Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 83
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
تِلْكَ : یہ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ : آخرت کا گھر نَجْعَلُهَا : ہم کرتے ہیں اسے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو لَا يُرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے عُلُوًّا : برتری فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا فَسَادًا : نہ فساد وَالْعَاقِبَةُ : اور انجام (نیک) لِلْمُتَّقِيْنَ : اور انجام (نیک)
یہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں غروروفساد چاہنے والے نہیں ہیں اور انجام کی بھلائی خدا سے ڈرنے والوں ہی کے لیے ہے
تِلْکَ الدَّارُالْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوَنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلاَ فَسَادًا ط وَالْعَاقِـبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ (القصص : 83) (یہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں غروروفساد چاہنے والے نہیں ہیں اور انجام کی بھلائی خدا سے ڈرنے والوں ہی کے لیے ہے۔ ) دارِآخرت کیسے لوگوں کے لیے ہے اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دارآخرت ان لوگوں کے لیے خاص کردیا گیا ہے جو خدا کی زمین پر اپنی بڑائی قائم کرنے کے خواہاں نہیں۔ جو سرکشی اور تکبر کو زندگی کا عنوان نہیں بناتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے بن کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنانے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ ان کی زندگی کا ہدف اللہ تعالیٰ کا بندہ بن کر اس کے قوانین کی اطاعت بھی ہے اور زمین اور اہل زمین پر اس کا نفاذ بھی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زمین پر بسنے والے جب سرکشی اور تکبر کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور بندہ بننے کی بجائے خدا اور طاغوت بن کر اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام نافذ کرنے کی بجائے خود ساختہ نظام اور اپنی مرضی کو مسلط کرتے ہیں تو فساد برپا ہوجاتا ہے۔ حق کی بجائے باطل کو فروغ ملتا ہے۔ عدل کی بجائے ظلم بروئے کار آتا ہے۔ حقوق سلب ہوتے اور بھلائیاں تلف ہوتی ہیں، نیکیوں کے خوشبودار اور مثمر درخت قدآور ہونے کی بجائے زہریلی جھاڑیاں پھیلتی ہیں۔ اس طرح سے زمین فساد سے بھر جاتی ہے۔ تو اس صورتحال کا نتیجہ یقینا تباہی و بربادی ہوگا۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا بھی جہنم ہے اور آخرت میں تو جہنم ہی ان کا مقدر ہوگا۔ لیکن جو لوگ زمین میں علو اور فساد نہیں چاہتے اللہ تعالیٰ نے دارآخرت کو ان کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ دارِآخرت سے مراد جنت ہے۔ لیکن جنت دنیا میں کیے ہوئے ان اعمال کا نتیجہ ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارے کیے ہیں۔ اس لیے دونوں میں غائیت درجہ وابستگی ہے۔ جنت اسی کو ملے گی جو زمین میں نظام حق و عدل کا قائم کرنے والا ہوگا۔ اس لیے آیت کے آخر میں فرمایا کہ جنت کا یہ انجام متقین کے لیے ہے۔ اور متقین یقینا وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے، بندگی اختیار کرتے اور حق کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں۔
Top