Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 132
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَ : اور لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اور اللہ ہی مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور کارسازی کے لیے بس وہی کافی ہے۔
وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ اَیُّہَا النَّاسُ وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ قَدِیْرًا ” اور اللہ ہی مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور کارسازی کے لیے بس وہی کافی ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو ہٹا کر تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ اور وہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ “ (النسآء : 132 تا 133) اس آیت کریمہ میں جو حقیقت سابقہ آیت میں بیان فرمائی تھی اسے تیسری دفعہ دہرایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے جب بھی خود سری دکھائی ہے اور اپنی طاقت و قوت کے زعم میں کمزور انسانوں پر مظالم توڑے ہیں۔ اور خود طاغوت بن کر لوگوں کو اپنی بندگی پر مجبور کیا ہے۔ اور اپنے جیسے انسانوں کو اپنے غلام بنا کر انھیں ایک فروختنی چیز بنادیا ہے اور یا انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے تراشے ہوئے بتوں کے سامنے سر جھکایا ہے ‘ کبھی مظاہرِ قدرت کی پوجا کی ہے ‘ کبھی دیوتائوں سے مرادیں مانگی ہیں اور کبھی جنات سے پناہ طلب کی ہے ‘ یعنی کبھی تو اتنی سرکشی اختیار کی کہ خود خدا بن گیا اور کبھی اتنی فروتنی میں اترا کہ پتھروں تک کو مسجود بنا لیا۔ اور کبھی ایسا ہوا کہ اللہ کو معبود سمجھا ‘ حاکم بھی مانا لیکن اس کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے سے انکار کردیا۔ اللہ کے مقابلے میں شیطان کے احکام کا اتباع کیا۔ اپنے وضعی قوانین کے مطابق زندگی گزاری۔ اپنی عدالتوں میں طاغوتی نظام کے مطابق فیصلے کیے اور کرائے۔ انسانی زندگی میں یہ تینوں قباحتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب انسان اس بنیادی تصور سے تہی دامن ہوجاتا ہے کہ آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔ اسی کی مخلوق ‘ اسی کی مملوک ‘ اسی کی اطاعت گزار اور اسی کے سامنے جواب دہ ہیں۔ چونکہ اسی تصور کے دماغوں سے نکل جانے کے باعث انسان گمراہی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور ہر دور میں یہی وہ بیماری ہے جس نے انسانیت کو مریض بنایا ہے۔ اس لیے تین دفعہ اس کے علاج کو دہرایا گیا اور بار بار تنبیہ کی گئی کہ اس بنیادی تصور کے ہل جانے کے باعث انسانیت کی پوری تعمیر تباہی کا شکار ہوئی ہے۔ اس لیے جب تک اس خشت اول کو درست نہیں کیا جائے گا اس وقت تک انسان کی بگڑی قسمت کبھی نہیں بنے گی۔ دوسری آیت کریمہ میں وارننگ دی گئی ہے کہ قرآن کے مخاطبین کو اچھی طرح اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح کائنات کی کوئی چیز اپنی مرضی سے وجود میں نہیں آئی اسی طرح کسی چیز کی بقا بھی اس کی اپنی مرضی سے وابستہ نہیں۔ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے تخلیق فرماتا ہے اور جب چاہتا ہے اسے مٹا دیتا ہے۔ زمین بھی اسی نے بنائی ہے اور اس پر بسنے والے بھی اسی نے بسائے ہیں۔ جب تک وہ زندگی کی مہلت دیتا ہے ایک فرد بھی اور ایک قوم بھی زندگی گزارتی ہے اور اپنے گھروں اور اپنے شہروں میں آباد رہتی ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ اس کی تباہی کا فیصلہ فرماتے ہیں تو ان کی تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ خاص طور پر رسول کی بعثت کے بعد رسول جس علاقے اور جس قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے ان کی زندگیوں کا دارومدار رسول کی دعوت کو قبول کرنے یا رد کرنے پر ہوتا ہے۔ اگر وہ قبول کرلیتے ہیں تو زندگی دراز ہوجاتی ہے اور اگر وہ رد کردیتے ہیں تو عموماً رسول کو ہجرت کا حکم ملتا ہے اور اسکی قوم کو عذاب کے ذریعے تباہ کردیا جاتا ہے۔ قوم نوح ‘ قوم عاد ‘ قوم ثمود اور قوم لوط کی تاریخ عربوں کی جانی پہچانی تاریخ تھی۔ وہ اپنے تجارتی اسفار میں ان علاقوں سے گزرتے تھے۔ ذرا غور کریں کہ یہ قومیں اب کہاں ہیں۔ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے جب یہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں اور آج ان علاقوں میں دوسری قومیں آباد ہیں ‘ اسی طرح اگر اللہ چاہے تو تمہیں بھی مٹا دے اور تمہاری جگہ دوسری کسی قوم کو بسا دے۔ اللہ اس پر قادر ہے۔ اس کے لیے کسی قوم کو مٹا دینا اور اس کی جگہ کسی اور کو بسا دینا کوئی مشکل کام نہیں۔ موہنجوڈارو اور ہڑپہ کے کھنڈرات صرف یہ بتانے کے لیے نہیں کہ یہاں کبھی صنعت ‘ حرفت ‘ تجارت پر مبنی تہذیب آباد تھی ‘ بلکہ وہ یہ بتانے کے لیے ہیں کہ یہاں کبھی زندہ انسان رہتے تھے۔ ذرا غور کرو وہ کیوں مٹا دیے گئے ؟ یہاں کلچر نہ ڈھونڈو عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے ؎ عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے
Top