Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 83
وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ؕ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِذَا
: اور جب
جَآءَھُمْ
: ان کے پاس آتی ہے
اَمْرٌ
: کوئی خبر
مِّنَ
: سے (کی)
الْاَمْنِ
: امن
اَوِ
: یا
الْخَوْفِ
: خوف
اَذَاعُوْا
: مشہور کردیتے ہیں
بِهٖ
: اسے
وَلَوْ
: اور اگر
رَدُّوْهُ
: اسے پہنچاتے
اِلَى الرَّسُوْلِ
: رسول کی طرف
وَ
: اور
اِلٰٓى
: طرف
اُولِي الْاَمْرِ
: حاکم
مِنْھُمْ
: ان میں سے
لَعَلِمَهُ
: تو اس کو جان لیتے
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ
: تحقیق کرلیا کرتے ہیں
مِنْھُمْ
: ان سے
وَلَوْ
: اور اگر
لَا
: نہ
فَضْلُ
: فضل
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَرَحْمَتُهٗ
: اور اس کی رحمت
لَاتَّبَعْتُمُ
: تم پیچھے لگ جاتے
الشَّيْطٰنَ
: شیطان
اِلَّا
: سوائے
قَلِيْلًا
: چند ایک
اور جب آتی ہے ان کے پاس کوئی بات امن سے یا خطرے سے متعلق تو وہ اسے پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ اور اگر یہ اس کو رسول اور اپنے اولوالامر کے سامنے پیش کرتے تو جو لوگ ان میں سے بات کی تہہ تک پہنچنے والے ہیں وہ ان کو اچھی طرح سمجھ لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم شیطان کا اتباع کرنے لگتے
وَاِذَا جَائَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ط وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَستَنْبِطُونَہٗ مِنْہُمْ ط وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلاً ” اور جب آتی ہے ان کے پاس کوئی بات امن سے یا خطرے سے متعلق تو وہ اسے پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ اور اگر یہ اس کو رسول اور اپنے اولوالامر کے سامنے پیش کرتے تو جو لوگ ان میں سے بات کی تہہ تک پہنچنے والے ہیں وہ ان کو اچھی طرح سمجھ لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم شیطان کا اتباع کرنے لگتے۔ “ (النسآء : 83) منافقین کی افواہوں سے دلچسپی منافقین پر تنقید جاری ہے اور ان کے منافقانہ رویے سے مسلمانوں کو حالات کو سمجھنے اور صحیح راستہ اختیار کرنے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ جس زمانے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے وہ مسلمانوں کے لیے انتہائی تشویشناک دور تھا۔ قریش مکہ تو عداوت سے اندھے ہو ہی رہے تھے اور وہ کوئی موقع دشمنی کا ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ‘ لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہود بھی اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے سے باز نہیں آتے تھے۔ وہ برابر قریش مکہ سے رابطے میں رہتے تھے اور دونوں قوتیں مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتی رہتی تھیں اور خود مدینے کے اندر منافقین مار آستین کا فرض انجام دے رہے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو اپنے مفادات کے ہاتھوں مجبور تھے اور کچھ لوگ ایسے تھے جنھیں یہود استعمال کر رہے تھے۔ قریش مکہ اور یہود کی دشمنی نے قریب و بعید کے قبائل کو بھی مسلمانوں پر دلیر کردیا تھا۔ ان میں سے طاقتور قبائل برابر اس تاک میں تھے کہ موقع ملنے پر مسلمانوں پر حملہ کردیں۔ مدینے کی ایک چھوٹی سی ریاست اور پوری سرزمین عرب اس کے خلاف دشمنی سے دہک رہی تھی۔ ایسی صورت حال میں جب کہ چہار طرف اندیشوں کی فصل اگ رہی ہو معمولی سی غیر ذمہ داری بڑے خطرناک نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ منافقین تو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہی تھے بعض سادہ دل مسلمان بھی اپنی سادگی کی وجہ سے ان کی باتوں میں شریک ہوجاتے تھے۔ چناچہ منافقین نے اپنا یہ وطیرہ بنا لیا تھا کہ وہ آئے دن نئی نئی افواہیں گھڑتے اور انھیں پھیلاتے تھے۔ اچانک یہ افواہ پھیلا دی جاتی کہ فلاں قبیلہ مسلمانوں پر حملہ آوار ہونا چاہتا ہے ‘ فلاں طرف سے حملے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے ‘ فلاں جگہ دشمن کو گھات لگا کر بیٹھے دیکھا گیا ہے اور سادہ دل مسلمان باہمی ہمدردی اور خیر خواہی کے باعث ان افواہوں سے خود بھی مضطرب ہوتے اور دوسروں کو بھی اضطرب میں مبتلا کردیتے۔ اور اس سے مقصود صرف یہ ہوتا کہ مسلسل خطرات کی افواہوں سے مسلمانوں کے حوصلے توڑ دیے جائیں۔ وہ جب محسوس کریں گے کہ ہم ہر طرف سے خطرات میں گھر گئے ہیں تو اعصاب کے تحمل کی بھی ایک حد ہوتی ہے آخر وہ کب تک ان کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔ آہستہ آہستہ وہ خوف کی گرفت میں آ کر عزائم کی بلندی سے محروم ہوجائیں گے۔ بجز چند سرفروشوں کے اور کوئی شخص بھی مسلسل ان افواہوں کا مقابلہ نہ کرسکے گا۔ افواہ سازی قوم کا حوصلہ توڑنے کا موثر ذریعہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ حربی صلاحیت اور حربیت کے اعتبار سے ایک پسماندہ زمانہ ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آج حربی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتی بلکہ اصل میدانِ جنگ قوم کے دل ہوتے ہیں۔ اگر وہ پوری توانائی اور اولوالعزمی کے ساتھ اپنی فوج کی پشت پر کھڑے ہوتے ہیں تو فوج میدانِ جنگ سے پسپا ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ لیکن اگر قوم ہمت ہار دیتی ہے اور اس کے سیاستدان اور اصحابِ اقتدار اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہو کر سمجھوتے کی میز پر آجاتے ہیں تو فوج کی جیتی ہوئی بازی بھی شکست میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس لیے نئی فوجی تکنیک یہ ہے کہ گرم جنگ سے پہلے سرد جنگ لڑی جاتی ہے۔ دشمن قوم کے دماغوں کو مسخر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کے سوچنے سمجھنے والے افراد کی رائے کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے اندر پانچواں کلام تیار کیا جاتا ہے جن کا کام دشمن قوم کو ہر وقت افواہوں کی گرفت میں رکھنا ہوتا ہے اور افواہ سازی کے لیے مستقل سیل قائم کیے جاتے ہیں۔ جہاں بڑے بڑے دماغ عجیب و غریب افواہوں کو جنم دیتے ہیں اور پانچواں کلام اور ان کے جاسوس اسے دشمن قوم میں پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ آج اسے نہایت منظم طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اگرچہ یہ برائی منظم طریقے سے انجام نہیں پا رہی تھی لیکن اس کی اہمیت اور افادیت ماہرین جنگ کی نگاہوں میں آج ہی کی طرح مسلم تھی۔ چناچہ اسی اہمیت کے پیش نظر منافقین کے بارے میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان کا حال یہ ہے کہ جب بھی ان کے پاس کوئی خبر پہنچتی ہے تو وہ اسے مسلمانوں میں پھیلانے کے لیے دوڑ بھاگ میں لگ جاتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں کو یہ تربیت دی جا رہی ہے کہ منافقین تو دشمن کے ایجنٹوں کی طرح تمہارے حوصلے شکست کرنے کے لیے یہ حرکت کریں گے۔ لیکن تمہیں ان کے دیکھا دیکھی کبھی اس میں شریک ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تمہارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ جب بھی اس طرح کی بات سنو تو سب سے پہلے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق یہ جاننے کی کوشش کرو کہ خبر لانے والا کون ہے۔ اگر کوئی فاسق یعنی بد کردار اور غیر معتبر آدمی ہے تو اس کی خبر کو مت قبول کرو۔ اور مزید یہ کہ جس بات کو سنو اسے بلا تحقیق دوسرے سے کہنا شروع نہ کردو کیونکہ جس طرح جھوٹ ایک بدترین برائی ہے اور اللہ کے یہاں اس کی بڑی سزا ہے اسی طرح وہ آدمی بھی جھوٹوں میں شمار ہوگا جو ہر سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق دوسروں سے کہنا شروع کردیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ (کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ جو سنے کہنا شروع کر دے) جنگ کے دنوں میں اس طرح کی بےاحتیاطی بڑے خطرناک نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ مگر عام دنوں میں بھی اسلام مسلمانوں کا جو مزاج پیدا کرنا چاہتا ہے اس میں اس بےاحتیاطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیونکہ اسلام کے نزدیک جھوٹ بدترین لعنت ہے اور جھوٹ بولنے والا لعنت کا سزاوار ہے۔ اس لیے ہر وہ بات جس پر جھوٹ کا شبہ بھی ہوتا ہو یا جھوٹ پر منتج ہوسکتی ہو یا جس سے جھوٹ کا مزاج پیدا ہو اسلام ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ ایسا رویہ زندگی کے ہر دائرے میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔ گھروں میں جہاں چند افراد بستے ہوں ایک آدمی بھی اس مزاج کا ہو تو گھر میں ناچاقی اور بےاتفاقی کا ماحول پیدا ہوتا رہتا ہے۔ اور اگر معاشرے میں یہ رویہ عام ہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ کوئی گھر ‘ کوئی دفتر اور کوئی ادارہ حالات کی خرابی سے محفوظ نہیں رہتا۔ اس لیے اسلام کی یہ ہدایت صرف جنگی حالات تک محدود نہیں بلکہ پوری زندگی پر حاوی ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی بھی معاشرے میں اس ہدایت کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو ضرور تلخ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ سب سے پاکیزہ معاشرہ عہد نبوت کا معاشرہ ہے۔ لیکن اس میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جس میں سے ایک مثال کو اس آیت کے شان نزول کے طور پر بھی مفسرین بیان کرتے ہیں۔ کہ حضرت عمر فاروق ( رض) کے دینی بھائی گئی رات حضرت عمر ( رض) کے دروازے پر آئے دستک دی۔ آپ گھبرا کر باہر نکلے اور گھبراہٹ میں پوچھا کہ فلاں قبیلے نے حملہ کردیا ہے ؟ انھوں نے کہا نہیں ‘ اس سے بےبھی بڑی بات ہوگئی۔ پوچھا وہ کیا ؟ کہنے لگے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر ( رض) کا دل بیٹھ گیا۔ ان کی پریشانی دو گونہ تھی۔ ایک تو پریشانی کا سبب وہی تھا جو تمام مسلمانوں کے لیے تھا کہ آنحضرت ﷺ کے گھر میں خدا نہ کرے ایسی کیا بات ہوگئی ہے جب کہ وہ گھر پوری انسانیت کے لیے نمونہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی بیویوں کو طلاق دینے پر مجبور ہوگئے۔ اس سے دشمن فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے اور مسلمانوں کے معاشرے میں نہایت پریشان کن صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ اور دوسرا پریشانی کا سبب یہ تھا کہ آپ ( رض) کی صاحبزادی حضرت حفصہ ( رض) آنحضرت ﷺ کے نکاح میں تھیں۔ صبح حضرت عمر ( رض) مسجد میں پہنچے تو لوگوں کو اس صدمے سے نڈھال پایا۔ ہر آدمی یہی سمجھتا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ آپ ( رض) پریشانی میں باہر نکلے معلوم ہوا کہ گھر کے اوپر کے کمرے میں حضور ﷺ تشریف فرما ہیں۔ سیڑھی کے پاس ایک لڑکا دربان کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ آپ ( رض) نے اس سے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے اجازت طلب کرو میں حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ اس نے واپس آ کر بتایا کہ حضور ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آپ ﷺ پھر مسجد میں جا بیٹھے۔ چین نہ آیا کچھ دیر کے بعد لوٹ کر آئے اور پھر اجازت مانگی اور نہ ملی۔ تیسری دفعہ پھر حاضر ہوئے اور بلند آواز میں پکار کر کہا کہ حضور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں حفصہ ( رض) کی سفارش کے لیے آیا ہوں تو آپ مجھے حکم دیجیے میں اس کا سر اتار کر حاضر کردیتا ہوں۔ تب آپ ﷺ نے اجازت دی۔ حضرت عمر ( رض) نے بڑے ادب سے جا کر پوچھا کہ کیا جناب نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ آپ ﷺ نہایت خوش ہوئے اور مسلمانوں کو آ کر اطلاع دی کہ تمہیں کسی نے غلط خبر دی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بیویوں کو طلاق نہیں دی ہے۔ اس سے تمام اہل مسجد کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس ایک بات سے اندازہ کیجیے کہ بلا تحقیق بات کے پھیلا دینے سے کتنے بڑے حادثے پیش آسکتے ہیں۔ اور جنگ کے زمانے میں تو اس کی خطرناکی کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس آیت کریمہ میں منافقین کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ جس طرح خوف کی باتیں لوگوں میں اڑاتے ہیں اسی طرح امن سے متعلق کوئی بات ہو تو اسے بھی بلا تحقیق لے اڑتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن ہمیشہ صرف ایسی افواہیں نہیں پھیلاتا جس سے قوم کے حوصلے توڑنا مقصود ہوتے ہیں بلکہ وہ اس طرح کی افواہیں بھی اڑاتا ہے جس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ حالات چاہے جتنے بھی نامساعد ہیں لیکن وہ مسلمانوں میں یہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں جنگ کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور ہماری فوج ایسی ناقابلِ تسخیر ہوچکی ہے کہ کسی دشمن کو کبھی ہماری سرحدوں پر پائوں رکھنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ وہ ہماری اسلحی برتری اور ہماری فوجی تربیت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس قوم سے ٹکر لینا سر پھوڑنے کے سوا کچھ نہیں۔ اس طرح کی افواہیں پھیلا کر مسلمانوں کو سلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور پھر اندر ہی اندر دشمن کے ایجنٹ اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب اس سوئی ہوئی قوم پر رات کی تاریکی میں دشمن وار کردیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی جب کہ ہر چہار طرف خطرات امڈ رہے تھے ایسے لوگ بھی تھے جو آج کی طرح مسلمانوں کو سلائے رکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے وہ ہر طرف خیریت کی افواہیں اڑاتے تھے اور جو لوگ خطرات کی بات کرتے تھے ان کو دشمن کا ایجنٹ قرار دیا جاتا تھا۔ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا کہ افواہ خوف کی ہو یا امن کی جب بھی ایسی کوئی بات تمہارے پاس پہنچے تو تمہیں منافقین کی طرح اسے پھیلانے کے بجائے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر صورت حال عرض کرنی چاہیے اور اگر آنحضرت ﷺ کی مصروفیت کے باعث ان تک نہ پہنچ سکو تو پھر ان لوگوں تک ایسی باتوں کو پہنچائو جن کے سپرد ایسے معاملات کیے گئے ہوں۔ جنھیں قرآن کریم کی زبان میں ” اولو الامر “ کہا گیا ہے۔ (اور ہم سورة النسآء آیت نمبر 59 کی تشریح میں اولو الامر کے مفہوم کی وضاحت کرچکے ہیں) جن میں علماء ‘ فقہاء اور قضاۃ بھی شامل ہیں اور وہ لوگ بھی جن کے سپرد انتظامی ذمہ داریاں ہیں۔ عہد نبوت اور عہد صحابہ میں چونکہ دین و دنیا کی کوئی تفریق نہیں تھی اس لیے انتظامی ذمہ داریاں بھی انہی لوگوں کے سپرد کی جاتی تھی جو علوم اسلامیہ سے بہرہ ور ہوتے تھے۔ البتہ ایک بات جو ترجیح کے لائق تھی اور جس کو بطور خاص اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ” تمہیں اولوالامر میں سے ان لوگوں کے پاس ایسے معاملات کو لے کر جانا چاہیے جنھیں اللہ نے استنباط کی صلاحیت سے بہروہ ور فرمایا ہے “ استنباط کا معنی کنواں کھود کر اس سے پانی نکالنا اور کسی پوشیدہ چیز کو ظاہر کرنا ہے۔ پھر اس مفہوم سے ترقی کر کے یہ لفظ کسی بات کی تہہ کو پہنچنے اور اس کی حقیقت پانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو ایسے نازک معاملات کسی کتابی آدمی کے پاس لے جانے سے فائدہ ہوتا ہے اور نہ ایسے آدمی کے پاس جو انتظامی صلاحیت تو رکھتا ہو لیکن بات کی تہہ تک اتر کر حقیقت معلوم کرنے کی صلاحیت سے تہی دامن ہو۔ اس کے لیے علم بھی درکار ہوتا ہے اور تجربہ بھی اور بطور خاص خداداد صلاحیت بھی۔ ایسے لوگوں کے پاس جب اس طرح کے معاملات پہنچتے ہیں تو وہ غور و فکر کے بعد معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو کچھ پھیلایا جا رہا ہے اس کی اصل حقیقت کیا ہے اور پھیلانے سے مقصود کیا ہے اور اس کے پیچھے کون لوگ کام کر رہے ہیں۔ مختلف مصادر سے ڈانڈے ملانے کے بعد اندازہ ہوجاتا ہے کہ بات کی اصل حقیقت کیا ہے۔ فضل اللہ کا مفہوم وَ لَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ الخ اس کا ایک مفہوم تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ منافقین افواہ سازی اور افواہوں کی اشاعت میں اس حد تک سرگرم ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے پوری طرح اپنے کارندے ان کے ساتھ لگارکھے ہیں اور ان کے دل و دماغ کو پوری طرح آلہ کار بنا لیا ہے۔ اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان کے پر اپیگنڈے کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ گمان ہوسکتا ہے کہ تم اس کار شیطان کا حصہ بن جاتے اور جو کچھ منافقین چاہتے ہیں ان کے اثرات کو تم بھی قبول کرنے لگتے۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد ایمان میں ثابت قدمی اور اس کے تقاضوں پر عمل یہ اللہ کا وہ فضل و کرم ہے جس کے نتیجے میں ایک مومن میں خاص مزاج پیدا ہوتا ہے کہ شیطان کا کوئی وار بھی اس پر کارگر نہیں ہوتا۔ اس کا ایمان ایک ایسا پیمانہ فکر بن جاتا ہے جس سے وہ ہر بات کو بڑی آسانی سے اندازہ کر کے جانچ لیتا ہے۔ اور اس کی ایمانی دانش بڑی آسانی سے فیصلہ کرلیتی ہے کہ جو بات کہی جا رہی ہے وہ شیطان کی طرف سے ہے یا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے۔ اس مزاج اور اس دانش کا نصیب ہونا اللہ کے رسول کی دعوت کی قبولیت اور پروردگار کے فضل و احسان کا نتیجہ ہے۔ اگر تم اللہ کے رسول ﷺ کے اتباع میں کامل نہ ہوتے تو یقینا تمہیں یہ دولت نہ ملتی اور تم اللہ کے فضل و کرم کے مستحق نہ ٹھہرتے اور پھر اس بات کا اندیشہ تھا کہ تم بھی منافقین کی طرح شیطان کے اتباع میں مبتلا ہوجاتے۔ لیکن اب اللہ کے فضل سے منافقین کی ساری کوششیں بیکار ثابت ہو رہی ہیں۔
Top