Ruh-ul-Quran - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
اللہ راضی ہوگیا مومنوں سے جبکہ وہ آپ سے بیعت کررہے تھے ایک درخت کے نیچے، تو اللہ نے ان کے دلوں کا حال جان لیا، تو اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، اور ان کو ایک عنقریب ظاہر ہونے والی فتح سے نوازا
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْیُبَایِعُوْنَـکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا۔ وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَھَا ط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ (الفتح : 18، 19) (اللہ راضی ہوگیا مومنوں سے جبکہ وہ آپ سے بیعت کررہے تھے ایک درخت کے نیچے، تو اللہ نے ان کے دلوں کا حال جان لیا، تو اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، اور ان کو ایک عنقریب ظاہر ہونے والی فتح سے نوازا۔ اور بہت سی غنیمتوں سے بھی جن کو وہ حاصل کریں گے اور اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ ) صحابہ کرام کا اعزاز اور ان کی قربانیوں کا صلہ اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لانے کے بعد جن لوگوں نے نفاق کا راستہ اختیار کیا اور آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر جو عہد کیا تھا اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عمرہ کے خطرناک سفر میں آپ کا ساتھ دینے سے گریز کیا، ان کا ذکر کرنے کے بعد اب ان لوگوں کا ذکر کیا جارہا ہے جنھوں نے نہایت نازک حالات میں آپ کے ہاتھ پر حدیبیہ میں جہاد کی بیعت کی۔ حضرت عثمان غنی ( رض) جب آنحضرت ﷺ کے ایلچی کی حیثیت سے قریش کے پاس اس معاملے پر گفتگو کرنے کے لیے گئے جس کی وجہ سے قریش نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور معاملہ نہایت تلخ صورت اختیار کرگیا تھا۔ تو قریش نے آپ کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بجائے آپ کو تین دن تک واپسی سے روکے رکھا اور یہ بات مشہور کردی گئی کہ آپ کو شہید کردیا گیا۔ آنحضرت ﷺ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ کو اس سے شدید رنج ہوا۔ چناچہ آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے اور آپ نے مسلمانوں کو حضرت عثمان ( رض) کے خون کا انتقام لینے کے لیے موت پر بیعت کرنے کی دعوت دی۔ چناچہ تمام صحابہ نے بلاتأمل آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جبکہ حالات یہ تھے کہ آپ اپنے مرکز سے اڑھائی سو میل دور غیرمسلح حالت میں نہایت قلیل افرادی قوت کے ساتھ ایک ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جو دشمن کے مرکز سے صرف تیرہ میل کے فاصلے پر تھی۔ اور دشمن کو یہ سہولت تھی کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں بہت بڑی تعداد میں ایسے جنگجوئوں کو لاسکتا تھا جو پوری طرح اسلحہ ٔ جنگ سے مسلح ہوتے۔ اور ضرورت پڑنے پر وہ اپنے گردوپیش کے حلیفوں اور قبائل سے بھی مدد لے سکتا تھا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ مسلمان قریش سے لڑنے کا ارادہ کریں گے۔ لیکن ایسی خطرناک صورتحال میں صحابہ کرام نے انتہائی جا نثاری اور سرفروشی کا ثبوت دیتے ہوئے اس عزم کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم کٹ جائیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اور جب تک آخری آنکھ بھی حرکت کرتی ہے، آپ کے ساتھ وفاداری میں کمی نہیں آنے دیں گے۔ چناچہ اس مخلصانہ اور سرفروشانہ بیعت کے نتیجے میں مسلمان اللہ تعالیٰ سے رضا اور خوشنودی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے پیش نظر آیت کریمہ میں اعلان فرما دیا کہ اللہ جو سینوں کے رازوں کو جاننے والا ہے اس نے مسلمانوں کے اخلاص کو دیکھ کر ان سے اپنے خوش اور راضی ہونے کا اعلان کردیا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے اخلاص میں کچھ بھی کمی ہوتی اور وہ خطرات کو کسی حد تک بھی خاطر میں لانے والے ہوتے تو کبھی بھی اللہ تعالیٰ سے اتنا بڑا انعام حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوتے۔ لیکن بعض عاقبت نا اندیش لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام پر طعن توڑتے اور ان کے اخلاص اور ایمان پر رائے زنی کرتے ہیں۔ اور بعض ستم ظریف یہ کہنے سے نہیں چونکتے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو یہ خوشنودی کی سند عطا کی تھی اس وقت تو یہ لوگ مخلص تھے مگر بعد میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بےوفا ہوگئے۔ حیرانی کی بات ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو عالم الغیب مانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ یہ قرآن کریم قیامت تک باقی رہے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بدگمانی کیسے کرسکتا ہے کہ جو لوگ چند سالوں کے بعد اخلاص سے تہی دامن ہوجانے والے تھے انھیں خوشنودی کا سرٹیفکیٹ عطا کردیا جائے۔ اور پھر یہ بات قرآن کریم میں شامل کردی جائے اور لوگ ہمیشہ اس کو پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے کی داد دیتے رہیں۔ جس درخت کے نیچے یہ بیعت کی گئی تھی کہا جاتا ہے کہ وہ ببول کا درخت تھا۔ اس کے متعلق حضرت نافع ( رض) کی یہ روایت عام طور پر مشہور ہوگئی ہے کہ لوگ اس کے پاس جا جا کر نمازیں پڑھنے لگے تھے۔ حضرت عمر ( رض) کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درخت کو کٹوا دیا۔ مگر صحیحین میں ہے کہ حضرت طارق بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کے لیے گیا تو راستے میں میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو ایک مقام پر جمع تھے اور نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کون سی مسجد ہے ؟ انھوں نے کہا کہ یہ وہ درخت ہے جس کے نیچے رسول اللہ ﷺ نے بیعت رضوان لی تھی۔ میں اس کے بعد حضرت سعید بن مسیب کے پاس حاضر ہوا اور اس واقعہ کی خبر ان کو دی۔ انھوں نے فرمایا کہ میرے والد ان لوگوں میں سے تھے جو اس بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ ہم جب اگلے سال مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تو ہم نے وہ درخت تلاش کیا، ہمیں بھول ہوگئی اس کا پتہ نہیں لگا۔ پھر سعید بن مسیب نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ جو خود اس بیعت میں شریک تھے ان کو تو پتہ نہیں لگا، تمہیں وہ معلوم ہوگیا۔ عجیب بات ہے کیا تم ان سے زیادہ واقف ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں لوگوں نے اپنے تخمینہ اور اندازہ سے کسی درخت کو متعین کرلیا اور اس کے نیچے حاضر ہونا اور نمازیں پڑھنا شروع کردیا۔ حضرت فاروق اعظم ( رض) کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ وہ درخت نہیں۔ خطرہ ابتلائے شرک کا لاحق ہوگیا۔ اس لیے اس کو قطع کرا دیا ہو تو کیا بعید ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی حالت معلوم کرلی تو ان پر سکینت نازل فرمائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ قلیل تعداد اور اسلحہ ٔ جنگ کے فقدان کے باوجود قریش کی زبردست طاقت سے ٹکر لینے کے لیے وہ کمربستہ ہوگئے تو ان کی توجہ تمام تر اللہ تعالیٰ کی نصرت و اعانت پر رہی ہوگی اور وہ بار بار پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہوں گے کہ یا اللہ تو ہماری مدد فرما، حالات تو بظاہر مساعد نظر نہیں آتے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس توجہ اور انابت کو دیکھتے ہوئے ان پر سکینت نازل فرمائی۔ یعنی ان کے دلوں کو دشمن کے مقابلے میں اپنی تائید و نصرت کے ساتھ حوصلوں سے بھر دیا۔ اور یقین کی یہ کیفیت پیدا کردی کہ اللہ تعالیٰ ہرحال میں تمہارے ساتھ ہے۔ اور انھیں فتحِ قریب سے نوازا۔ مراد اس سے فتحِ خیبر ہے اور اس میں ملنے والی ان غنائم کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں کو بہت بڑی تعداد میں نصیب ہوئیں۔ نبی کریم ﷺ حدیبیہ سے واپس تشریف لائے تو تین ماہ کا عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ آپ نے خیبر پر حملہ کیا اور اسے فتح کرلیا اور اس میں مسلمانوں کو ڈھیروں مال غنیمت ہاتھ لگا۔ آخر میں اپنی دو صفتوں کا حوالہ دے کر مسلمانوں کے دلوں میں یہ اطمینان اور اعتماد راسخ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فتح و نصرت کے جو وعدے فرمائے ہیں وہ محض وعدے نہیں بلکہ بہت جلدی مسلمان اس کی عملی تعبیر بھی دیکھ لیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر مشکل پر غالب ہے، کوئی اس کے راستے میں حائل ہونے والا نہیں۔ البتہ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ اپنے وعدوں کا ایفا اس وقت کرتا ہے جب حکمت کا تقاضا ہوتا ہے۔
Top