Ruh-ul-Quran - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
اے لوگو ! تم ہی اللہ کے محتاج ہو، اللہ تو غنی اور ستودہ صفات ہے
یٰٓـاَیُّھَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِ ج وَاللّٰہُ ھُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ۔ اِنْ یَّشَاْبُذْھِبْکُمْ وَیَاتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ ۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ ۔ (فاطر : 15 تا 17) (اے لوگو ! تم ہی اللہ کے محتاج ہو، اللہ تو غنی اور ستودہ صفات ہے۔ اگر وہ چاہے تو تمہیں ہلاک کردے اور ایک نئی مخلوق تمہاری جگہ لے آئے۔ اور یہ اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ ) اللہ تعالیٰ غنی اور حمید ہے گزشتہ آیات میں مختلف حوالوں سے اللہ تعالیٰ کی بےپایاں قدرت اور جن قوتوں کو اس کا شریک ٹھہرایا گیا ہے ان کی بےبسی کو بیان فرمایا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ انسانوں کی غیرمعمولی ضروریات اور احتیاجات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں اور اس کے خزانوں کا انسانوں کو حد درجہ محتاج دکھا کر انسان کی بےبصیرتی پر تعریض کی گئی ہے کہ ایک طرف اس کی بےبسی اور قدم قدم پر ضرورت اور احتیاج، اور دوسری طرف اس کا تمرد اور استکبار اور فیضانِ ربوبیت اور عطاء و بخشش کے مالک سے بےنیازی کو نمایاں کرتے ہوئے ان کی اصل حیثیت سے پیش نظر آیت میں خطاب فرمایا گیا ہے کہ اے لوگو ! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج اور فقیر ہو۔ اور اے لوگو ! کے لفظ میں ایک طرح سے تنبیہ اور تہدید بھی ہے کہ تم جس طرح زندگی گزار رہے ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے جسم و جان کے خود خالق ہو۔ اور تم جن نعمتوں سے جس طرح متمتع ہورہے ہو، اس سے شبہ ہوتا ہے کہ ان نعمتوں کے حوالے سے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہو۔ اور پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کا رسول تمہیں تمہارے انجام کے حوالے سے انذار کررہا ہے اور تمہاری تمام بدتمیزیوں کے باوجود اپنی ہمدردی اور خیرخواہی میں کسی طرح کی تخفیف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے شاید تمہیں یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ تم شاید اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی ضرورت بن گئے ہو جس کی وجہ سے بار بار تمہیں تعلیم اور تذکیر سے کام لیا جارہا ہے۔ کہ اگر تم نے ایمان قبول نہ کیا تو شاید اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور کبریائی میں کسی خرابی کے درآنے کا اندیشہ ہے۔ اور اگر تم نے اس کی بندگی اور عبادت کا رویہ اختیار نہ کیا تو شاید اس کی خدائی نہ چل سکے گی۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم سب اللہ تعالیٰ کے فقیر ہو۔ تم اپنے وجود اور اس کی بقاء کے لیے قدم قدم پر اس کے محتاج ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات میں غنی اور حمید ہے۔ اس کا کوئی کام لوگوں کے ایمان پر اٹکا ہوا نہیں، اور نہ وہ اپنی کائنات کے انتظام و انصرام میں کسی کا محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول لوگوں کے جگانے اور جھنجھوڑنے کے لیے اپنے رات اور دن جو ایک کیے ہوئے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی احتیاج مضمر نہیں بلکہ وہ تمہاری ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں غنی ہے، وہ ہر ایک سے مستغنی اور بےنیاز ہے، کسی کی مدد کا محتاج نہیں۔ لیکن مخلوقات ہر مرحلے پر اس کی توجہ اور عنایت کی محتاج ہیں۔ وہ اگر اپنے خزانوں کے دروازے بند کردے تو انسان بےبسی کی موت مرجائے۔ اسی طرح وہ حمید بھی ہے، یعنی آپ سے آپ محمود ہے۔ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے مگر ہر مخلوق جو اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہے جو اس کے دیے ہوئے رزق سے پیٹ پالتی ہے۔ جو اس کی عطا و بخشش سے سانس لیتی ہے جس کی بقا کی تمام چابیاں جس کے ہاتھ میں ہیں اسے ان نعمتوں کا ادراک یہ شعور عطا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر طرح کی حمد، تعریف اور شکر کا مستحق ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی اپنی ذات میں اس کا استحقاق نہیں رکھتا۔ مزید فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ زمین پر جس طرح اکڑ اکڑ کے چلتے ہو اور اس کی قوت روئیدگی کے بےپایاں خزانوں سے ہر مرحلے پر سیراب ہوتے ہو، اگر وہ پروردگار چاہے تو اس کی قدرت سے یہ بعید نہیں کہ وہ ایک لمحے میں تمہیں ہلاک کردے اور اس زمین پر کسی اور کو لا کر بسا دے۔ معذب قوموں کی تاریخ پڑھ کر دیکھو کہ انھوں نے اپنے ملکوں کو جس طرح اپنی خواہشات کی بازی گاہ بنا رکھا تھا اور انھیں گمان یہ تھا کہ ہمیں یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو ان کا بیج مار ڈالا گیا۔ اور پھر ایسا بھی نہیں کہ وہ سرزمین آبادی سے خالی ہوگئی ہو، وہ جس طرح ان کے زمانے میں آباد تھی، آج شاید اس سے بڑھ کر آباد ہو۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کسی سرزمین سے کسی قوم کو فنا کردیتا ہے اور کسی دوسری قوم کو لا کر وہاں آباد کردیتا ہے۔ قریش کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ تم نے سرزمینِ حجاز کو جس طرح اپنی ملکیت سمجھ رکھا ہے۔ اگر تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اللہ تعالیٰ سے کچھ بعید نہیں کہ وہ سابقہ امتوں کی طرح تمہیں محروم کرکے کسی دوسری قوم کو یہاں لا بسائے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے یہ تبدیلی کوئی مشکل نہیں۔
Top