Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 31
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں نازل کیا گیا ھٰذَا الْقُرْاٰنُ : یہ قرآن عَلٰي رَجُلٍ : اوپر کسی شخص کے مِّنَ : سے الْقَرْيَتَيْنِ : دو بستیوں میں عَظِيْمٍ : عظمت والے ۔ بڑے
اور انھوں نے کہا کہ یہ قرآن دونوں شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا
وَقَالُوْا لَوْلاَ نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ۔ (الزخرف : 31) (اور انھوں نے کہا کہ یہ قرآن دونوں شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا۔ ) ایک اعتراض اور اس کا جواب یہ ایک اعتراض ہے جو اہل مکہ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی نبوت پر کیا جاتا تھا اور اسی کے ذریعے آپ کی نبوت سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ شروع شروع میں انھیں یہ اعتراض رہا کہ بشر رسول کیسے ہوسکتا ہے، رسالت بہت بڑا مقام ہے اور بشر ایک فروتر مقام کی حامل مخلوق ہے۔ اس لیے بشریت اور رسالت میں کوئی مناسبت نہیں۔ لیکن جب قرآن کریم نے مسلسل دلائل سے ان کی اس بات کو پوری طرح غلط ثابت کردیا تو تب اپنے دعوے سے پیچھے ہٹتے ہوئے انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ چلیے بشر رسول ہی سہی لیکن یہ تو کسی طرح مناسب نہیں کہ طبقہ ٔ امراء کے کسی ذمہ دار آدمی کو یہ منصب سونپنے کی بجائے ایک غریب آدمی کے سر پر یہ تاج سجا دیا جائے۔ ہمارے دو بڑے شہر ہیں مکہ معظمہ اور طائف۔ عرصہ ٔ دراز سے ہمارے اشراف و سادات کا یہی مسکن ہے۔ اگر کسی بشر کو نبوت ملنا ہی تھی ان دونوں شہروں کے کسی بڑے آدمی کو نبوت دے دی جاتی تاکہ نبوت اور رسالت کا اعزاز بھی باقی رہتا اور لوگ اس پیغام کو بھی عزت و احترام سے سنتے۔ اب ایک ایسے شخص کو بقول اس کے یہ منصب دیا گیا ہے جو یتیم پیدا ہوا اور جس کے باپ نے ایک لونڈی اور ایک اونٹنی کے سوا کوئی میراث نہیں چھوڑی۔ بچپن اور لڑکپن بکریاں چراتے گزرا، اب گزر اوقات کے لیے بیوی کے مال سے تجارت کررہا ہے۔ نہ کسی قبیلے کا شیخ ہے اور نہ کسی خانوادے کا سربراہ۔ تو ایسا شخص نبوت کا اہل کیسے ہوسکتا ہے۔
Top