Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 60
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف (کو)
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
يَزْعُمُوْنَ
: دعویٰ کرتے ہیں
اَنَّھُمْ
: کہ وہ
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
بِمَآ اُنْزِلَ
: اس پر جو نازل کیا گیا
اِلَيْكَ
: آپ کی طرف
وَمَآ اُنْزِلَ
: اور جو نازل کیا گیا
مِنْ قَبْلِكَ
: آپ سے پہلے
يُرِيْدُوْنَ
: وہ چاہتے ہیں
اَنْ
: کہ
يَّتَحَاكَمُوْٓا
: مقدمہ لے جائیں
اِلَى
: طرف (پاس)
الطَّاغُوْتِ
: طاغوت (سرکش)
وَقَدْ اُمِرُوْٓا
: حالانکہ انہیں حکم ہوچکا
اَنْ
: کہ
يَّكْفُرُوْا
: وہ نہ مانیں
بِهٖ
: اس کو
وَيُرِيْدُ
: اور چاہتا ہے
الشَّيْطٰنُ
: شیطان
اَنْ
: کہ
يُّضِلَّھُمْ
: انہیں بہکادے
ضَلٰلًۢا
: گمراہی
بَعِيْدًا
: دور
(اے نبی تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَـآ اُنْزِلَ اِلَیْـکَ وَمَـآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِـکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْ بِہٖ ط وَیُرِیْدُالشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلـاً م بَعِیْدًا وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَـآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰـفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْـکَ صُدُوْدًا ج (اے نبی تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں) (النسآء : 60 تا 61) سابقہ آیت کریمہ میں اسلامی زندگی کے جو بنیادی اصول بیان فرمائے گئے ہیں ‘ ان کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ایک شخص جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے اسلام اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ غیرمشروط اطاعت صرف اللہ اور رسول کی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور قانون کی اطاعت کرنے کا اولاً تو وہ مجاز نہیں اور اگر کہیں اس کی اجازت ہے تو اس شرط کے ساتھ کہ وہ قانون اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے متصادم نہ ہو۔ اور اس کا مزاج اسلامی قانون کے مزاج سے مختلف نہ ہو۔ ایسی ہر حکومت اور ایسا ہر تخت وتاج جو اللہ اور رسول کی حکومت اور اطاعت سے انحراف کا راستہ دکھاتا ہو اور یا اس کے توڑ پر اپنی حکومت کا صور پھونکتا ہو اور اپنی غیرمشروط اطاعت کرانے پر زور دیتا ہو۔ اسے نہ صرف قبول نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسے ہر رشتہ اطاعت کو توڑ پھینکنے کا حکم دیا گیا ہے اور ہر مسلمان ‘ مسلمان ہوتے ہوئے اس بنیادی اصول اور عہد کا پابند ہے۔ پیش نظر آیات کریمہ میں ان لوگوں کا پول کھولا جارہا ہے جو اپنے تئیں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور بڑی قوت سے یہ بات کہتے تھے کہ ہم اللہ اس کے رسول اور ان تمام کتابوں پر ایمان لائے ہیں ‘ جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں۔ لیکن ان کا طرز ِعمل اپنے اس دعوے کے یکسر برعکس تھا۔ قرآن حکیم اظہار تعجب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے پیغمبر ذرا ان لوگوں کے طرزعمل کو دیکھئے اور پھر ان کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ چناچہ ان کی حقیقت کو یوں تو ان آیات میں پوری طرح بےنقاب کردیا گیا ہے لیکن مفسرین نے ان آیات کا جو شان نزول بیان کیا ہے ‘ اس سے ان کے حالات پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ آیات کا شان نزول ان آیات کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے ‘ جس کی تفصیل یہ ہے کہ بشر نامی ایک منافق تھا ‘ اس کا ایک یہودی کے ساتھ جھگڑا ہوگیا۔ یہودی نے کہا کہ چلو تمہارے پیغمبر سے فیصلہ کرواتے ہیں۔ مگر بشر منافق نے اس کو قبول نہ کیا بلکہ کعب بن اشرف یہودی کے پاس جانے اور اس سے فیصلہ کرانے کی تجویز پیش کی۔ کعب بن اشرف یہود کا ایک سردار اور رسول کریم ﷺ اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا۔ یہ عجیب بات تھی کہ یہودی تو اپنے سردار کو چھوڑ کر آنحضرت ﷺ کا فیصلہ پسند کرے اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا بشر آپ ﷺ کی بجائے یہودی سردار کا فیصلہ اختیار کرے ‘ مگر راز اس میں یہ تھا کہ ان دونوں کو اس پر یقین تھا کہ رسول کریم ﷺ حق و انصاف کا فیصلہ کریں گے۔ اس میں کسی کی رو رعایت یا غلط فہمی کا اندیشہ نہیں اور چونکہ اس جھگڑے میں یہودی حق پر تھا ‘ اس لیے اس کو اپنے سردار کعب بن اشرف سے زیادہ اعتماد آنحضرت ﷺ پر تھا اور بشر منافق غلطی اور ناحق پر تھا ‘ اس لیے جانتا تھا کہ آپ ﷺ کا فیصلہ میرے خلاف ہوگا اگرچہ میں مسلمان کہلاتا ہوں اور یہ یہودی ہے۔ ان دونوں میں باہمی گفتگو کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں اسی پر راضی ہوگئے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر ہو کر آپ ﷺ ہی سے اپنے مقدمہ کا فیصلہ کرائیں۔ مقدمہ آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا۔ آپ ﷺ نے معاملہ کی تحقیق فرمائی ‘ تو حق یہودی کا ثابت ہوا۔ اسی کے حق میں فیصلہ دے دیا اور بشر کو جو بظاہر مسلمان تھا ‘ ناکام کردیا۔ اس لیے وہ اس فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور ایک نئی راہ نکالی کہ کسی طرح یہودی کو اس بات پر راضی کرلیا جائے کہ ہم حضرت عمر بن الخطاب ( رض) کے پاس فیصلہ کرانے چلیں۔ یہودی نے اس کو قبول کرلیا۔ راز اس میں یہ تھا کہ بشر نے یہ سمجھا ہوا تھا کہ حضرت عمر ( رض) کفار کے معاملہ میں سخت ہیں ‘ وہ یہودی کے حق میں فیصلہ دینے کے بجائے میرے حق میں فیصلہ دیں گے۔ بہرکیف یہ دونوں اب حضرت فاروق اعظم ( رض) کے پاس پہنچے ‘ یہودی نے حضرت فاروق اعظم ( رض) کے سامنے پورا واقعہ بیان کردیا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ جناب رسول اللہ ﷺ فرما چکے ہیں ‘ مگر یہ شخص اس پر مطمئن نہیں اور آپ کے پاس مقدمہ لایا ہے۔ حضرت عمر ( رض) نے بشر سے پوچھا کہ کیا یہی واقعہ ہے ؟ اس نے اقرار کیا۔ حضرت فاروق اعظم ( رض) نے فرمایا : اچھا ذرا ٹھہرو۔ میں آتا ہوں ‘ گھر میں تشریف لے گئے اور ایک تلوار لے کر آئے اور اس منافق کا کام تمام کردیا اور فرمایا : ” جو شخض رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو ‘ اس کا یہی فیصلہ ہے۔ “ ( یہ واقعہ روح المعانی میں بروایت ثعلبی و ابن ابی حاتم حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) سے منقول ہے) منافقین کا اصل جرم آیت کریمہ کے مفہوم اور شان نزول کی تفصیل کو سامنے رکھئے تو آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی کہ وہ اصل جرم کیا ہے جس کی وجہ سے منافقین کو یہاں مطعون کیا جارہا ہے اور جس کی وجہ سے حضرت عمرفاروق ( رض) ایک منافق کا سراڑانے پر مجبور ہوئے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات کو دیکھتے ہوئے ایک مخلص مومن کے لیے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دوسرے مسلمان کی جان لینے کی کوشش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جب یہ شکایت پہنچی کہ حضرت عمرفاروق ( رض) نے ایک ایمان کے دعویدار کو قتل کردیا ہے تو حضور ﷺ نے برہم ہو کر فرمایا : ماکنت اظن ان عمر یجتری علی قتل رجل مومن ( میں گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ عمر ایک مومن آدمی کے قتل پر جرأت کرے گا) ۔ لیکن جب آپ کے سامنے اس منافق کا اصل جرم آیا اور قرآن کریم نے پوری صورتحال کو کھول کر بیان کردیا تو آنحضرت ﷺ بھی مطمئن ہوئے اور مسلمانوں کو بھی اطمینان ہوا کہ اس جرم کی سزا اس کے سوا اور کیا ہوسکتی تھی۔ وہ جرم یہ ہے کہ یہ منافق لوگ اپنے معاملات کو فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کے پاس لے کے جاتے ہیں۔ حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ طاغوت یوں تو ہر ایسی سرکش قوت کو کہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں اپنی غیرمشروط اطاعت پر اصرار کرے لیکن اس آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں طاغوت سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنی میں بالکل واضح ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہو ‘ اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ قرآن کی رو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت کا انکار دونوں لازم وملزوم ہیں۔ خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے۔ یہی بات شان نزول سے معلوم ہوتی ہے۔ جب حضرت عمرفاروق ( رض) کو یہ معلوم ہوا کہ اس شخص نے آنحضرت ﷺ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا اور پہلے یہ یہود کی عدالت میں جانا چاہتا تھا اور اب میرے پاس فیصلے کے لیے آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول کے فیصلے کو یہ آخری سند ماننے سے انکار کرتا ہے اور کسی دوسرے کے فیصلے کو آپ کے فیصلے پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ وہ جرم ہے جسے شریعت کی زبان میں ارتداد کہتے ہیں۔ ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والا مرتد کہلاتا ہے۔ کیونکہ ایمان نام ہے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں پر سرجھکا دینے کا اور دل و دماغ کو سپرد کردینے کا۔ لیکن جب ایک شخص ایمان اور اسلام کے دعوے کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لا کر اس نے جو عہد کیا تھا ‘ وہ عہد اس نے توڑ ڈالا۔ اس عہد کی وجہ سے جو اسے حقوق شہریت میسر تھے ‘ وہ یقینا اس سے چھین لیے جائیں گے اور اسلامی ریاست نے ایمان کے عوض جس طرح اس کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی تھی ‘ وہ ختم ہوجائے گی۔ بلکہ دوسروں کے سامنے اس جرم کی شناعت کو پوری طرح واضح کرنے کے لیے اسے وہ سزا دی جائے گی جو ہر قانون میں ملک کے باغی کو دی جاتی ہے۔ چناچہ ایسے شخص کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا : من ارتد عن دینہ فاقتلوہ ( جو آدمی اپنے دین سے پھرجائے اسے قتل کردو) کیونکہ اسلام میں دین پرائیویٹ معاملہ نہیں بلکہ ریاست کا قانون اور دستور ہے۔ اسے چیلنج کرنے کی کسی طرح بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چناچہ حضرت عمرفاروق ( رض) نے اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے جو کو توال شہر کے طور پر آپ کو حاصل تھا ‘ اسے قتل کردیا۔ اور آئندہ کے لیے مسلمانوں پر یہ بات واضح کردی کہ ایمان کے دعویٰ بعد اللہ اور اس کے رسول کی حیثیت کو چیلنج کرنا اور دوسروں کو وہ حیثیت دینا جو درحقیقت اللہ اور اس کے رسول کی حیثیت ہے ‘ اس کا اسلام میں کوئی جواز نہیں۔ وَیُرِیْدُالشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّـہُمْ ضَلٰـلاً م بَعِیْدًا کا مفہوم آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا : وَیُرِیْدُالشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّـہُمْ ضِلٰـلاً م بَعِیْدًا (شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے) اس جملے پر غور کرنے سے اس جملے کی بلاغت اور اس کے مفہوم کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک انسان کی زندگی مسجد تک محدود نہیں بلکہ گھر سے شروع ہو کر محلے ‘ بازار ‘ منڈیوں ‘ تعلیمی ادارے ‘ دفاتر ‘ عدالتوں سے ہوتی ہوئی ایوان ہائے حکومت تک پھیلی ہوئی ہے۔ کوئی انسان بھی جو انسانی اجتماعیت کا حصہ ہے ‘ وہ زندگی کی اس وسعت سے انکار نہیں کرسکتا۔ مسلمان انسان ہونے کے اعتبار سے اپنی زندگی میں ایسی ہی وسعت رکھتا ہے لیکن مسلمان ہونے کے حوالے سے اس کی اور عام انسان کی زندگی میں ایک فرق بھی ہے۔ عام انسان زندگی کے تمام دوائر میں اپنے ملکی قانون یا اپنے من مرضی کا مالک ہے۔ جو کچھ اس سے ملک کا قانون تقاضا کرتا ہے اور جس طرح اس کے مفادات محفوظ ہوتے اور خواہشات سپھل ہوتی ہیں ‘ اسی طرح وہ زندگی کو گزارنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اس کا مجاز بھی ہے۔ لیکن ایک مسلمان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ گھر کی انفرادی زندگی سے لے کر ایوان ہائے حکومت تک پھیلی ہوئی اجتماعیت میں کسی سطح پر بھی نہ تو ایسے ملکی قانون کی پیروی کرسکتا ہے ‘ جو اللہ اور اس کے رسول کے قانون سے متصادم ہو۔ اور نہ اپنی اس طرح کی مرضی اختیار کرسکتا ہے جو اسے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی خلاف ورزی پر آمادہ کرے۔ اسے بہرصورت زندگی کے ہر دائرے میں اور ہر مقام پر صرف اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کرنی ہے۔ اسی کا نام ایمان اور اسلام ہے۔ اگر ایک شخص اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلامی قانون کو نظرانداز کرکے ایسی عدالتوں میں جاتا ہے جہاں غیراسلامی قانون نافذ ہے اور جہاں طاغوت کے احکام چلتے ہیں ‘ تو اس کا یہ رویہ صرف عدالتوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ زندگی کے تمام دوائر میں یہی رویہ اختیار کرے گا۔ جہاں چاہے گا غیر اللہ کے قوانین کی اطاعت کرے گا۔ جہاں چاہے گا اپنی خواہشات کی پرستش کرے گا۔ جہاں چاہے گا اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر اسلامی قانون کو توڑ کر پھینک دے گا۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہی ہوگا کہ اس کی پوری زندگی مسجد کے علاوہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے آزاد ‘ شیطان یا اپنی خواہشات کی پیروی میں گزرے گی۔ یہ وہ گمراہی ہے جو بظاہر غیراسلامی عدالتوں میں اپنے معاملات کے لے جانے سے شروع ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ پوری زندگی اسلام کی پٹڑی سے اتر کر شیطان کی پٹڑی پر چڑھ جاتی ہے اور ایک مسلمان اسلام سے اتنا دور نکل جاتا ہے کہ بعض دفعہ اسے پلٹنے کا راستہ بھی نہیں ملتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا گیا ہے کہ منافقین کو دیکھو کہ دعویٰ اسلام کا رکھتے ہیں لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف آؤ۔ یعنی اللہ نے قرآن کریم میں جو احکام نازل کیے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت سے جو اس کی تشریح اور تفسیر فرمائی اور جو اس کو عملی شکل و صورت عطا کی ہے ‘ اس کی طرف آؤ ‘ تو تم ان منافقین کو دیکھوگے کہ اس سے پہلو بچا کے نکل جاتے ہیں یعنی کسی طرح بھی اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ ان کا رویہ اس لیے پختہ ہوگیا ہے کہ انھوں نے یہود کی عدالتوں میں جانے کا جو جرم کیا تھا ‘ شیطان نے اس سے فائدہ اٹھایا اور ان کی پوری زندگی پر اس کی چھاپ لگا دی۔ یہ تنقید ہمارے لیے آئینہ ہے ان آیات میں ان منافقوں پر تنقید ہو رہی ہے ‘ جو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کے ہم عصر تھے اور ان کے دلوں میں چھپی ہوئی خیانتوں کو بےنقاب کیا جارہا ہے۔ اس لحاظ سے اس تنقید پر 1400 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا لیکن جب ہم آج کے مسلمان کی حالت دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ تو ہماری حالت بیان کی جارہی ہے۔ اندازہ فرمائیے کہ مسلمانوں کے تقریباً ساٹھ کے قریب ملک ہیں۔ ان تمام ملکوں میں واضح اکثریت مسلمانوں کی ہے اور مسلمانوں کی تعداد سوا ارب سے زیادہ ہے اور دنیا کے تمام قابل ذکر ساحلوں پر ان کا قبضہ ہے۔ اللہ کی بیش بہا نعمتیں ان کے ہر ملک میں فراوانی سے پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے مسلمانوں کو نوازنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ممکن ہے اس میں مسلمانوں کا امتحان بھی ہو۔ لیکن اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ سعودی عرب میں حدود اللہ کے اجرا کے علاوہ پوری دنیائے اسلام میں کہیں بھی اللہ کا قانون نافذ نہیں۔ بعض مسلمان ملک ایسے ہیں کہ جن میں اگر مساجد نہ ہوں تو شاید باہر سے آنے والا پہچان بھی نہ سکے کہ یہ کوئی مسلمان ملک ہے۔ کوئی ایسی غیراسلامی حرکت ‘ کوئی بےحیائی ‘ کوئی بدعنوانی ‘ کوئی خیانت ایسی نہیں جس کا ارتکاب مسلمان ملکوں میں نہیں ہوتا۔ اور بیشتر ممالک کے حکمران اسلام کا نام لیتے ہوئے بھی شرماتے ہیں۔ اکثر ممالک کے جدید تعلیم یافتہ لوگ ‘ ان کے نام نہاد دانشور ‘ ان کے ذرائع ابلاغ پر قابض مافیا امکانی حد تک لادینیت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور اسلام کی جڑ کاٹنا اور اس کے بارے میں نئی نسل کے ذہنوں میں عجیب و غریب اشتباہات پیدا کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اب تو نوبت باین جا رسید کہ شرعی شکل و صورت رکھنا ‘ شرعی لباس پہننا ‘ علوم اسلامیہ کے ادارے قائم کرنا ‘ انہیں سپورٹ کرنا ‘ تبلیغ و دعوت کے کام میں شریک ہونا اور لادینی قوتوں پر تنقید کرنا ایک ایسا جرم بن گیا ہے جس سے بڑھ کر حکمرانوں کے نزدیک اور کوئی جرم نہیں۔ اکبر مرحوم نے تو شاید صرف شاعری کی تھی لیکن ان کا یہ شعر اب تو مسلمانوں کے حال کی منہ بولتی تصویر ہے : حریفوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھا نے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں مسلمانوں کی ریاستیں اور حکومتیں جنھیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کا امین ‘ مبلغ اور منفّذ ہونا چاہیے تھا اور جن کی ریاستوں میں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مقابلے میں کسی اور حکم اور کسی قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیے تھی اور جن کی شناخت اور جن کا فخر صرف اسلام ہونا چاہیے تھا اور جن کے دل و دماغ کے رشتے صرف اللہ اور اس کے رسول سے وابستہ ہونے چاہئیں تھے اور جن کے تعلیمی ادارے علوم عصریہ کے ساتھ ساتھ علوم اسلامیہ کے بھی مرکز ہونے چاہئیں تھے۔ جن کے تہذیب و تمدن کی بنیادیں صرف اسلام سے پھوٹنی چاہئیں تھیں اور جن کی ثقافت آنحضرت ﷺ کے گھر اور آپ کے ماحول کی نمائندہ ہونی چاہیے تھی لیکن ان ریاستوں کو دیکھتے ہوئے یہ باتیں دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہیں۔ آج کے دانشوروں سے اگر یہ باتیں کہی جائیں تو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتیں۔ یہ تمام صورت حال یقینا خون رلادینے والی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے ہم عصر منافقین تو یہودی عدالتوں میں جا کر قیامت تک کے لیے رسوا ہوگئے اور منافق کے نام سے پہچانے گئے لیکن آج کے مسلمان ان سے بڑھ کر منافقت رکھتے ہوئے کس نام سے پکارے جائیں گے۔ انھیں اگر شیطان دور تک گمراہی کے راستوں پر لے گیا تو آج کے مسلمان کی گمراہی کے راستوں میں کوئی روک یا اوٹ باقی رہ گئی ہے ؟ کاش مسلمان اپنی اس حالت پر غور کریں۔ قرآن کریم کے آئینہ میں اپنی شکل پہچانیں اور قرآن کریم نے منافقین کی دنیا اور آخرت میں جس سزا کا ذکر کیا ہے ‘ اسے دیکھتے ہوئے عبرت حاصل کریں۔ اور عذاب کا وقت آنے سے پہلے اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کریں ‘ تو اللہ کی رحیمی اور کریمی سے کوئی بعید نہیں کہ وہ مسلمانوں کی حالت پر رحم فرمائے۔
Top