Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 39
وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ١۫ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَۚۖ
وَقَارُوْنَ : اور قارون وَ : اور فِرْعَوْنَ : فرعون وَهَامٰنَ : اور ہامان وَلَقَدْ جَآءَهُمْ : اور البتہ آئے ان کے پاس مُّوْسٰي : موسیٰ بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کے ساتھ فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا كَانُوْا : اور وہ نہ تھے سٰبِقِيْنَ : بچ کر بھاگ نکلنے والے
اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ہم نے ہلاک کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو انھوں نے زمین میں گھمنڈ کیا حالانکہ وہ ہمارے قابو سے باہر نکل جانے والے نہ تھے
وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَھَامٰنَ قف وَلَقَدْ جَآئَ ھُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَـکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَمَا کَانُوْا سٰبِقِِیْنَ ۔ (العنکبوت : 39) (اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ہم نے ہلاک کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو انھوں نے زمین میں گھمنڈ کیا حالانکہ وہ ہمارے قابو سے باہر نکل جانے والے نہ تھے۔ ) تاریخ کے چند نمایاں متکبرین یہاں بھی آیت سے پہلے فعل اَخَذْنَا محذوف ہے۔ تاریخ کی بعض اقوام سے استدلال کرنے کے بعد اب تاریخ کے بعض نمایاں افراد سے استشہاد کیا جارہا ہے جو اسی فکر اور اسی طرززندگی کے نمائندہ تھے جس کی وجہ سے متذکرہ قومیں ہلاک ہوئی تھیں۔ ان میں سب سے پہلے قارون کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اشرافِ قریش کو زیادہ تر مماثلت قارون کے کارناموں سے تھی اس نے بھی جلبِ زر اور دولت کی فراوانی کو اپنا مقصدزندگی بنا رکھا تھا اور اسی کے حصول کے لیے اس نے اپنی قوم سے رشتہ توڑا، اللہ تعالیٰ کے نبی کی قرابت داری بھی اس کے کام نہ آسکی۔ اور انیباء کی اولاد ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کے دین کی مخالفت کو اس نے اپنا وطیرہ بنا لیا۔ قریش میں یوں تو ہر بڑا آدمی اسی راستے کا مسافر تھا لیکن ابولہب خاص طور پر قریش کا قارون کہلانے کا مستحق تھا۔ چناچہ اس کے انجام سے اشرافِ قریش کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم جو طرزعمل اختیار کرچکے ہو اور دولت ہی کو سب کچھ سمجھ کر غریب مسلمانوں کا مذاق اڑاتے اور نبی کریم ﷺ کو غربت کا طعنہ دیتے ہو۔ کاش تمہیں احساس ہوتا کہ یہ دولت اپنے اندر کیسا زہر رکھتی ہے۔ اس کے بعد فرعون اور ہامان کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ایک وقت کا مطلق العنان حکمران اور دوسرا اس کا وزیراعظم تھا۔ دونوں کو اقتدار کے نشے نے اندھا کر رکھا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بےسروسامانی ان کے لیے قبولیتِ ایمان کے راستے کا پتھر بن گئی تھی۔ اقتدار اور دولت سے محبت نے انھیں بصیرت سے بالکل محروم کردیا تھا۔ اس لیے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عظیم معجزات کو دیکھ کر بھی راہ راست کو پہچاننے سے عاجز رہ گئے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پہچاننے کے باوجود انھوں نے حق کو قبول کرنے سے انکار کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں اقتدار اور سیادت سے محروم ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا راستہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ملتا ہے۔ تکبر اور تمرد اس راستے کی وہ تاریکیاں ہیں جس میں آدمی سب کچھ گم کر بیٹھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو جانتے ہوئے بھی وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت اگر آگئی تو ہم اس سے بچ کر کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ چناچہ اسی فریبِ نظر کا شکار ہو کر آخر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
Top