Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 52
اَوَ لَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
اَوَ : کیا لَمْ يَعْلَمُوْٓا : وہ نہیں جانتے اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يَبْسُطُ : فراخ کرتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ : جس کے لیے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ ۭ : اور تنگ کردیتا ہے اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لائے
کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
اَوَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّـؤْمِنُوْنَ ۔ (الزمر : 52) (کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ ) رزق و فضل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس پر مشاہدے سے استشہاد گزشتہ آیات میں انسان کی اس گمراہی پر کھل کر تنقید کی گئی ہے کہ انسان جو کچھ کماتا ہے اور جو کچھ اسے ملتا ہے وہ اس کی اپنی تدبیر اور اس کی سعی اور کاوش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس تصور کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اس بات پر یقین رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونے کی بجائے سرکشی اور تمرد کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی عبدیت آہستہ آہستہ فنا ہوجاتی ہے اور اس کے اندر سے ایک طاغوتی قوت ابھرتی ہے جو اس کی شخصیت اور اس کے ماحول اور اس کے گردوپیش کو گمراہیوں کی نذر کردیتی ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اسی بات کو انسانی مشاہدے کے حوالے سے بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کی بحث اپنی جگہ، انسان کا اپنا مشاہدہ بھی اس بات پر دلیل ہے کہ رزق کی تنگی اور کشادگی انسان کی اپنی محنت اور ذہنی تدبیر کا نتیجہ نہیں۔ کیونکہ ہر شخص اپنے گردوپیش میں دیکھتا ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو منہ میں چاندی یا سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی وہ خاندانی رئیس ہوتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے جب انھیں لوگ نان شبینہ کا محتاج دیکھتے ہیں۔ اسی طرح کتنے لوگ ہیں جو رات دن دنیا کی فکر میں سر کھپاتے ہیں، لیکن اپنی تمام تر شب و روز کی محنت کے باوجود بہت زیادہ مال و دولت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اسی طرح ہم ایسے لوگوں کو بھی دیکھتے ہیں کہ جو ایک دن تخت و تاج کے مالک ہوتے ہیں اور اگلے دن کسی جیل میں پڑے ہوتے ہیں۔ ایک دن ان کے کاروبار کا چرچا ہوتا ہے اور منڈیوں اور کمپنیوں پر ان کی دھاک بیٹھی ہوتی ہے۔ لیکن انقلاب کی ایک لہر انھیں ہر چیز سے محروم کردیتی ہے۔ یہ ہمارے وہ مشاہدات ہیں جن سے اس کے سوا کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ رزق کی تنگی و کشادگی میں انسان کی اہلیت و قابلیت یا اس کے اچھا اور برا ہونے کا اتنا دخل نہیں جتنا اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کو ہے۔ جو شخص بھی اس معاملے میں غور کرتا ہے اور اس بسط و تقدیر کا مشاہدہ کرتا ہے اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی بہت سی نشانیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں، ان میں دو تو بہت نمایاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسے سب سے پہلے اس بات کا یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کائنات کی حکومت اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ اس کے خزانوں کی چابیاں اس کے پاس ہیں، وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے، کسی اور کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ اس لیے ایک مومن کو صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلانا چاہیے کیونکہ وہی ہر چیز پر اختیار رکھتا ہے۔ دوسری یہ بات کہ وہ اس بات پر مطمئن ہوجاتا ہے کہ رزق کی کمی بیشی بھی اس کی حکمت کا نتیجہ ہے۔ وہ اگر کسی کو اس دنیا میں زیادہ عطا کرتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے اور اگر وہ کسی پر تنگی مسلط کردیتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے۔ وہ زیادہ دے کر یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوتا ہے یا نہیں۔ اور کم دے کر اس کے صبر کو آزمانا چاہتا ہے۔ اس طرح سے وہ دلوں میں یہ بات اتار دیتا ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے، دارالانعام نہیں۔ اس میں ہر شخص کا امتحان ہورہا ہے، کہیں شکر کی صورت میں، کہیں صبر کی صورت میں۔ نتائج کا اعلان قیامت کو ہوگا کہ کون کامیاب رہا اور کس نے ناکامی سے اپنا مقدر گہنا لیا۔
Top