Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 60
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَزْعُمُوْنَ : دعویٰ کرتے ہیں اَنَّھُمْ : کہ وہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِمَآ اُنْزِلَ : اس پر جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَمَآ اُنْزِلَ : اور جو نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَحَاكَمُوْٓا : مقدمہ لے جائیں اِلَى : طرف (پاس) الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) وَقَدْ اُمِرُوْٓا : حالانکہ انہیں حکم ہوچکا اَنْ : کہ يَّكْفُرُوْا : وہ نہ مانیں بِهٖ : اس کو وَيُرِيْدُ : اور چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ : کہ يُّضِلَّھُمْ : انہیں بہکادے ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
(اے نبی تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَـآ اُنْزِلَ اِلَیْـکَ وَمَـآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِـکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْ بِہٖ ط وَیُرِیْدُالشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلـاً م بَعِیْدًا وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَـآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰـفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْـکَ صُدُوْدًا ج (اے نبی تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں) (النسآء : 60 تا 61) سابقہ آیت کریمہ میں اسلامی زندگی کے جو بنیادی اصول بیان فرمائے گئے ہیں ‘ ان کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ایک شخص جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے اسلام اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ غیرمشروط اطاعت صرف اللہ اور رسول کی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور قانون کی اطاعت کرنے کا اولاً تو وہ مجاز نہیں اور اگر کہیں اس کی اجازت ہے تو اس شرط کے ساتھ کہ وہ قانون اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے متصادم نہ ہو۔ اور اس کا مزاج اسلامی قانون کے مزاج سے مختلف نہ ہو۔ ایسی ہر حکومت اور ایسا ہر تخت وتاج جو اللہ اور رسول کی حکومت اور اطاعت سے انحراف کا راستہ دکھاتا ہو اور یا اس کے توڑ پر اپنی حکومت کا صور پھونکتا ہو اور اپنی غیرمشروط اطاعت کرانے پر زور دیتا ہو۔ اسے نہ صرف قبول نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسے ہر رشتہ اطاعت کو توڑ پھینکنے کا حکم دیا گیا ہے اور ہر مسلمان ‘ مسلمان ہوتے ہوئے اس بنیادی اصول اور عہد کا پابند ہے۔ پیش نظر آیات کریمہ میں ان لوگوں کا پول کھولا جارہا ہے جو اپنے تئیں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور بڑی قوت سے یہ بات کہتے تھے کہ ہم اللہ اس کے رسول اور ان تمام کتابوں پر ایمان لائے ہیں ‘ جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں۔ لیکن ان کا طرز ِعمل اپنے اس دعوے کے یکسر برعکس تھا۔ قرآن حکیم اظہار تعجب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے پیغمبر ذرا ان لوگوں کے طرزعمل کو دیکھئے اور پھر ان کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ چناچہ ان کی حقیقت کو یوں تو ان آیات میں پوری طرح بےنقاب کردیا گیا ہے لیکن مفسرین نے ان آیات کا جو شان نزول بیان کیا ہے ‘ اس سے ان کے حالات پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ آیات کا شان نزول ان آیات کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے ‘ جس کی تفصیل یہ ہے کہ بشر نامی ایک منافق تھا ‘ اس کا ایک یہودی کے ساتھ جھگڑا ہوگیا۔ یہودی نے کہا کہ چلو تمہارے پیغمبر سے فیصلہ کرواتے ہیں۔ مگر بشر منافق نے اس کو قبول نہ کیا بلکہ کعب بن اشرف یہودی کے پاس جانے اور اس سے فیصلہ کرانے کی تجویز پیش کی۔ کعب بن اشرف یہود کا ایک سردار اور رسول کریم ﷺ اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا۔ یہ عجیب بات تھی کہ یہودی تو اپنے سردار کو چھوڑ کر آنحضرت ﷺ کا فیصلہ پسند کرے اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا بشر آپ ﷺ کی بجائے یہودی سردار کا فیصلہ اختیار کرے ‘ مگر راز اس میں یہ تھا کہ ان دونوں کو اس پر یقین تھا کہ رسول کریم ﷺ حق و انصاف کا فیصلہ کریں گے۔ اس میں کسی کی رو رعایت یا غلط فہمی کا اندیشہ نہیں اور چونکہ اس جھگڑے میں یہودی حق پر تھا ‘ اس لیے اس کو اپنے سردار کعب بن اشرف سے زیادہ اعتماد آنحضرت ﷺ پر تھا اور بشر منافق غلطی اور ناحق پر تھا ‘ اس لیے جانتا تھا کہ آپ ﷺ کا فیصلہ میرے خلاف ہوگا اگرچہ میں مسلمان کہلاتا ہوں اور یہ یہودی ہے۔ ان دونوں میں باہمی گفتگو کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں اسی پر راضی ہوگئے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر ہو کر آپ ﷺ ہی سے اپنے مقدمہ کا فیصلہ کرائیں۔ مقدمہ آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا۔ آپ ﷺ نے معاملہ کی تحقیق فرمائی ‘ تو حق یہودی کا ثابت ہوا۔ اسی کے حق میں فیصلہ دے دیا اور بشر کو جو بظاہر مسلمان تھا ‘ ناکام کردیا۔ اس لیے وہ اس فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور ایک نئی راہ نکالی کہ کسی طرح یہودی کو اس بات پر راضی کرلیا جائے کہ ہم حضرت عمر بن الخطاب ( رض) کے پاس فیصلہ کرانے چلیں۔ یہودی نے اس کو قبول کرلیا۔ راز اس میں یہ تھا کہ بشر نے یہ سمجھا ہوا تھا کہ حضرت عمر ( رض) کفار کے معاملہ میں سخت ہیں ‘ وہ یہودی کے حق میں فیصلہ دینے کے بجائے میرے حق میں فیصلہ دیں گے۔ بہرکیف یہ دونوں اب حضرت فاروق اعظم ( رض) کے پاس پہنچے ‘ یہودی نے حضرت فاروق اعظم ( رض) کے سامنے پورا واقعہ بیان کردیا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ جناب رسول اللہ ﷺ فرما چکے ہیں ‘ مگر یہ شخص اس پر مطمئن نہیں اور آپ کے پاس مقدمہ لایا ہے۔ حضرت عمر ( رض) نے بشر سے پوچھا کہ کیا یہی واقعہ ہے ؟ اس نے اقرار کیا۔ حضرت فاروق اعظم ( رض) نے فرمایا : اچھا ذرا ٹھہرو۔ میں آتا ہوں ‘ گھر میں تشریف لے گئے اور ایک تلوار لے کر آئے اور اس منافق کا کام تمام کردیا اور فرمایا : ” جو شخض رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو ‘ اس کا یہی فیصلہ ہے۔ “ ( یہ واقعہ روح المعانی میں بروایت ثعلبی و ابن ابی حاتم حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) سے منقول ہے) منافقین کا اصل جرم آیت کریمہ کے مفہوم اور شان نزول کی تفصیل کو سامنے رکھئے تو آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی کہ وہ اصل جرم کیا ہے جس کی وجہ سے منافقین کو یہاں مطعون کیا جارہا ہے اور جس کی وجہ سے حضرت عمرفاروق ( رض) ایک منافق کا سراڑانے پر مجبور ہوئے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات کو دیکھتے ہوئے ایک مخلص مومن کے لیے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دوسرے مسلمان کی جان لینے کی کوشش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جب یہ شکایت پہنچی کہ حضرت عمرفاروق ( رض) نے ایک ایمان کے دعویدار کو قتل کردیا ہے تو حضور ﷺ نے برہم ہو کر فرمایا : ماکنت اظن ان عمر یجتری علی قتل رجل مومن ( میں گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ عمر ایک مومن آدمی کے قتل پر جرأت کرے گا) ۔ لیکن جب آپ کے سامنے اس منافق کا اصل جرم آیا اور قرآن کریم نے پوری صورتحال کو کھول کر بیان کردیا تو آنحضرت ﷺ بھی مطمئن ہوئے اور مسلمانوں کو بھی اطمینان ہوا کہ اس جرم کی سزا اس کے سوا اور کیا ہوسکتی تھی۔ وہ جرم یہ ہے کہ یہ منافق لوگ اپنے معاملات کو فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کے پاس لے کے جاتے ہیں۔ حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ طاغوت یوں تو ہر ایسی سرکش قوت کو کہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں اپنی غیرمشروط اطاعت پر اصرار کرے لیکن اس آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں طاغوت سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنی میں بالکل واضح ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہو ‘ اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ قرآن کی رو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت کا انکار دونوں لازم وملزوم ہیں۔ خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے۔ یہی بات شان نزول سے معلوم ہوتی ہے۔ جب حضرت عمرفاروق ( رض) کو یہ معلوم ہوا کہ اس شخص نے آنحضرت ﷺ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا اور پہلے یہ یہود کی عدالت میں جانا چاہتا تھا اور اب میرے پاس فیصلے کے لیے آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول کے فیصلے کو یہ آخری سند ماننے سے انکار کرتا ہے اور کسی دوسرے کے فیصلے کو آپ کے فیصلے پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ وہ جرم ہے جسے شریعت کی زبان میں ارتداد کہتے ہیں۔ ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والا مرتد کہلاتا ہے۔ کیونکہ ایمان نام ہے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں پر سرجھکا دینے کا اور دل و دماغ کو سپرد کردینے کا۔ لیکن جب ایک شخص ایمان اور اسلام کے دعوے کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لا کر اس نے جو عہد کیا تھا ‘ وہ عہد اس نے توڑ ڈالا۔ اس عہد کی وجہ سے جو اسے حقوق شہریت میسر تھے ‘ وہ یقینا اس سے چھین لیے جائیں گے اور اسلامی ریاست نے ایمان کے عوض جس طرح اس کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی تھی ‘ وہ ختم ہوجائے گی۔ بلکہ دوسروں کے سامنے اس جرم کی شناعت کو پوری طرح واضح کرنے کے لیے اسے وہ سزا دی جائے گی جو ہر قانون میں ملک کے باغی کو دی جاتی ہے۔ چناچہ ایسے شخص کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا : من ارتد عن دینہ فاقتلوہ ( جو آدمی اپنے دین سے پھرجائے اسے قتل کردو) کیونکہ اسلام میں دین پرائیویٹ معاملہ نہیں بلکہ ریاست کا قانون اور دستور ہے۔ اسے چیلنج کرنے کی کسی طرح بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چناچہ حضرت عمرفاروق ( رض) نے اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے جو کو توال شہر کے طور پر آپ کو حاصل تھا ‘ اسے قتل کردیا۔ اور آئندہ کے لیے مسلمانوں پر یہ بات واضح کردی کہ ایمان کے دعویٰ بعد اللہ اور اس کے رسول کی حیثیت کو چیلنج کرنا اور دوسروں کو وہ حیثیت دینا جو درحقیقت اللہ اور اس کے رسول کی حیثیت ہے ‘ اس کا اسلام میں کوئی جواز نہیں۔ وَیُرِیْدُالشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّـہُمْ ضَلٰـلاً م بَعِیْدًا کا مفہوم آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا : وَیُرِیْدُالشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّـہُمْ ضِلٰـلاً م بَعِیْدًا (شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے) اس جملے پر غور کرنے سے اس جملے کی بلاغت اور اس کے مفہوم کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک انسان کی زندگی مسجد تک محدود نہیں بلکہ گھر سے شروع ہو کر محلے ‘ بازار ‘ منڈیوں ‘ تعلیمی ادارے ‘ دفاتر ‘ عدالتوں سے ہوتی ہوئی ایوان ہائے حکومت تک پھیلی ہوئی ہے۔ کوئی انسان بھی جو انسانی اجتماعیت کا حصہ ہے ‘ وہ زندگی کی اس وسعت سے انکار نہیں کرسکتا۔ مسلمان انسان ہونے کے اعتبار سے اپنی زندگی میں ایسی ہی وسعت رکھتا ہے لیکن مسلمان ہونے کے حوالے سے اس کی اور عام انسان کی زندگی میں ایک فرق بھی ہے۔ عام انسان زندگی کے تمام دوائر میں اپنے ملکی قانون یا اپنے من مرضی کا مالک ہے۔ جو کچھ اس سے ملک کا قانون تقاضا کرتا ہے اور جس طرح اس کے مفادات محفوظ ہوتے اور خواہشات سپھل ہوتی ہیں ‘ اسی طرح وہ زندگی کو گزارنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اس کا مجاز بھی ہے۔ لیکن ایک مسلمان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ گھر کی انفرادی زندگی سے لے کر ایوان ہائے حکومت تک پھیلی ہوئی اجتماعیت میں کسی سطح پر بھی نہ تو ایسے ملکی قانون کی پیروی کرسکتا ہے ‘ جو اللہ اور اس کے رسول کے قانون سے متصادم ہو۔ اور نہ اپنی اس طرح کی مرضی اختیار کرسکتا ہے جو اسے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی خلاف ورزی پر آمادہ کرے۔ اسے بہرصورت زندگی کے ہر دائرے میں اور ہر مقام پر صرف اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کرنی ہے۔ اسی کا نام ایمان اور اسلام ہے۔ اگر ایک شخص اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلامی قانون کو نظرانداز کرکے ایسی عدالتوں میں جاتا ہے جہاں غیراسلامی قانون نافذ ہے اور جہاں طاغوت کے احکام چلتے ہیں ‘ تو اس کا یہ رویہ صرف عدالتوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ زندگی کے تمام دوائر میں یہی رویہ اختیار کرے گا۔ جہاں چاہے گا غیر اللہ کے قوانین کی اطاعت کرے گا۔ جہاں چاہے گا اپنی خواہشات کی پرستش کرے گا۔ جہاں چاہے گا اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر اسلامی قانون کو توڑ کر پھینک دے گا۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہی ہوگا کہ اس کی پوری زندگی مسجد کے علاوہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے آزاد ‘ شیطان یا اپنی خواہشات کی پیروی میں گزرے گی۔ یہ وہ گمراہی ہے جو بظاہر غیراسلامی عدالتوں میں اپنے معاملات کے لے جانے سے شروع ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ پوری زندگی اسلام کی پٹڑی سے اتر کر شیطان کی پٹڑی پر چڑھ جاتی ہے اور ایک مسلمان اسلام سے اتنا دور نکل جاتا ہے کہ بعض دفعہ اسے پلٹنے کا راستہ بھی نہیں ملتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا گیا ہے کہ منافقین کو دیکھو کہ دعویٰ اسلام کا رکھتے ہیں لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف آؤ۔ یعنی اللہ نے قرآن کریم میں جو احکام نازل کیے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت سے جو اس کی تشریح اور تفسیر فرمائی اور جو اس کو عملی شکل و صورت عطا کی ہے ‘ اس کی طرف آؤ ‘ تو تم ان منافقین کو دیکھوگے کہ اس سے پہلو بچا کے نکل جاتے ہیں یعنی کسی طرح بھی اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ ان کا رویہ اس لیے پختہ ہوگیا ہے کہ انھوں نے یہود کی عدالتوں میں جانے کا جو جرم کیا تھا ‘ شیطان نے اس سے فائدہ اٹھایا اور ان کی پوری زندگی پر اس کی چھاپ لگا دی۔ یہ تنقید ہمارے لیے آئینہ ہے ان آیات میں ان منافقوں پر تنقید ہو رہی ہے ‘ جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کے ہم عصر تھے اور ان کے دلوں میں چھپی ہوئی خیانتوں کو بےنقاب کیا جارہا ہے۔ اس لحاظ سے اس تنقید پر 1400 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا لیکن جب ہم آج کے مسلمان کی حالت دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ تو ہماری حالت بیان کی جارہی ہے۔ اندازہ فرمائیے کہ مسلمانوں کے تقریباً ساٹھ کے قریب ملک ہیں۔ ان تمام ملکوں میں واضح اکثریت مسلمانوں کی ہے اور مسلمانوں کی تعداد سوا ارب سے زیادہ ہے اور دنیا کے تمام قابل ذکر ساحلوں پر ان کا قبضہ ہے۔ اللہ کی بیش بہا نعمتیں ان کے ہر ملک میں فراوانی سے پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے مسلمانوں کو نوازنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ممکن ہے اس میں مسلمانوں کا امتحان بھی ہو۔ لیکن اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ سعودی عرب میں حدود اللہ کے اجرا کے علاوہ پوری دنیائے اسلام میں کہیں بھی اللہ کا قانون نافذ نہیں۔ بعض مسلمان ملک ایسے ہیں کہ جن میں اگر مساجد نہ ہوں تو شاید باہر سے آنے والا پہچان بھی نہ سکے کہ یہ کوئی مسلمان ملک ہے۔ کوئی ایسی غیراسلامی حرکت ‘ کوئی بےحیائی ‘ کوئی بدعنوانی ‘ کوئی خیانت ایسی نہیں جس کا ارتکاب مسلمان ملکوں میں نہیں ہوتا۔ اور بیشتر ممالک کے حکمران اسلام کا نام لیتے ہوئے بھی شرماتے ہیں۔ اکثر ممالک کے جدید تعلیم یافتہ لوگ ‘ ان کے نام نہاد دانشور ‘ ان کے ذرائع ابلاغ پر قابض مافیا امکانی حد تک لادینیت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور اسلام کی جڑ کاٹنا اور اس کے بارے میں نئی نسل کے ذہنوں میں عجیب و غریب اشتباہات پیدا کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اب تو نوبت باین جا رسید کہ شرعی شکل و صورت رکھنا ‘ شرعی لباس پہننا ‘ علوم اسلامیہ کے ادارے قائم کرنا ‘ انہیں سپورٹ کرنا ‘ تبلیغ و دعوت کے کام میں شریک ہونا اور لادینی قوتوں پر تنقید کرنا ایک ایسا جرم بن گیا ہے جس سے بڑھ کر حکمرانوں کے نزدیک اور کوئی جرم نہیں۔ اکبر مرحوم نے تو شاید صرف شاعری کی تھی لیکن ان کا یہ شعر اب تو مسلمانوں کے حال کی منہ بولتی تصویر ہے : حریفوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھا نے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں مسلمانوں کی ریاستیں اور حکومتیں جنھیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کا امین ‘ مبلغ اور منفّذ ہونا چاہیے تھا اور جن کی ریاستوں میں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مقابلے میں کسی اور حکم اور کسی قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیے تھی اور جن کی شناخت اور جن کا فخر صرف اسلام ہونا چاہیے تھا اور جن کے دل و دماغ کے رشتے صرف اللہ اور اس کے رسول سے وابستہ ہونے چاہئیں تھے اور جن کے تعلیمی ادارے علوم عصریہ کے ساتھ ساتھ علوم اسلامیہ کے بھی مرکز ہونے چاہئیں تھے۔ جن کے تہذیب و تمدن کی بنیادیں صرف اسلام سے پھوٹنی چاہئیں تھیں اور جن کی ثقافت آنحضرت ﷺ کے گھر اور آپ کے ماحول کی نمائندہ ہونی چاہیے تھی لیکن ان ریاستوں کو دیکھتے ہوئے یہ باتیں دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہیں۔ آج کے دانشوروں سے اگر یہ باتیں کہی جائیں تو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتیں۔ یہ تمام صورت حال یقینا خون رلادینے والی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے ہم عصر منافقین تو یہودی عدالتوں میں جا کر قیامت تک کے لیے رسوا ہوگئے اور منافق کے نام سے پہچانے گئے لیکن آج کے مسلمان ان سے بڑھ کر منافقت رکھتے ہوئے کس نام سے پکارے جائیں گے۔ انھیں اگر شیطان دور تک گمراہی کے راستوں پر لے گیا تو آج کے مسلمان کی گمراہی کے راستوں میں کوئی روک یا اوٹ باقی رہ گئی ہے ؟ کاش مسلمان اپنی اس حالت پر غور کریں۔ قرآن کریم کے آئینہ میں اپنی شکل پہچانیں اور قرآن کریم نے منافقین کی دنیا اور آخرت میں جس سزا کا ذکر کیا ہے ‘ اسے دیکھتے ہوئے عبرت حاصل کریں۔ اور عذاب کا وقت آنے سے پہلے اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کریں ‘ تو اللہ کی رحیمی اور کریمی سے کوئی بعید نہیں کہ وہ مسلمانوں کی حالت پر رحم فرمائے۔
Top