Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 48
وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰىهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافق (جمع) وَدَعْ : اور خیال نہ کریں اَذٰىهُمْ : ان کا ایذا دینا وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ ۭ : اللہ پر وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اور کافروں اور منافقوں کی پرواہ نہ کیجیے اور ان کی اذیت رسانیوں کو نظرانداز کیجیے، اور اللہ پر بھروسہ رکھئے، اور اللہ کارساز کے طور پر کافی ہے
وَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَدَعْ اَذٰھُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً ۔ (الاحزاب : 48) (اور کافروں اور منافقوں کی پرواہ نہ کیجیے اور ان کی اذیت رسانیوں کو نظرانداز کیجیے، اور اللہ پر بھروسہ رکھئے، اور اللہ کارساز کے طور پر کافی ہے۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی آپ ﷺ کی منصبی ذمہ داریوں میں انذار بھی شامل ہے۔ اس لیے آپ ﷺ کو نذیر کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کی اسی ذمہ داری کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ کافر اور منافق جس طرح آپ کی ہر ممکن مخالفت پر تلے ہوئے ہیں آپ ان کی مخالفتوں کو بالکل وزن نہ دیں۔ یہ غوغائے رقیباں ہے جو خود اپنی موت مرجائے گا۔ اسی طرح منافقین آپ کو اذیت پہنچانے کے لیے جو فتنے اٹھا رہے ہیں آپ ان کا کوئی اثر قبول نہ کریں۔ مقابلے میں عاجز لوگ ایسی حرکتیں کیا ہی کرتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ وسائل کے سرچشموں پر ان کا قبضہ ہے اور اسباب کی دنیا کے وہ بادشاہ معلوم ہوتے ہیں۔ آپ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھیں وہ سب سے بڑا قدرت والا اور سب سے بڑا سہارا ہے۔ جس کا وہ پشت پناہ ہو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یاد رہے کہ لفظ اطاعت جس طرح حکم ماننے کے معنی میں مستعمل ہے اسی طرح اس کا استعمال کسی بات کو اہمیت دینے، اس کی طرف دھیان کرنے اور اس کی پرواہ کرنے کے مفہوم میں بھی شائع و ذائع ہے۔ اور پیش نظر آیت کریمہ میں دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
Top