Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 109
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١۫ فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَمْ مَّنْ یَّكُوْنُ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا
ھٰٓاَنْتُمْ : ہاں تم هٰٓؤُلَآءِ : وہ جٰدَلْتُمْ : تم نے جھگڑا کیا عَنْھُمْ : ان سے فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیوی زندگی فَمَنْ : سو۔ کون يُّجَادِلُ : جھگڑے گا اللّٰهَ : اللہ عَنْھُمْ : ان (کی طرف) سے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت اَمْ : یا مَّنْ : کون ؟ يَّكُوْنُ : ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر (ان کا) وَكِيْلًا : وکیل
یہ تم ہو جنھوں نے دنیا کی زندگی میں ان کی مدافعت کی تو قیامت کے دن اللہ سے کون ان کی مدافعت کرے گا۔ یا کون ان کا ذمہ دار بنے گا
ہٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ جٰدَلْتُمْ عَنْہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا قف فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنْہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَمْ مَّنْ یَّکُوْنُ عَلَیْہِمْ وَکِیْلًا ” یہ تم ہو جنھوں نے دنیا کی زندگی میں ان کی مدافعت کی تو قیامت کے دن اللہ سے کون ان کی مدافعت کرے گا۔ یا کون ان کا ذمہ دار بنے گا۔ “ (النسآء : 109) ہاحرف تنبیہ ہے۔ یہ جملہ کے شروع میں آتا ہے۔ اور مقصود اس سے یہ ہوتا ہے کہ مخاطب کو ہوشیار کیا جائے کہ وہ کان کھول کر بات سنے۔ ان آیات میں دو دفعہ ” لا تجادل “ اور ” جادلتم “ ایک ہی فعل سے نکلنے والے لفظ آئے ہیں جن کا مصدر مجادلہ ہے۔ قرآن پاک میں یہ لفظ اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا معنی مناظرہ ‘ کٹ حجتی اور جھگڑنا بھی ہوتا ہے اور ادب و احترام یا محبت سے کسی سے شکوہ کرنا یا اصرار کرنا بھی ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے لیے اس کا استعمال صرف اصرار کرنے کے معنی میں ہے۔ اور دوسرے لوگوں کے حوالے سے جھگڑا کرنے کے معنی میں ہے۔ حمایت کرنے والوں کو تنبیہ اس آیت کریمہ میں بنو ابیرق کی حمایت کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ تم نے خاندانی عصبیت کے جوش میں تو دنیا میں ان کی حمایت کرلی لیکن یہ معاملہ یہیں تو ختم نہیں ہوجائے گا قیامت کے دن جب یہ معاملہ اللہ کے حضور پیش ہوگا وہاں بتلائو تم میں سے کون ان کی حمایت کرے گا یا کون ان کے کام آنے کی کوشش کرے گا۔ وہاں تو وہ اپنے جرم میں پکڑا جائے گا اور تم اپنی ناجائز حمایت میں پکڑے جاؤ گے۔ تم دونوں نے ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنے اپنے جرائم سے توبہ کر کے اپنی آخرت کو سنوار لو۔
Top