Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو یا اسی کو لوٹا دو ۔ اللہ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے
وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَآ اَوْرُدُّ وْہَا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَسِیْبًا (اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو یا اسی کو لوٹا دو ۔ اللہ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے) (النسآء : 86) ” تحیۃ “ باب تفعیل کا مصدر ہے۔ اس کا اصل معنی ” کسی کو زندگی کی دعا دینا “ ہے۔ ” حَیَّاکَ اللّٰہُ “ کا دعائیہ کلمہ اسی سے بنا ہے جس کا معنی ہے ” اللہ تمہیں زندہ رکھے “ یا ” اللہ تمہاری عمر دراز کرے “۔ سلام کے حکم کا پس منظر گزشتہ رکوع میں ہم نے پڑھا ہے کہ منافقین کی مختلف عادات و خصوصیات کو بیان کرنے اور مسلمانوں کے خلاف ان کی درپردہ سازشوں کو بےنقاب کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ سے کہا گیا ہے کہ آپ ان کی سازشوں کی پرواہ نہ کریں ‘ البتہ ان سے اعراض کا رویہ اختیار کریں۔ آپ کا بھروسہ اللہ پر ہونا چاہیے۔ وہی آپ کا کارساز ہے ‘ اس کی تائید و نصرت اگر میسر ہے تو پھر یہ منافقین آپ کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ اس لیے ان کی مخالفت سے آپ نہ اثر قبول کریں اور نہ ابھی ان کے خلاف کوئی اقدام کریں ‘ البتہ وہ شفقت اور توجہ جس کی پھوار ہر ایک پر برستی رہتی ہے اس میں آپ کمی فرما دیں اور ان سے اعراض اور بےنیازی کا رویہ اختیار کریں تاکہ ان کو اندازہ ہوجائے کہ آپ ان کی سازشوں اور شرارتوں سے بیخبر نہیں ہیں۔ مسلمان چونکہ ہر معاملے میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کرتے تھے اور آپ ﷺ کی ایک ایک بات اور ایک ایک ادا پر ان کی نظر رہتی تھی۔ وہ جیسے ہی منافقین سے آپ کو اعراض کرتے ہوئے دیکھیں گے تو انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آپ یقینا ان سے ناراض ہیں اور آپ کی ناراضگی کسی سے بھی اپنی ذات کی وجہ سے تو نہیں ہوتی بلکہ اس کا سبب غیرت دینی یا اللہ کا حکم ہوتا ہے۔ اس احساس کے پیدا ہوتے ہی یقینا اس بات کا خطرہ تھا کہ مسلمان بھی منافقین سے اپنا رویہ بدل لیں اور جو لوگ مسلمانوں میں زیادہ پرجوش ہیں وہ ہوسکتا ہے منافقین کے خلاف کوئی اقدام کر ڈالیں۔ ابھی حالات اس سطح تک نہیں پہنچے تھے کہ منافقین کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے۔ اس لیے اس آیت کریمہ کے ذریعے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی کہ منافقین کا طرز عمل کچھ بھی ہو تمہیں بہرحال اپنے طرز عمل میں سختی یا بیگانگی پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ تمہاری حیثیت ایک داعی اور مبلغ کی ہے۔ دوسروں کی طرف سے اگر تمہیں تلخیاں بھی ملیں تو تمہیں اس کا جواب تلخی سے نہیں دینا چاہیے۔ اس سے معاملات ہمیشہ بگڑتے ہیں سدھرتے نہیں۔ اس لیے جب تم یہ دیکھو کہ کوئی تمہیں احترام کے ساتھ دعا دے رہا ہے تو تم بھی اس کی دعا کا جواب دعا سے دو ۔ بلکہ تمہاری دعا میں اس کے لیے زیادہ محبت کا اظہار ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ کرسکو تو اسی کے دعائیہ کلمات کو دہرا دو ۔ سلام مسلمان کی شناخت اس آیت کریمہ میں بظاہر یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر تمہیں کوئی دعائیہ کلمات سے سلام کرتا ہے تو تمہیں بھی ایسے ہی دعائیہ کلمات سے جواب دینا چاہیے۔ اور اس کی ضرورت اس وقت کے تلخ حالات میں مسلمانوں کو تلخی کا رویہ پیدا کرنے سے روکنا تھا۔ لیکن جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ اس وقت اس کی ضرورت اس لیے پید اہوئی ‘ لیکن درحقیقت یہ آیت کریمہ بنیاد ہے اس طریق سلام کی جسے اسلام نے مسلمانوں میں رواج دیا اور جو مسلمانوں کی قومی اور ملی شناخت کا ذریعہ بن گیا۔ دنیا میں بسنے والی تمام قوموں میں اس بات کا احساس پایا جاتا ہے کہ ان کی قوم کے دو افراد بھی جب آپس میں ملیں تو باہمی تعارف ‘ شناخت اور اعتماد کا کوئی ایسا ذریعہ ہونا چاہیے جس سے بیگانگی دور کرنے میں مدد ملے۔ چناچہ مختلف قوموں نے اپنے اپنے طریقے کے مطابق کچھ الفاظ اختیار کر رکھے ہیں۔ مثلاً دو انگریز جب آپس میں ملتے ہیں تو وقت کے حوالے سے ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں۔ صبح کو Good Morning کہیں گے دوپہر کو Good Noon سہہ پہر کو Good Afternoon شام کو Good Evening اور رات کو Good Night۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے بدلنے سے ان کا دعائیہ کلمہ بھی بدل جاتا ہے۔ یہی حال عربوں کا بھی تھا۔ وہ عام طور پر دعائیہ کلمہ ” حیَّاکَ اللّٰہ “ سلام کے طور پر استعمال کرتے۔ کبھی ” اَنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا “ کہتے۔ کبھی ” انعم صباحا “ کہتے اور کبھی ” انعم مساء “۔ یعنی ان کے سلام بھی صبح و شام کے فرق سے بدلتے رہتے۔ ہندوئوں میں آپ دیکھیں گے ان کے عام لوگ ” نمستے “ کہتے ہیں اور ان کے زیادہ مذہبی لوگ دوسرے سے ملتے ہوئے ” رام رام “ کہتے ہیں۔ ان مثالوں میں آپ نے دیکھا کہ ہر قوم نے باہمی تعارف اور آپس میں موانست کے اظہار کے لیے سلام کے کچھ طریقے مقرر کر رکھے ہیں۔ جن میں دو چیزیں بڑی نمایاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ باہمی ملاقات کے وقت وہ ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں۔ لیکن یہ دعا وقت کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ اس لیے وقت بدلنے سے دعا بھی بدل جاتی ہے۔ اور دوسری یہ بات کہ بعض قوموں نے اسے اپنے مذہب کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس لیے وہ ملاقات کے وقت اپنے مذہب کی کسی بنیادی بات کا حوالہ دیتے ہیں۔ جس سے تعارف یا موانست میں شاید کوئی مدد ملتی ہے یا نہیں ملتی البتہ مذہب کا اظہار ضرور ہوجاتا ہے۔ لیکن اسلام نے سلام کے جس طریقے کو متعارف کرایا اور مسلمانوں پر اسے لازم کیا وہ صرف ملاقات کا ہی ذریعہ نہیں بلکہ اس میں اتنی وسعت اور جامعیت پائی جاتی ہے کہ جس کا عام قوموں میں دور دور تک تصور نہیں پایا جاتا۔ اس میں بیک وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی ہے ‘ تذکیر بھی ‘ مسلمان بھائی سے اظہارِ تعلق بھی ہے اور اس کے لیے دعا اور ضمانت بھی۔ ان تمام حوالوں سے جب ہم سلام کو دیکھتے ہیں تو اس کی جامعیت کو دیکھتے ہوئے حیرت ہونے لگتی ہے۔ اب ہم اس کی وضاحت کے لیے چند باتیں عرض کرتے ہیں۔ سلام کا مفہوم اور اس کی جامعیت 1 سلام اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔ جب آدمی کسی کو سلام کہتا ہے تو وہ گویا السلام کا لفظ بول کر اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ اور اگر وہ اس کی معنویت پر غور کرے تو اس کے احساس میں مزید وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ اللہ کا ذکر آدمی میں تذکیر کا کام بھی کرتا ہے۔ یعنی اسے یاد دلاتا ہے کہ تم اللہ کے بندے ہو خود رو یا آزاد مخلوق نہیں ہو۔ اللہ کی طرف سے جس طرح تم پر اس کے حقوق عائد کیے گئے ہیں اسی طرح بندوں کے حقوق بھی عائد کیے گئے ہیں دیکھو اللہ کا نام لے کر جب تم کسی بندے سے ہمکلام ہوتے ہو تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو مجروح نہ ہونے دینا۔ اور مزید یہ کہ تم اس کی معنویت پر غور کرو تو تمہیں اندازہ ہوگا کہ تم نے السلام کا لفظ بول کر کتنی بڑی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ابن العربی نے احکام القرآن میں ذکر کیا ہے کہ ” السلام علیکم کے معنی ہیں ” اللہ رقیب علیکم “ (اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ ہے) جب تم نے اسے اللہ کے محافظ ہونے کی خبر دی تو پھر اگر تمہاری طرف سے اسے کوئی بھی نقصان پہنچا یا تمہاری نیت میں اس کے حوالے سے کوئی بھی فساد پیدا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے اللہ کی حفاظت کو چیلنج کیا ہے۔ اس صورت میں یہ معاملہ تمہارے اور دوسرے آدمی کے درمیان نہیں رہے گا بلکہ تمہارے اور اللہ کے درمیان ہوگا۔ تم جیسے جیسے اس کی حفاظت کے حصار کو توڑو گے ویسے ویسے تم خود غیر محفوظ ہوتے جاؤ گے۔ اس لحاظ سے آپ دیکھیں کہ السلام علیکم کہہ کر آدمی کتنی بڑی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ ایک طرف اللہ کو یاد کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے حوالے سے اپنے ملنے والے کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے مسلمان کی تعریف یہ فرمائی ” المسلم من سلم المسلمون من لسانہٖ و یدہٖ “ (مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں) ابن العربی نے احکام القرآن میں امام ابن عیینہ کا یہ قول نقل کیا ہے ” أ تدری ما السلام ؟ یقول انت آمن منی “ (تم جانتے ہو کہ سلام کیا چیز ہے ؟ سلام کہنے والا یہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے مامون ہو) یعنی میں تمہیں ضمانت دیتا ہوں کہ میری طرف سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بلکہ حتیٰ المقدور میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ 2 سلام دو مسلمانوں کے درمیان اظہارِ تعارف بھی ہے۔ جب ایک مسلمان دوسرے کو السلام علیکم کہتا ہے تو وہ دراصل ایک علامت کا اظہار کرتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں اور میرا تعلق امت مسلمہ سے ہے۔ اور جب دوسرا مسلمان وعلیکم السلام کہتا ہے تو وہ درحقیقت اس کے سلام کو قبول کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کرتا ہے اور اس طرح سے دونوں یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی امت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارا خدا ‘ ہمارا رسول اور ہمارا دین ایک ہے۔ ہمارے حسن و قبح کے معیارات ایک ہیں۔ ہمارے تحفظات یکساں ہیں۔ ہمارے مقاصد میں ہم آہنگی ہے۔ ہماری اجتماعی مصلحتیں یکساں ہیں۔ اس ایک لفظ سے یکسانیت اور وحدت کے تمام حوالے ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ان دونوں کے درمیان سے اجنبیت کے تمام پردے اٹھ جاتے ہیں۔ وہ دشمن کے دیس میں ہوں تو محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں ایک محفوظ پناہ مل گئی ہے۔ اور اگر اپنوں میں ہوں تو محبت کا زمزم بہنے لگتا ہے۔ 3 السلام کا لفظ دعا بھی ہے۔ اور اس دعا میں بڑی وسعت ہے۔ جب ایک آدمی دوسرے کو سلام کہتا ہے تو وہ اس کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعا مانگتا ہے۔ اسے دنیا میں ہر دکھ اور ہر تکلیف سے محفوظ دیکھنا چاہتا ہے۔ اور آخرت میں اسے جہنم کے عذاب سے بچانا چاہتا ہے۔ اس کی دعا صبح و شام میں محدود نہیں ہوتی۔ بلکہ پوری زندگی پر محیط ہوتی ہے۔ اور پھر دنیا سے آگے بڑھ کر آخرت کی بھلائیوں تک دراز ہوجاتی ہے۔ انہی تینوں حوالوں سے پروردگار نے سلام کو مسلمانوں کے لیے نہ صرف علامت بنایا ‘ بلکہ اس کو عبادت کا درجہ بھی دیا اور اسی کو ایک دوسرے کی حفاظت کی ضمانت بنادیا اور اس کے عام کرنے اور اس کو رواج دینے کے لیے اس کی انتہائی تاکید فرمائی اور فضائل بیان فرمائے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ( رض) کی ایک حدیث ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ ” تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک مومن نہ ہو اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تم میں آپس میں محبت قائم ہوجائے گی۔ وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو عام کرو ‘ ہر مسلمان کو سلام کرو خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔ “ سلام کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے اس پر نیکیوں کی عطا و بخشش کا ذکر بھی فرمایا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ” عن ابی امامۃ قال قال رسول اللہ ﷺ ان اولیٰ الناس باللہ من بدأ بالسلام “ (حضرت ابو امامہ ( رض) سے روایت ہے کہ لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے) ایک دوسری حدیث میں جو حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” البادیٔ بالسلام بریٔ من الکبر “ (سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہے) سلام کو مزید موثر بنانے اور مسلمانوں کو رحمتوں سے نوازنے کے لیے آنحضرت ﷺ نے اس میں مزید دعائوں کا اضافہ فرمایا اور اس پر مزید اجر وثواب کی امید دلائی۔ اور آپ ﷺ نے اپنے عمل سے مسلمانوں کے دل و دماغ میں اسے راسخ فرمایا۔ عمران بن حصین ( رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا ” السلام علیکم “ آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا پھر وہ مجلس میں بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” دس “ (یعنی اس بندے کے لیے اس کے سلام کی وجہ سے دس نیکیاں لکھی گئیں) پھر ایک اور آدمی آیا اس نے کہا ” السلام علیکم و رحمتہ اللہ “ آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ آدمی بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” بیس “ (یعنی اس کے لیے بیس نیکیاں لکھی گئیں) پھر ایک تیسرا آدمی آیا اس نے کہا ” السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ “ آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ مجلس میں بیٹھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” تیس “ (یعنی اس کے لیے تیس نیکیاں ثابت ہوگئیں) اندازہ فرمایئے کہ جیسے جیسے ایک آدمی اپنے دوسرے بھائی کے لیے دعائوں میں اضافہ کرتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی اپنی نیکیوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اسی تاکید و ترغیب کا نتیجہ تھا کہ صحابہ میں سلام صرف ایک علامت بن کر نہیں رہ گیا تھا بلکہ وہ اسے نیکیوں کے حصول کا ذریعہ سمجھ کر زیادہ سے زیادہ سلام کہتے اور سلام سنتے تھے۔ “ امام مالک ( رح) نے ابی ابن کعب ( رض) کے صاحبزادے طفیل کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ ان کا طریقہ تھا کہ وہ ہمیں ساتھ لے کر بازار جاتے تھے۔ اور جس دکان اور جس کباڑیے اور جس فقیر و مسکین کے پاس سے گزرتے اس کو بس سلام کرتے اور کچھ خریدو فروخت کیے بغیر واپس آجاتے۔ ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو معمول کے مطابق مجھے ساتھ لیکر بازار جانے لگے تو میں نے عرض کیا کہ آپ بازار جا کر کیا کریں گے ؟ نہ تو آپ کسی دکان پر کھڑے ہوتے ہیں نہ کسی چیز کا سودا کرتے ہیں ‘ نہ بھائو ہی کی بات کرتے ہیں اور بازار کی مجلسوں میں بھی نہیں بیٹھتے (پھر آپ بازار کس لیے جاتے ہیں ؟ ) یہیں بیٹھیے باتیں ہوں اور ہم استفادہ کریں۔ حضرت ابن عمر ( رض) نے فرمایا کہ ہم تو صرف اس غرض اور اس نیت سے بازار جاتے ہیں کہ جو سامنے پڑے اس کو سلام کریں (اور ہر سلام پر کم از کم دس نیکیاں کما کر اللہ کی رحمتیں اور بندگانِ خدا کے جوابی سلاموں کی برکتیں حاصل کریں) یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ متذکرہ بالا حدیث میں آپ نے دیکھا کہ دعائوں کے اضافے سے اجر وثواب میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ لیکن ان دعائوں میں اضافہ صرف تین کی حد تک محدود ہے یعنی وبرکاتہ تک۔ مزید اضافے کی حضور ﷺ نے اجازت نہیں دی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کے عمل سے مزید اس کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ جب کسی نے ان کے سامنے تین دعائوں پر اضافہ کرنے کی کوشش کی تو آپ ( رض) نے فرمایا ” ان السلام قد انتہی من البرکۃ “ (سلام لفظ برکۃ پر ختم ہوجاتا ہے اس سے زیادہ کہنا مسنون نہیں) سلام کا موقع بجائے خود اس کا تقاضا کرتا ہے کہ سلام مختصر ہونا چاہیے۔ اس میں اتنی زیادتی مناسب نہیں جو کسی کام میں مخل ہو یا سننے والے پر بوجھ بن جائے۔ جس طرح ملاقات کے وقت سلام کہنا سنت اور اس کا جواب دینا واجب ہے اور یہ مسلمانوں کے طرز معاشرت اور ثقافت کا ایک اہم عنصر ہے اسی طرح سلام کو آنحضرت ﷺ نے بعض دوسرے مواقع کے لیے بھی مسنون بنایا ہے۔ اب ہم ایک ترتیب سے ان مواقع کا ذکر کرتے ہیں : سلام ملاقات کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لیے بھی 1 حضرت انس ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” یا بنی اذا دخلت علی اہلک فسلم یکون برکۃ علیک و علی اہل بیتک “ (بیٹا جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو سلام کرویہ تمہارے لیے باعث برکت ہوگا اور تمہارے گھر والوں کے لیے) ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب گھر سے جانے لگو تو سلام کر کے نکلو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے کے آداب میں یہ بھی ایک ادب ہے کہ اہل خانہ کو سلام کرو۔ اور بعض احادیث سے ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ سلام کہنے اور دعا کرنے سے گھر بہت سی آفات سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اور جنات اس گھر میں بسیرا نہیں کرسکتے۔ 2 آنحضرت ﷺ نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ جب کسی سے ملاقات کے لیے اس کے گھر یا کسی مجلس میں جانا پڑے تو پہلے سلام کہو اور اجازت مانگو۔ سلام اور اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہونا یا مجلس میں جا کر بیٹھ جانا آنحضرت ﷺ کے بتائے ہوئے آداب کے خلاف ہے۔ کوئی آدمی چاہے گھر میں اکیلا رہتا ہو بغیر سلام اور اجازت کے گھر میں داخل ہونا اس کے لیے اذیت کا باعث ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے وہ اس وقت مناسب حالت میں نہ ہو یا اس کی مصروفیت ملنے کی اجازت نہ دیتی ہو۔ اس لیے حضور ﷺ نے استیذان کی پابندی کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ” تین دفعہ سلام کرو اگر جواب نہ آئے تو واپس پلٹ جاؤ اور برا نہ مانو۔ “ اور یہ سلام کہنا اور اجازت طلب کرنا بعض مواقع پر حضور ﷺ نے اس کی نہایت تاکید فرمائی ہے اور جب کسی نے اس میں تساہل برتا تو آپ ﷺ نے اسے باہر بھیج دیا کہ دوبارہ اجازت لے کر اندر آئو۔ فتح مکہ کے بعد حضور وادی مکہ کے بالائی حصے میں ٹھہرے ہوئے تھے کلدہ بن حنبل کہتے ہیں کہ میں صفوان بن امیہ کی جانب سے چند تحائف لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں سلام کہے اور اجازت لیے بغیر اندر داخل ہوگیا اور آپ ﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم واپس جاؤ اور قاعدہ کے مطابق ” السلام علیکم أ ادخل “ کہہ کے اجازت مانگو۔ کلدہ چونکہ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے انھیں ان آداب سے آگاہی نہیں تھی اس لیے وہ حسب سابق اجازت طلب کیے بغیر حضور ﷺ کے پاس پہنچ گئے لیکن آپ ﷺ نے انھیں باہر بھیج دیا اور سلام اور اجازت کے بعد اندر داخل ہونے کا حکم دیا۔ اسی مضمون کی اور بھی متعدد احادیث ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے سلام کہنا اور اجازت طلب کرنا مسلمانوں کی ثقافت کے بنیادی عناصر میں سے تھا۔ اور جب کسی نے اس پر عمل میں کوتاہی کی تو آپ ﷺ نے اس پر تنبیہہ فرمائی۔ لیکن آج یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ مسلمان معاشرے میں نیچے سے لیکر اوپر تک ان آداب سے لاپرواہی برتی جاتی ہے۔ سلام کے لیے کچھ ضوابط 3 سلام کہنے کے کچھ آداب اور ضابطے بھی حضور ﷺ نے تعلیم فرمائے ہیں۔ جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سلام صرف ملاقات کا ذریعہ ہی نہیں ‘ بلکہ تربیت کا ذریعہ بھی ہے۔ انسان کی بہت بڑی کمزوری جو اسے بہت سی نیکیوں سے محروم کردیتی ہے وہ ” کبر “ ہے۔ جیسے ہی طبیعت میں غرور اور نخوت کا فساد پیدا ہوتا ہے انسانیت کا احترام ‘ انسانی اقدار کا احترام ‘ اخلاقِ حمیدہ کا احترام اور ہمدردی ‘ خیر خواہی ‘ محبت اور مؤدت کے جذبات سلب ہونے لگتے ہیں۔ آدمی اپنے ذات کے گنبد میں اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا۔ “ ہر مسلمان کو سلام کہنا اور پھر سلام میں پہل کرنا تکبر کی لعنت کو ختم کردیتا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے سلام کے آداب میں یہ بات شامل فرمائی کہ چھوٹا بڑے کو سلام کہے۔ کیونکہ یہ احترام اور اخلاق کا تقاضا ہے۔ اور جب چھوٹا بڑے کو سلام نہیں کہتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں غیر معمولی تکبر داخل ہوگیا ہے۔ مزید فرمایا کہ گزرنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے۔ تاکہ وہ فٹ پاتھوں پر بیٹھنے والوں کو حقیر نہ سمجھے۔ سواری پر سوار پیدل چلنے والے کو سلام کہے بشرطیکہ سواری ایسی ہو جس سے سلام کہا جاسکتا ہو۔ اس سے سوار اور سواری سے محروم لوگوں میں فرق ختم ہوجاتا ہے۔ تحقیر کے جذبات بھی مٹ جاتے ہیں اور حسد کو بھی اپنی جگہ بنانے کا موقع نہیں ملتا۔ اسی طرح چھوٹی جماعت بڑی جماعت والوں کو سلام کرے۔ کیونکہ تھوڑے لوگوں کو بڑے لوگوں کی نسبت سلام کرنے میں آسانی ہے۔ انہی آداب میں یہ بھی واضح فرمایا کہ سلام کہنا ایک بہت بڑی نیکی ہے لیکن بعض حالتیں ایسی ہوتی ہیں جس میں سلام کہنا مناسب نہیں ہوتا۔ تو ایسے وقت میں سلام کہنے کی اجازت نہیں۔ آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اگر پیشاب یا استنجاکر رہا ہو تو اسے سلام نہیں کہنا چاہیے۔ اور اگر کوئی یہ غلطی کر گزرے تو پیشاب کرنے والے کے لیے اجازت نہیں کہ وہ اس کا جواب دے۔ کیونکہ سلام اللہ کے ناموں میں سے ایک ہے ‘ اسے کسی ایسی جگہ استعمال کرنا جو احترام یا پاکیزگی کی جگہ نہیں وہ اس کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح سونے والے کو سلام نہیں کہنا چاہیے تاکہ اس کی نیند نہ کھلے۔ اور اگر وہاں کچھ بیدار لوگ بھی بیٹھے ہیں تو پھر آنحضرت ﷺ کی سنت یہ ہے کہ اس طرح ہلکی آواز میں سلام کہا جائے کہ جاگنے والے سن لیں اور سونے والے کی نیند خراب نہ ہو۔ کسی نماز پڑھتے ہوئے آدمی کو سلام نہ کہا جائے۔ اور اگر کوئی دوسرے لوگ پاس بیٹھے ہوں تو نہایت ہلکی آواز میں سلام کہا جائے۔ کسی اسلامی موضوع پر کوئی درس یا تقریر ہو رہی ہو تو سلام کہنا مناسب نہیں۔ کوئی قرآن کریم پڑھ رہا ہو تو سلام کہا جاسکتا ہے اور پڑھنے والا جواب بھی دے سکتا ہے لیکن اگر وہ قرآن پاک میں تدبر اور تفکر میں مستغرق ہو تو پھر اسے ہرگز سلام نہیں کہنا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص لائبریری میں جائے تو ہلکی آواز میں سلام کہے جس سے پڑھنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ مختصر یہ کہ عبادت یا تعلیم میں مصروف یا نیند اور آرام میں مستغرق یا کسی اور اچھی مصروفیت میں کھو جانے والوں کو سلام کے ذریعے سے پریشان کرنے سے روکا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ جب گھر میں داخل ہوتے اور اگر آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ سو رہی ہوتیں تو آپ ﷺ نہایت ہلکی آواز میں سلام کہتے تاکہ سلام سے گھر میں برکت تو پیدا ہو لیکن سونے والوں کی نیند نہ کھلے۔ حاصل کلام یہ کہ سلام مسلمانوں کی پہچان ‘ باہمی محبت اور موانست کا ذریعہ ‘ مسلمان بھائی کی دوسرے بھائی کے لیے دعا اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس نے مسلمانوں کی تہذیب اور ثقافت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی تکمیل اگرچہ مصافحہ سے ہوتی ہے اور اس میں مزید گہرائی بعض مواقع پر معانقہ اور تقبیل سے وجود میں آتی ہے۔ لیکن ہم اس کی تفصیلات عرض کرنے سے قاصر ہیں ورنہ یہ بحث بہت دور تک پھیل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Top