Ruh-ul-Quran - Faatir : 5
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا١ٙ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ : پس ہرگز تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ : دنیا کی زندگی وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ : اور تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے بِاللّٰهِ : اللہ سے الْغَرُوْرُ : دھوکہ باز
اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے، پس تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکہ باز تمہیں فریب میں رکھے
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌّ فَلاَ تَغُرَّنَّـکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وقفۃ وَلاَ یَغُرَّنَّـکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ ۔ (فاطر : 5) (اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے، پس تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکے باز تمہیں فریب میں رکھے۔ ) ایک تنبیہ اور دھمکی گزشتہ آیت کے آخر میں مخالفین کو جو دھمکی دی گئی تھی اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ جو دنیا کے معاملات کو ہمیشہ دنیا کے حوالے سے دیکھتے ہو اور دنیا کے فیصلوں کو حرف آخر سمجھتے ہو، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دنیا آخرت کی تیاری کی جگہ ہے۔ ایک مہلت دی گئی ہے جس میں ہر انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کی تیاری میں لگا ہوا ہے۔ جو لوگ اس آنے والے دن کو حقیقت سمجھ کر اس دنیا کو اس کے لیے تیاری کا موقع سمجھ لیتے ہیں وہ آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ اور جو لوگ اسے محض ایک ڈراوا سمجھتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انھیں یقین ہونا چاہیے کہ اس دن کا آنا برحق ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ عدل کے کامل ظہور کے لیے اس دن کو ضرور لایا جائے گا تاکہ کسی محروم کو محرومی کی شکایت نہ رہے اور کسی نیک عمل کرنے والے وفاشعار اور راہ حق میں تکلیف اٹھانے والے جانثار کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ لیکن دنیوی زندگی جس میں برے انسانوں کو عیش و عشرت اور دولت و رفاہیت کے مواقع میسر ہیں وہ ان کے لیے گمراہی اور دھوکے کا باعث بن جاتی ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس دنیا کی عیش و عشرت اور اس کی سہولتیں گویا اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے منظورِنظر ہیں اور اس کے پسندیدہ بندے ہیں وہ اگر ہم سے ناخوش ہوتا تو ہمیں ان دنیوی نعمتوں سے بہرہ ور نہ فرماتا۔ اور جو لوگ یہاں محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں انھیں نہ دنیوی عیش سے کوئی حصہ ملا ہے اور نہ انھیں حکومت و سطوت میسر ہے۔ وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ لوگ ہیں، وہ یہاں بھی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور آخرت میں بھی انھیں تلخیوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ دنیوی زندگی کا یہ فریب تمہیں کہیں گمراہ کرنے میں کامیاب نہ ہوجائے۔ بہت سے لوگوں کو یہ فریب لے بیٹھا ہے اور تم آج اس کی زد میں ہو۔ مزید فرمایا کہ جس طرح دنیوی عیش و نشاط انسان کی گمراہی کا سبب بنتا ہے اسی طرح ایک سب سے بڑا دھوکے باز اور فریب کار شیطان بھی ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ کبھی وہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں بہکاتا ہے اور کبھی اس راستے پر ڈالتا ہے کہ خدا کی ذات موجود تو ہے لیکن وہ دنیوی معاملات میں دخیل نہیں۔ وہ دنیا کو ایک دفعہ حرکت دے کر الگ جا بیٹھا ہے اور کبھی لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ یقینا پروردگار اپنی کائنات کا نظام تو چلا رہا ہے لیکن اس نے انسانوں کو رہنمائی کے لیے حواس، عقل اور تجربے کی دولت دے رکھی ہے جو اس کے لیے کافی ہے۔ اس نے ان کی رہنمائی کے لیے خود کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی، یہ وحی و رسالت محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ اسی طرح کے اس کے اور بہلاوے ہیں جن سے وہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہمیشہ الجھائے رکھتا ہے، دیکھنا ! اس کے فریب میں نہ آنا۔ جو شخص بھی اس کے فریب میں آیا، وہ مارا گیا۔ وہ ایسا فریب کار ہے جو ہمیشہ گھات میں رہتا ہے۔ جیسے ہی وہ انسان کی کسی کمزوری کو دیکھتا ہے وہ کمزوری فکری ہو یا عملی، وہ اسی کمزوری کو واسطہ بنا کر اس کی تباہی کا سامان کرتا ہے۔
Top