظاہرہ کیا۔ کیونکہ عوام پر ایسی ہی چیزیں اثر کرتی ہیں۔ بنی اسرائیل کے لوگ چونکہ ابھی پوری طرح تربیت حاصل نہ کرسکے تھے اور فرعون کی غلامی اور چاکری نے انھیں محرومیوں کا مرقع بنا رکھا تھا۔ اس لیے ان میں سے وہ لوگ جو ابھی تک دولت دنیا ہی کو متاع حیات سمجھتے تھے قارون کے ٹھاٹھ باٹھ اور کروفر کو دیکھ کر کہنے لگے کہ قارون تو واقعی بڑی قسمت والا ہے۔ کاش ہمارے پاس بھی وہ دولت و رفاہیت ہوتی جس سے قارون بہرہ ور ہے۔
Top