Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 49
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ١ۚ اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا يٰٓاَيُّهَ السّٰحِرُ : اے جادوگر ادْعُ لَنَا : دعا کرو ہمارے لیے رَبَّكَ : اپنے رب سے بِمَا : بوجہ اس کے جو عَهِدَ عِنْدَكَ : اس نے عہد کیا تیرے پاس اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ : بیشک ہم البتہ ہدایت یافتہ ہیں
(ہر عذاب کے موقع پر) انھوں نے درخواست کی کہ اے ساحر اس عہد کی بنا پر جو اللہ نے تم سے کر رکھا ہے اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے
وَقَالُوْا یٰٓـاَیُّـہَ السّٰحِرُادْعُ لَنَا رَبَّـکَ بِمَا عَہِدَعِنْدَکَ ج اِنَّـنَا لَمُھْتَدُوْنَ ۔ (الزخرف : 49) (ہر عذاب کے موقع پر) انھوں نے درخواست کی کہ اے ساحر اس عہد کی بنا پر جو اللہ نے تم سے کر رکھا ہے اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے۔ ) اہلِ مصر کی پریشانی اور وعدہ جب یکے بعد دیگرے اہل مصر پر اس طرح کی آزمائشیں آئیں جنھوں نے انھیں بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تو انھیں یہ تو یقین ہوگیا جس کی طرف اشارہ سورة النمل میں کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، لیکن وہ جس اسلوبِ زندگی کے خوگر ہوچکے تھے انھیں اسے چھوڑنا کسی طور گوارہ نہ تھا۔ اس لیے وہ اپنے یقین کے مطابق فورًا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچتے اور بعض دفعہ ان میں خود فرعون بھی شریک ہوتا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بات مانتا ہے اور آپ کا اس کے یہاں ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔ اس لیے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ یہ آزمائشیں ہم سے دور کردے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور یا بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ لیکن جب وہ ان تکلیفوں کو دور کرنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کرتے تو آپ کو ساحر کہہ کر مخاطب ہوتے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ان کا ساحر کے لفظ سے مخاطب ہونا کسی تحقیر یا سوئِ ادب پر مبنی نہیں تھا بلکہ اس وقت مصر میں ساحروں کو سوسائٹی میں وہی مقام حاصل تھا جو کسی بھی سوسائٹی میں علماء کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کے ان مواقع کو دیکھنے سے جہاں فرعون نے آپ کو ساحری کا الزام دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس لفظ کو تحقیر کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ بات کسی طرح قرین قیاس نہیں کہ اس لفظ کو کسی زمانے میں احترام کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ قوم فرعون کے عام لوگ تو خوشامدانہ لہجے میں آپ سے ان تکلیفوں کو دور کرنے کی درخواست کرتے تھے۔ لیکن ان کے عمائدین اور ان کے مقتدر طبقے کی گردنوں میں اسی طرح اقتدار کا سریا پھنسا ہوا تھا جو ان کے سر کو خم نہیں ہونے دیتا تھا۔ وہ سب کچھ دیکھ کر بھی آپ کی عزت یا احترام بجا لانے کے لیے تیار نہ تھے۔
Top