Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو تم اپنے اوپر اللہ کے احسان کو یاد کرو جبکہ تم پر فوجیں چڑھ آئیں تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی اور ایسے لشکر بھیجے جو تم کو نظر نہیں آئے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھنے والا ہے
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَـآئَ تْـکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًاوَّجُنُوْدًا لَّّمْ تَرَوْھَا ط وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا۔ (الاحزاب : 9) (اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو تم اپنے اوپر اللہ کے احسان کو یاد کرو جبکہ تم پر فوجیں چڑھ آئیں تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی اور ایسے لشکر بھیجے جو تم کو نظر نہیں آئے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھنے والا ہے۔ ) یہاں سے رکوع 3 کے آخر تک وہ آیات ہیں جو غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کے ختم ہونے کے بعد نازل ہوئی ہیں۔ اس لیے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر فرمایا ہے اور ان دونوں جنگوں پر تبصرہ بھی فرمایا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ جنگ میں شریک مختلف گروہوں کے احوال و کوائف کا بھی ذکر فرمایا ہے اور ان پر تنقید بھی فرمائی ہے۔ تمہیدی کلمات کے بعد اللہ تعالیٰ کے احسانات کی یاد دہانی اس سورة کے پہلے رکوع میں تمہید کے طور پر کچھ ہدایات ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ پیش نظر آیات درحقیقت انھیں ہدایات کو مؤکد اور واضح کرنے کے لیے نازل کی گئی ہیں۔ تمہیدی ہدایات میں زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ڈر اور اس کا تقویٰ کردار کی اصل بنیاد ہے۔ اس کو جو تصورات محکم کرتے ہیں ان میں پہلی بات یہ ہے کہ علم و حکمت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لیے ادھر ادھر کی باتوں کا اثر قبول کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ پیروی صرف ان باتوں کی کی جائے جو وحی الٰہی کے ذریعے نازل کی جارہی ہیں کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ اس راستے میں یقینا بہت سی دشواریاں پیش آئیں گی اور بہت سے مصائب سے واسطہ پڑے گا۔ ایسے حالات میں بھروسہ اور توکل صرف اللہ تعالیٰ ہی پر کرنا ہے کیونکہ وہی ایسا سہارا ہے جو کبھی شکست نہیں ہوتا۔ اس کے بعد پیش نظر آیات کو ان باتوں کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے کہ تم اندازہ کرو کہ مدینے میں تمہاری مجموعی افرادی قوت تین ہزار سے زیادہ نہیں۔ ان میں بھی منافقین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ اسلحہ جنگ ضرورت سے کم اور مالی حالات کسی بڑی جنگ کا بوجھ برداشت کرنے سے عاجز، کہ اچانک ایک بہت بڑا لشکر تم پر حملہ آور ہوتا ہے جن کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق بارہ ہزار ہے۔ اور اس لشکر کا ایک ایک فرد عرب کی حربی صلاحیت کا نمائندہ ہے۔ ان میں بدویانہ جرأت و بسالت کی فراوانی ہے۔ اور پھر اس کے پس منظر میں یہ شدید جذبہ بھی کارفرما ہے کہ مسلمانوں کی اس نوزائیدہ قوت نے عرب کی تمام قابل ذکر قوتوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ یہود کے دو بڑے قبیلے مدینے سے نکال دیے گئے ہیں۔ مکہ جو عرب قوت کا مرکز ہے انھیں اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی قوت ان کے لیے ناقابلِ شکست حصار ہے جو تنہا ان کے بس کا روگ نہیں۔ اور ملک کے دیگر قبائل بھی مختلف مواقع پر اپنی کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرچکے ہیں۔ چناچہ اس احساس نے انھیں ایک متحدہ طاقت بننے پر مجبور کردیا ہے۔ اب وہ صرف عام شبخون مارنے کی نیت سے نہیں آئے بلکہ اسلامی قوت کو فنا کرنے کے جذبے سے اٹھے ہیں۔ بنو نضیر کے تین قبائل اسی جذبے کے نمائندہ بن کر سب سے پہلے قریش کے پاس پہنچتے ہیں اور انھیں اونچ نیچ سمجھا کر ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر غطفان اور ہوازن کو بھی ہم خیال بنانے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ اس طرح سے یہ تین قوتیں مدینے پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ مکہ معظمہ سے قریش ابوسفیان کی قیادت میں اپنے حلیفوں کو ساتھ لے کر چار ہزار کا لشکر لے کر نکلتے ہیں۔ غطفان اور ہوازن، عیینہ بن حصین بن بدر اور عامربن طفیل کی زیرسر کردگی روانہ ہوتے ہیں۔ اور مدینہ منورہ پہنچ کر بنونضیر کا سردار حیی بن اخطب بنو قریظہ کو بھی اس متحدہ محاذ میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیتا ہے حالانکہ ان کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ امن و صلح کا معاہدہ تھا۔ آنحضرت ﷺ کو جب دشمنوں کی ان تیاریوں کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت سلمانِ فارسی ( رض) کے مشورے سے مسلمانوں کو مدینہ کی ان سمتوں میں خندق کھودنے کا حکم دیا جن سے حملہ کا خطرہ تھا۔ چناچہ شہر کی شمالی اور مغربی سمت میں ساڑھے تین میل لمبی ایک خندق صرف چھ دن میں کھودی گئی۔ اور یہ کام نہایت سرگرمی کے ساتھ ان تین ہزار مجاہدین نے انجام دیا جو حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ اور خودآ نحضرت ﷺ نے بھی بنفس نفیس اس کام میں حصہ لیا۔ خندق کا کام مکمل ہوجانے کے بعد آپ ﷺ کوہ سلع کو پشت پر رکھ کر تین ہزار مجاہدین کو ساتھ لے کر دفاع کے لیے کمربستہ ہوگئے۔ ان تمام تیاریوں کے باوجود یہ بات ظاہر ہے کہ بظاہر اسباب مسلمانوں کے لیے اتنے بڑے حملے کو روکنا ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن مسلمانوں کے اخلاص، وفاداری، جانثاری اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید سے جس طرح سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور دشمن ناکام و نامراد واپس جانے پر مجبور ہوا پیش نظر آیات میں انھیں میں سے بعض باتوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی احسان کا ذکر فرمایا کہ تم اس وقت کو یاد کرو کہ جب تم پر ایسے لشکر حملہ آور ہوئے جو اپنی افرادی اور اسلحی قوت میں تم سے بدرجہا زیادہ تھے اور تم کسی طرح ان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ لیکن جب تم نے محض اللہ تعالیٰ کی قدرت پر بھروسہ کرتے ہوئے خندق کھود کر دفاع کا فیصلہ کرلیا اور کئی دنوں تک پیٹ پر پتھر باندھ کر اور راتوں کو جاگ کر ان کا مقابلہ کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے توکل کی قدر فرمائی اور ان پر ایسی طوفانی آندھی بھیجی جس نے ان کے خیموں کی چوبیں اور طنابیں اکھاڑ دیں۔ ان کی دیگیں الٹ گئیں، سواری کے جانور تتربتر ہوگئے۔ تاریکی کا یہ عالم کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ اور اس پر مزید کرم یہ فرمایا کہ اس آندھی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسی فوجیں بھی بھیجیں جو مسلمانوں کو نظر نہیں آئیں۔ اس سے اشارہ فرشتوں کی فوجوں کی طرف ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کی طرح کافروں نے بھی ان کو نہ دیکھا ہو۔ ممکن ہے انھیں مختلف شکلوں میں وہ دکھائی دیے ہوں اور اس سے کفار نے یہ محسوس کیا ہو کہ مسلمانوں کو کمک پہنچ گئی ہے جس نے ان کی جمعیت میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ کافروں کے ساتھ چونکہ حرب و ضرب کا موقع نہیں آیا اس لیے فرشتوں کو بھی اس کی ضرورت پیش نہیں آئی ورنہ ممکن تھا کہ جنگ بدر کی طرح وہ جنگ میں شرکت کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے ہمیشہ اپنے بندوں کو ڈھارس بندھاتا اور حوصلے میں اضافہ کرتا ہے۔ اور کفار کے دلوں میں ہراس پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ میدان میں مقابلے سے نکل بھاگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے مختلف طریقے ہیں۔ وہ چونکہ ہمیشہ اپنے بندوں کو بھی اور دشمنوں کو بھی دیکھتا ہے اس لیے حالات کے مطابق مسلمانوں کی مدد کرتا ہے اور کافروں کی ہزیمت کا سامان کرتا ہے۔
Top