Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 86
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ٘
وَمَا كُنْتَ : اور تم نہ تھے تَرْجُوْٓا : امید رکھتے اَنْ يُّلْقٰٓى : کہ اتاری جائے گی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبُ : کتاب اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : سو تو ہرگز نہ ہوتا ظَهِيْرًا : مددگار لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
آپ اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ آپ پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو بس آپ کے رب کا فضل ہوا ہے، پس آپ کافروں کے مددگار نہ بنیں
وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ اِلاَّ رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَـکُوْنَنَّ ظَھِیْرًالِّـلْـکٰفِرِیْنَ ۔ (القصص : 86) (آپ اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ آپ پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو بس آپ کے رب کا فضل ہوا ہے، پس آپ کافروں کے مددگار نہ بنیں۔ ) آنحضرت ﷺ کی نبوت کی واضح دلیل اس آیت کریمہ میں سابق مضمون کی مزید وضاحت بھی ہے اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل بھی۔ جہاں تک نبوت کی دلیل کا تعلق ہے اس کے بعض پہلو واضح ہیں۔ مثلاً نبی کریم ﷺ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور پروان چڑھے، جس طرح آپ ﷺ کی تربیت ہوئی، جس طرح کے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا رہا، پھر جن لوگوں کے ساتھ آپ ﷺ کے خاندانی اور تجارتی روابط رہے، اور پھر جو لوگ تجارتی سفار میں آپ ﷺ کے شریک کار رہے، ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے دو باتیں نہایت نمایاں ہوکرسامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی کا کوئی گوشہ نبوت سے پہلے ایسا نہیں جس سے اہل مکہ واقف نہ ہوں۔ آپ ﷺ کے بکریاں چرانے کے زمانے سے لے کر غارحرا کی تنہائیوں تک ایک ایک تبدیلی اور ایک ایک مصروفیت کے جاننے والے لوگ موجود تھے۔ وہ سب اس بات پر متفق اور متحد تھے کہ آپ ﷺ کی چالیس سالہ زندگی میں کبھی آپ ﷺ سے کوئی ایسی بات ظاہر نہیں ہوئی، کبھی آپ ﷺ کی زبان سے کوئی ایسا کلمہ نہیں نکلا، کبھی آپ ﷺ نے کسی سے کوئی ایسی بحث نہیں فرمائی اور کبھی کسی ایسی مجلس میں نہیں پہنچے اور کبھی کسی ایسے آدمی سے ملاقات نہیں کی جس سے دور دور تک اس بات کا شبہ کیا جاسکتا ہو کہ آپ نبوت کا دعویٰ کرنے والے ہیں۔ یا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کی اصلاح کے لیے اسی طریقے پر کام کروں جس طرح پہلے انبیائے کرام کیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ مکہ میں ایک منفرد حیثیت کے مالک تھے۔ آپ کا بچپن دوسرے بچوں سے مختلف تھا، آپ کا لڑکپن دوسرے لڑکوں سے نمایاں تھا، آپ کی جوانی دوسرے جوانوں سے مختلف تھی۔ جوانی کی خوش فعلیاں جوانوں کے ساتھ صحبتیں، جوانوں جیسا لا ابالی پن، جوانوں کی طرح تفریحی مشاغل میں دلچسپیاں، گانے بجانے اور قصہ گوئی کی مجالس میں شرکت، سیر سپاٹے کے لیے جوانوں کے ساتھ مل کر کہیں باہر کا سفر، شعروشاعری سے غیرمعمولی دلچسپی، ان میں سے کوئی بات بھی آپ کے قریب تک بھی نہ پھٹکی تھی جبکہ لوگوں میں ہر طرح کی برائیوں کا چلن تھا، جھوٹ عام بولا جاتا تھا، سترپوشی کوئی اہمیت کی چیز نہ تھی، لڑائی جھگڑا لوگوں کا معمول تھا، دوسروں کی دلآزاری معمولی بات سمجھی جاتی تھی، شرافت و نجابت کی چنداں پرواہ نہ کی جاتی تھی، ہمدردی و غمگساری، خیرخواہی و ہمدردی، ایفائے عہد، وفاشعاری، صداقت کی پاسداری، ان باتوں کی بہت زیادہ پرواہ نہ کی جاتی تھی۔ لیکن آنحضرت ﷺ کی زندگی میں نہ ان برائیوں میں سے ہمیں کوئی برائی دکھائی دیتی ہے اور نہ ان خوبیوں میں سے کسی خوبی کا فقدان نظر آتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حیرانی کی بات یہ ہے کہ آپ نے ان مکارمِ اخلاق کے حوالے سے کبھی کوئی نصیحت نہیں فرمائی تھی، کبھی کسی کو ملامت نہیں کی تھی، آپ ایک روشن چراغ ضرور تھے لیکن دوسروں کے گھروں میں روشنیاں بکھیرنا آپ کا معمول نہ تھا۔ یعنی آپ انتہائی پاکیزہ زندگی ضرور رکھتے تھے لیکن آپ میں کسی طرح کے ادعا کا کوئی شائبہ تک نہ تھا آپ شرافت و نجابتِ انسانی کی اعلیٰ مثال ہوتے ہوئے اور ہر طرح کے عیبوں سے پاک زندگی گزارنے کے باوجود علمی طور پر آپ انھیں باتوں کو جانتے پہچانتے تھے اور وہی چیزیں آپ کے تصورات کا حصہ تھیں جن سے اہل مکہ واقف تھے۔ آپ چونکہ امی تھے اس لیے کسی کتاب سے استفادہ آپ کے لیے ممکن نہ تھا۔ آپ کی معلومات اور آپ کے علمی تصورات عام عربوں سے قطعی طور پر مختلف نہ تھے جس سے کبھی کسی کو شبہ ہوتا کہ آپ کے اندر ایک نئی علمی دنیا وجود پذیر ہورہی ہے جس کی وجہ سے آپ لوگوں میں کچھ علمی خیالات کا نفوذ چاہتے ہیں اور آپ کسی مناسب موقع کے انتظار میں ہیں جب آپ اس کا اظہار کرسکیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کوئی شخص بھی جو آپ کو اچھی طرح جانتا تھا وہ آپ کی پاکیزہ زندگی کا تو ضرور معترف تھا اور آپ کے خیالات کی پاکیزگی کی بھی شہادت دیتا تھا۔ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتا تھا کہ آپ دوسروں سے سیرت و کردار میں بہت مختلف ہیں۔ لیکن اس کا گمان کسی کو بھی نہ تھا کہ آپ نبی بننے والے ہیں اور نبوت کے دعوے کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں۔ غارِحرا کی تنہائی میں جب فرشتہ آپ پر وحی لے کر نازل ہوا اور قرآن کریم کی چند آیات آپ کو سنائیں تو تمام مستند احادیث اور تمام معتبر مؤرخین اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نہایت پریشان اور مضطرب حالت میں اس طرح گھر تشریف لائے کہ سخت سردی محسوس کررہے تھے اور فرما رہے تھے زملونی زملونی، مجھے اڑھائو، مجھے اڑھائو۔ چناچہ آپ کو لحاف اڑھا دیا گیا۔ جب آپ کی طبیعت کسی حد تک پرسکون ہوئی تو آپ نے اپنی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ ( رض) سے فرمایا، یہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ میں تو اپنی جان کے لیے خطرہ محسوس کرنے لگا ہوں۔ اور پھر سارا واقعہ انھیں سنایا۔ اس پر حضرت خدیجہ ( رض) نے کہا، کہ ہرگز نہیں ! آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی کسی مشکل میں نہ ڈالیں گے، آپ تو قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں، بےکس کو سہارا دیتے ہیں، بےزر کی دستگیری کرتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں، ہر کارخیر میں مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ پھر وہ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ وہ ایک زی علم اور راست باز آدمی تھے۔ وہ آپ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بےساختہ کہنے لگے یہ جو کچھ آپ کے پاس آیا تھا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ کے پاس آیا تھا۔ کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہر سے نکال دے گی۔ آپ نے حیران ہو کر کہا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں ! کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ ہوگئے ہوں۔ آپ کی زندگی کے حالات اور آپ کی رفیقہ حیات کی گواہی کیا یہ بات بتانے کے لیے کافی نہیں کہ آپ کے ذہن میں کبھی نبوت کا تصور بھی نہیں گزرا تھا۔ نہ آپ نے کبھی اس کی خواہش کی تھی، نہ کبھی آپ کو اس کی امید رہی۔ بلکہ جب نبوت کا پیغام آپ کے پاس پہنچا تو آپ اس وقت نہایت ششدر رہ گئے اور ہانپتے اور کانپتے ہوئے گھر پہنچے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اسی طرح عطا فرمائی جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبوت ایک ایسی وہبی چیز اور ایسا الٰہی پروانہ ہے کہ جس کسی کو عطا ہوتا ہے اسے دور دور تک اس کی امید نہیں ہوتی۔ یہ ضرور ہے کہ قدرت اس عظیم کام کے لیے اس کی تربیت کرتی ہے۔ لیکن اسے اس کا خواہشمند کبھی نہیں بناتی۔ سورة یونس میں اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : قُلْ لَوْشَائَ اللّٰہُ مَاتَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلاَ اَدْرَاکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرٌامِّنْ قَـبْلِہٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ۔ (آیت : 16) (اے نبی ان سے کہو، کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا بلکہ اس کی خبر تک تم کو نہ دیتا، آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم اتنی بات نہیں سمجھتے۔ ) اور سورة شوریٰ میں فرمایا : مَاکُنْتَ تَدْرِیْ مَاالْـکِتَابُ وَلاَ الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا۔ (آیت 52) (اے نبی، تم جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر ہم نے اس وحی کو ایک نور بنادیا جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتے ہیں۔ ) ہماری ان گزارشات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح نبی کریم ﷺ کو جس طرح نبوت عطا ہوئی کہ نہ آپ ﷺ کی ذات میں اس کا کوئی داعیہ موجود تھا، نہ آپ ﷺ کے اندر اس کی طلب پائی جاتی تھی، نہ کبھی آپ ﷺ نے اس کی خواہش فرمائی تھی، نہ آپ ﷺ کا ماحول اس کی غمازی کرتا تھا اور نہ آپ ﷺ کے قول و عمل میں اس بات کا کوئی شارہ پایا جاتا تھا بلکہ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت، اللہ تعالیٰ کا عطیہ، اس کی طرف سے ایک عظیم ذمہ داری کی تفویض اور ایک بہت بڑے کام کی بجاآوری کے لیے انتخاب تھا۔ اور ذمہ داری بھی ایسی کہ جس میں نہ اپنے گھر بار کی فکر کی گنجائش تھی، نہ اس میں کاروبار اور تجارت کا کوئی امکان تھا، نہ اس میں کچھ پانے کی امید تھی بلکہ سراسر سب کچھ کھو دینے اور قربانی و ایثار کا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ تھا جسے آدمی اپنی چاہت سے کبھی اختیار نہیں کرسکتا۔ ان حقائق کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس آپ ﷺ کی نبوت اور رسالت کی صداقت پر شبہ کرنے کی حماقت نہیں کرسکتا۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داری کو اپنی چاہت اور خواہش کے بغیر قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں اس کی مدد فرماتا ہے۔ اور جب کسی منصب کی آدمی تمنا اور خواہش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اس منصب کے حوالے کردیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے کہ یہ عظیم منصب چونکہ ہم نے آپ ﷺ کے سپرد کیا ہے جس میں آپ ﷺ کی خواہش کا کوئی دخل نہیں، اس لیے ہم ہی اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مدد کریں گے، اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات کو آسان کریں گے اور اس راہ کے بڑے سے بڑے دشمن کو ناکام و نامراد کریں گے۔ نیز یہ بات بھی کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں آپ ﷺ کی کامیابی درحقیقت ہماری کامیابی ہے کیونکہ ہم نے اس کا بار آپ ﷺ کے سر پر ڈالا ہے۔ اس لیے راستے کی مشکلات کتنی بھی عظیم ہوں آپ ﷺ ہرگز اس کی پرواہ نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کے سامنے کوئی مشکل بھی ٹھہر نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ کے دین کا مزاج آیت کے آخر میں فرمایا فَلاَ تَـکُوْنَنَّ ظَھِیْرًالِّـلْـکٰفِرِیْنَ ” آپ ان کافروں کے مددگار اور پشت پناہ نہ بنیں۔ “ اس میں خطاب اگرچہ نبی کریم ﷺ کو ہے لیکن اس میں جو تنبیہ و عتاب مضمر ہے اس کا رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ آپ کے مخالفین کی طرف ہے۔ اس میں انھیں اس دین اور نبی کریم ﷺ کی دعوت کی اہمیت اور مزاج سے آگاہ کرنا ہے۔ یعنی انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کی تکذیب اور آپ کے لائے ہوئے دین کا انکار اور مخالفت اپنے اندر اس قدر نزاکت رکھتی ہے کہ پیغمبر جو دین کا مناد و مبلغ بن کے آیا ہے اور جس کی زندگی اور زندگی کے تمام وسائل اسی دین کے فروغ اور بالادستی کے لیے وقف ہیں۔ اگر وہ بھی کبھی ان کافروں کی کسی حد تک معاونت کرنے لگیں جو اس دعوت کا راستہ روک رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو بھی اس کی اجازت ہرگز نہیں دے گا۔ چہ جائیکہ ان کافروں کو برداشت کیا جائے جو اس دین کی مخالفت کررہے ہیں اور جن کی کوشش یہ ہے کہ اس دین کو لوگوں میں نفوذ کا موقع نہ ملے۔
Top