Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 47
وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا
وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں (جمع) بِاَنَّ : یہ کہ لَهُمْ : ان کے لیے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ (کی طرف) سے فَضْلًا : فضل كَبِيْرًا : بڑا
اور ایمان لانے والوں کو بشارت دیجیے ان کے لیے اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑا فضل ہے
وَبَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ فَضْلاً کَبِیْرًا۔ (الاحزاب : 47) (اور ایمان لانے والوں کو بشارت دیجیے ان کے لیے اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑا فضل ہے۔ ) اہلِ ایمان کو بشارت گزشتہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی جن منصبی ذمہ داریوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کو مبشر بنا کر بھیجا گیا ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کو جو آپ ﷺ پر ایمان لاتے اور اس کا حق ادا کرتے ہیں اور ہر طرح کی مخالفتوں اور اذیتوں کے مقابلے میں استقامت کا ثبوت دیتے ہیں بشارت دیجیے کہ وہ مخالفوں کی مخالفت اور حالات کی نامساعدت سے پریشان نہ ہوں۔ عنقریب ان پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے دروازے کھولنے والا ہے۔ بظاہر حالات کو دیکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی دعوت کے راستے میں مخالفت کے پہاڑ حائل ہوگئے ہیں اور مسلمانوں کو کسی طرف سے روشن مستقبل کی روشنی پھوٹتی نظر نہیں آتی۔ لیکن ان کا تعلق اور یقین جس پروردگار پر ہے وہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی روشنی کو دیکھ لیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے۔ اس لیے آئندہ کی کامرانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ ﷺ ان صاحب ایمان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہونے والا ہے۔ اس کی صورت کیا ہوگی وہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو اطمینان رکھنا چاہیے۔
Top