Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 86
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّلْكٰفِرِیْنَ٘
وَمَا كُنْتَ
: اور تم نہ تھے
تَرْجُوْٓا
: امید رکھتے
اَنْ يُّلْقٰٓى
: کہ اتاری جائے گی
اِلَيْكَ
: تمہاری طرف
الْكِتٰبُ
: کتاب
اِلَّا
: مگر
رَحْمَةً
: رحمت
مِّنْ
: سے
رَّبِّكَ
: تمہارا رب
فَلَا تَكُوْنَنَّ
: سو تو ہرگز نہ ہوتا
ظَهِيْرًا
: مددگار
لِّلْكٰفِرِيْنَ
: کافروں کے لیے
آپ اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ آپ پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو بس آپ کے رب کا فضل ہوا ہے، پس آپ کافروں کے مددگار نہ بنیں
وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ اِلاَّ رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَـکُوْنَنَّ ظَھِیْرًالِّـلْـکٰفِرِیْنَ ۔ (القصص : 86) (آپ اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ آپ پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو بس آپ کے رب کا فضل ہوا ہے، پس آپ کافروں کے مددگار نہ بنیں۔ ) آنحضرت ﷺ کی نبوت کی واضح دلیل اس آیت کریمہ میں سابق مضمون کی مزید وضاحت بھی ہے اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل بھی۔ جہاں تک نبوت کی دلیل کا تعلق ہے اس کے بعض پہلو واضح ہیں۔ مثلاً نبی کریم ﷺ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور پروان چڑھے، جس طرح آپ ﷺ کی تربیت ہوئی، جس طرح کے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا رہا، پھر جن لوگوں کے ساتھ آپ ﷺ کے خاندانی اور تجارتی روابط رہے، اور پھر جو لوگ تجارتی سفار میں آپ ﷺ کے شریک کار رہے، ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے دو باتیں نہایت نمایاں ہوکرسامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی کا کوئی گوشہ نبوت سے پہلے ایسا نہیں جس سے اہل مکہ واقف نہ ہوں۔ آپ ﷺ کے بکریاں چرانے کے زمانے سے لے کر غارحرا کی تنہائیوں تک ایک ایک تبدیلی اور ایک ایک مصروفیت کے جاننے والے لوگ موجود تھے۔ وہ سب اس بات پر متفق اور متحد تھے کہ آپ ﷺ کی چالیس سالہ زندگی میں کبھی آپ ﷺ سے کوئی ایسی بات ظاہر نہیں ہوئی، کبھی آپ ﷺ کی زبان سے کوئی ایسا کلمہ نہیں نکلا، کبھی آپ ﷺ نے کسی سے کوئی ایسی بحث نہیں فرمائی اور کبھی کسی ایسی مجلس میں نہیں پہنچے اور کبھی کسی ایسے آدمی سے ملاقات نہیں کی جس سے دور دور تک اس بات کا شبہ کیا جاسکتا ہو کہ آپ نبوت کا دعویٰ کرنے والے ہیں۔ یا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کی اصلاح کے لیے اسی طریقے پر کام کروں جس طرح پہلے انبیائے کرام کیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ مکہ میں ایک منفرد حیثیت کے مالک تھے۔ آپ کا بچپن دوسرے بچوں سے مختلف تھا، آپ کا لڑکپن دوسرے لڑکوں سے نمایاں تھا، آپ کی جوانی دوسرے جوانوں سے مختلف تھی۔ جوانی کی خوش فعلیاں جوانوں کے ساتھ صحبتیں، جوانوں جیسا لا ابالی پن، جوانوں کی طرح تفریحی مشاغل میں دلچسپیاں، گانے بجانے اور قصہ گوئی کی مجالس میں شرکت، سیر سپاٹے کے لیے جوانوں کے ساتھ مل کر کہیں باہر کا سفر، شعروشاعری سے غیرمعمولی دلچسپی، ان میں سے کوئی بات بھی آپ کے قریب تک بھی نہ پھٹکی تھی جبکہ لوگوں میں ہر طرح کی برائیوں کا چلن تھا، جھوٹ عام بولا جاتا تھا، سترپوشی کوئی اہمیت کی چیز نہ تھی، لڑائی جھگڑا لوگوں کا معمول تھا، دوسروں کی دلآزاری معمولی بات سمجھی جاتی تھی، شرافت و نجابت کی چنداں پرواہ نہ کی جاتی تھی، ہمدردی و غمگساری، خیرخواہی و ہمدردی، ایفائے عہد، وفاشعاری، صداقت کی پاسداری، ان باتوں کی بہت زیادہ پرواہ نہ کی جاتی تھی۔ لیکن آنحضرت ﷺ کی زندگی میں نہ ان برائیوں میں سے ہمیں کوئی برائی دکھائی دیتی ہے اور نہ ان خوبیوں میں سے کسی خوبی کا فقدان نظر آتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حیرانی کی بات یہ ہے کہ آپ نے ان مکارمِ اخلاق کے حوالے سے کبھی کوئی نصیحت نہیں فرمائی تھی، کبھی کسی کو ملامت نہیں کی تھی، آپ ایک روشن چراغ ضرور تھے لیکن دوسروں کے گھروں میں روشنیاں بکھیرنا آپ کا معمول نہ تھا۔ یعنی آپ انتہائی پاکیزہ زندگی ضرور رکھتے تھے لیکن آپ میں کسی طرح کے ادعا کا کوئی شائبہ تک نہ تھا آپ شرافت و نجابتِ انسانی کی اعلیٰ مثال ہوتے ہوئے اور ہر طرح کے عیبوں سے پاک زندگی گزارنے کے باوجود علمی طور پر آپ انھیں باتوں کو جانتے پہچانتے تھے اور وہی چیزیں آپ کے تصورات کا حصہ تھیں جن سے اہل مکہ واقف تھے۔ آپ چونکہ امی تھے اس لیے کسی کتاب سے استفادہ آپ کے لیے ممکن نہ تھا۔ آپ کی معلومات اور آپ کے علمی تصورات عام عربوں سے قطعی طور پر مختلف نہ تھے جس سے کبھی کسی کو شبہ ہوتا کہ آپ کے اندر ایک نئی علمی دنیا وجود پذیر ہورہی ہے جس کی وجہ سے آپ لوگوں میں کچھ علمی خیالات کا نفوذ چاہتے ہیں اور آپ کسی مناسب موقع کے انتظار میں ہیں جب آپ اس کا اظہار کرسکیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کوئی شخص بھی جو آپ کو اچھی طرح جانتا تھا وہ آپ کی پاکیزہ زندگی کا تو ضرور معترف تھا اور آپ کے خیالات کی پاکیزگی کی بھی شہادت دیتا تھا۔ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتا تھا کہ آپ دوسروں سے سیرت و کردار میں بہت مختلف ہیں۔ لیکن اس کا گمان کسی کو بھی نہ تھا کہ آپ نبی بننے والے ہیں اور نبوت کے دعوے کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں۔ غارِحرا کی تنہائی میں جب فرشتہ آپ پر وحی لے کر نازل ہوا اور قرآن کریم کی چند آیات آپ کو سنائیں تو تمام مستند احادیث اور تمام معتبر مؤرخین اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نہایت پریشان اور مضطرب حالت میں اس طرح گھر تشریف لائے کہ سخت سردی محسوس کررہے تھے اور فرما رہے تھے زملونی زملونی، مجھے اڑھائو، مجھے اڑھائو۔ چناچہ آپ کو لحاف اڑھا دیا گیا۔ جب آپ کی طبیعت کسی حد تک پرسکون ہوئی تو آپ نے اپنی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ ( رض) سے فرمایا، یہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ میں تو اپنی جان کے لیے خطرہ محسوس کرنے لگا ہوں۔ اور پھر سارا واقعہ انھیں سنایا۔ اس پر حضرت خدیجہ ( رض) نے کہا، کہ ہرگز نہیں ! آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی کسی مشکل میں نہ ڈالیں گے، آپ تو قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں، بےکس کو سہارا دیتے ہیں، بےزر کی دستگیری کرتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں، ہر کارخیر میں مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ پھر وہ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ وہ ایک زی علم اور راست باز آدمی تھے۔ وہ آپ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بےساختہ کہنے لگے یہ جو کچھ آپ کے پاس آیا تھا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ کے پاس آیا تھا۔ کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہر سے نکال دے گی۔ آپ نے حیران ہو کر کہا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں ! کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ ہوگئے ہوں۔ آپ کی زندگی کے حالات اور آپ کی رفیقہ حیات کی گواہی کیا یہ بات بتانے کے لیے کافی نہیں کہ آپ کے ذہن میں کبھی نبوت کا تصور بھی نہیں گزرا تھا۔ نہ آپ نے کبھی اس کی خواہش کی تھی، نہ کبھی آپ کو اس کی امید رہی۔ بلکہ جب نبوت کا پیغام آپ کے پاس پہنچا تو آپ اس وقت نہایت ششدر رہ گئے اور ہانپتے اور کانپتے ہوئے گھر پہنچے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اسی طرح عطا فرمائی جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبوت ایک ایسی وہبی چیز اور ایسا الٰہی پروانہ ہے کہ جس کسی کو عطا ہوتا ہے اسے دور دور تک اس کی امید نہیں ہوتی۔ یہ ضرور ہے کہ قدرت اس عظیم کام کے لیے اس کی تربیت کرتی ہے۔ لیکن اسے اس کا خواہشمند کبھی نہیں بناتی۔ سورة یونس میں اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : قُلْ لَوْشَائَ اللّٰہُ مَاتَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلاَ اَدْرَاکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرٌامِّنْ قَـبْلِہٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ۔ (آیت : 16) (اے نبی ان سے کہو، کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا بلکہ اس کی خبر تک تم کو نہ دیتا، آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم اتنی بات نہیں سمجھتے۔ ) اور سورة شوریٰ میں فرمایا : مَاکُنْتَ تَدْرِیْ مَاالْـکِتَابُ وَلاَ الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا۔ (آیت 52) (اے نبی، تم جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر ہم نے اس وحی کو ایک نور بنادیا جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتے ہیں۔ ) ہماری ان گزارشات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح نبی کریم ﷺ کو جس طرح نبوت عطا ہوئی کہ نہ آپ ﷺ کی ذات میں اس کا کوئی داعیہ موجود تھا، نہ آپ ﷺ کے اندر اس کی طلب پائی جاتی تھی، نہ کبھی آپ ﷺ نے اس کی خواہش فرمائی تھی، نہ آپ ﷺ کا ماحول اس کی غمازی کرتا تھا اور نہ آپ ﷺ کے قول و عمل میں اس بات کا کوئی شارہ پایا جاتا تھا بلکہ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت، اللہ تعالیٰ کا عطیہ، اس کی طرف سے ایک عظیم ذمہ داری کی تفویض اور ایک بہت بڑے کام کی بجاآوری کے لیے انتخاب تھا۔ اور ذمہ داری بھی ایسی کہ جس میں نہ اپنے گھر بار کی فکر کی گنجائش تھی، نہ اس میں کاروبار اور تجارت کا کوئی امکان تھا، نہ اس میں کچھ پانے کی امید تھی بلکہ سراسر سب کچھ کھو دینے اور قربانی و ایثار کا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ تھا جسے آدمی اپنی چاہت سے کبھی اختیار نہیں کرسکتا۔ ان حقائق کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس آپ ﷺ کی نبوت اور رسالت کی صداقت پر شبہ کرنے کی حماقت نہیں کرسکتا۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داری کو اپنی چاہت اور خواہش کے بغیر قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں اس کی مدد فرماتا ہے۔ اور جب کسی منصب کی آدمی تمنا اور خواہش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اس منصب کے حوالے کردیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے کہ یہ عظیم منصب چونکہ ہم نے آپ ﷺ کے سپرد کیا ہے جس میں آپ ﷺ کی خواہش کا کوئی دخل نہیں، اس لیے ہم ہی اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مدد کریں گے، اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات کو آسان کریں گے اور اس راہ کے بڑے سے بڑے دشمن کو ناکام و نامراد کریں گے۔ نیز یہ بات بھی کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں آپ ﷺ کی کامیابی درحقیقت ہماری کامیابی ہے کیونکہ ہم نے اس کا بار آپ ﷺ کے سر پر ڈالا ہے۔ اس لیے راستے کی مشکلات کتنی بھی عظیم ہوں آپ ﷺ ہرگز اس کی پرواہ نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کے سامنے کوئی مشکل بھی ٹھہر نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ کے دین کا مزاج آیت کے آخر میں فرمایا فَلاَ تَـکُوْنَنَّ ظَھِیْرًالِّـلْـکٰفِرِیْنَ ” آپ ان کافروں کے مددگار اور پشت پناہ نہ بنیں۔ “ اس میں خطاب اگرچہ نبی کریم ﷺ کو ہے لیکن اس میں جو تنبیہ و عتاب مضمر ہے اس کا رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ آپ کے مخالفین کی طرف ہے۔ اس میں انھیں اس دین اور نبی کریم ﷺ کی دعوت کی اہمیت اور مزاج سے آگاہ کرنا ہے۔ یعنی انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کی تکذیب اور آپ کے لائے ہوئے دین کا انکار اور مخالفت اپنے اندر اس قدر نزاکت رکھتی ہے کہ پیغمبر جو دین کا مناد و مبلغ بن کے آیا ہے اور جس کی زندگی اور زندگی کے تمام وسائل اسی دین کے فروغ اور بالادستی کے لیے وقف ہیں۔ اگر وہ بھی کبھی ان کافروں کی کسی حد تک معاونت کرنے لگیں جو اس دعوت کا راستہ روک رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو بھی اس کی اجازت ہرگز نہیں دے گا۔ چہ جائیکہ ان کافروں کو برداشت کیا جائے جو اس دین کی مخالفت کررہے ہیں اور جن کی کوشش یہ ہے کہ اس دین کو لوگوں میں نفوذ کا موقع نہ ملے۔
Top