Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 17
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ١ؕ قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّهْلِكَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ؕ وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١ؕ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
لَقَدْ كَفَرَ : تحقیق کافر ہوگئے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ هُوَ الْمَسِيْحُ : وہی مسیح ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم قُلْ : کہدیجئے فَمَنْ : تو کس يَّمْلِكُ : بس چلتا ہے مِنَ اللّٰهِ : اللہ کے آگے شَيْئًا : کچھ بھی اِنْ اَرَادَ : اگر وہ چاہے اَنْ يُّهْلِكَ : کہ ہلاک کردے الْمَسِيْحَ : مسیح ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم وَاُمَّهٗ : اور اس کی ماں وَمَنْ : اور جو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین جَمِيْعًا : سب وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان يَخْلُقُ : وہ پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
(بےشک کفر کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا کہ اللہ تو مسیح ابن مریم ہے۔ (اے نبی ا ! ان سے کہہ دیجئے کہ) کون اللہ سے کچھ بھی اختیار رکھتا ہے کہ اگر وہ ارادہ کرے کہ وہ ہلاک کر دے مسیح ابن مریم اور اس کی ماں کو اور جتنے زمین میں ہیں ‘ ان سب کو۔ اور اللہ کے لیے ہی ہے زمین و آسمان کی سلطنت اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے۔ وہ جس چیز کو چاہتا ہے ‘ پیدا کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے)
لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہ َ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ط قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ مِنَ اللہِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّھْلِکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّہٗ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ط وَ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا ط یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ ط وَ اللہ ُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُٗ ۔ (المائدہ : 17) (بےشک کفر کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا کہ اللہ تو مسیح ابن مریم ہے۔ (اے نبی ا ! ان سے کہہ دیجئے کہ) کون اللہ سے کچھ بھی اختیار رکھتا ہے کہ اگر وہ ارادہ کرے کہ وہ ہلاک کر دے مسیح ابن مریم اور اس کی ماں کو اور جتنے زمین میں ہیں ‘ ان سب کو۔ اور اللہ کے لیے ہی ہے زمین و آسمان کی سلطنت اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے۔ وہ جس چیز کو چاہتا ہے ‘ پیدا کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے) اس آیت کا ربط پچھلی آیتوں سے جاننے کے لیے ہمیں پچھلی آیات کو ذہن میں رکھنا پڑے گا جن میں ہم نے ایک آیت پڑھی تھی جس میں پروردگار عالم نے یہ فرمایا تھا کہ (مسلمانو ! جس طرح ہم نے تم سے عہد لیا ہے ‘ اسی طرح ہم نے یہود سے اور ان لوگوں سے بھی عہد لیا تھا جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں) (المائدۃ : 41) ـ نصاریٰ کا سب سے بڑا جرم توحید سے روگردانی وہ عہد کیا تھا ‘ اس کی تفصیل ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ جتنے بنیادی عقائد ہیں اور اللہ کی اطاعت و بندگی کے حوالے سے جتنی بنیادی باتیں ہیں ‘ ان تمام کا عہد لیا گیا تھا کہ اس کی پابندی کرنا۔ اس آیت میں اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح یہود نے عہدشکنی کا ارتکاب کیا ‘ اسی طرح عیسائیوں نے بھی اس میثاق کو بری طرح پامال کیا اور تمام زندگی اس میثاق کے بالکل برعکس گزاری۔ چناچہ اس عہدشکنی کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ انھوں نے دین کی بنیاد یعنی ” توحید “ کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا اور اس کو اس طرح اپنی زندگیوں سے خارج کیا کہ اس کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہا۔ اسی حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد ہے : ” لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ “ یعنی عیسائیوں نے یہ کفر اختیار کیا کہ جس کو ہم اللہ کہتے ہیں ‘ وہ کوئی اور نہیں ‘ وہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ یعنی مسیح ابن مریم انسان نہیں ‘ اللہ کے رسول نہیں ‘ بلکہ وہ خود پروردگار ہیں۔ اصلاً ان کا نام خدا ہی ہے یعنی جس (مسیح ابن مریم) کو ہم انسان کی شکل میں دیکھتے رہے ‘ وہ تو ان کی ظاہری شکل و صورت تھی ‘ حقیقت میں وہ اللہ ہیں۔ فرمایا کہ توحید کی یہ پامالی اس عہدشکنی کی سب سے بڑی بات تھی حالانکہ اللہ نے اپنے بارے میں ان سے یہ عہد لیا تھا کہ اللہ کی ذات میں کوئی شریک ہے اور نہ ہی اس کی صفات میں۔ اس کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی ‘ خواہ وہ اپنی ذات وصفات میں کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ‘ اگر الوہیت کے منصب پر فائز کردیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ توحید ختم۔ توحید تو اتنا نازک رشتہ ہے کہ وہ تو معمولی سی بات کو بھی برداشت نہیں کرتا ‘ چہ جائیکہ سرے سے یہ کہہ دیا جائے کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہیں۔ سینٹ پال کی سازش بنیادی بات وہی ہے جو میں نے پچھلی آیت کی تشریح میں بھی کہی تھی کہ جن لوگوں نے یہ کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں ‘ وہ اصل میں نصاریٰ نہیں تھے ‘ یہ صرف ان کا دعویٰ تھا۔ نصاریٰ تو اصل میں شمعون رضا کے ماننے والے تھے ‘ جس کی انھوں نے خود تکفیر کی اور انھیں عیسائیت سے نکال دیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے دنیا سے تشریف لے جانے کے کئی سالوں کے بعد عیسائیت کا جو ایک نیا ایڈیشن تیار ہوا ‘ اس کا بانی ’ سینٹ پال ‘ تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو دعوت پیش کی تھی ‘ اس دعوت کو ان کے حواریوں نے آگے بڑھایا اور جس طرح انھوں نے اللہ کی کتاب کو پیش کیا ‘ سینٹ پال نے اس کی بالکل تحریف کردی اور عقیدے تک بدل ڈالے۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خرق عادت کے طور پر دنیا میں تشریف لائے ہیں (ان کا کوئی باپ نہیں ہے) اور یہ کہ خود انجیل نے انھیں روح اللہ قرار دیا ہے ‘ ان تمام چیزوں کو یکجا کر کے اس نے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ مسیح ابن مریم جس کو تم ایک انسان اور پیغمبر سمجھتے ہو ‘ وہ کوئی انسان یا پیغمبر نہیں بلکہ خود اللہ کی ذات ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ انسان ہوتے تو ان کا کوئی باپ ہوتا ‘ وہ اپنے اندر دوسرے انسانوں کی سی صفات رکھتے۔ یہ جو ہم ان میں غیرمعمولی باتیں دیکھتے ہیں ‘ خاص طور پر یہ جو ان کی پیدائش کا معاملہ ہے ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان نہیں ہیں۔ لہٰذا سینٹ پال نے ان کو اللہ قرار دے دیا یعنی یوں کہہ لیجئے کہ بنیادی طور پر اس کا تصور حلول اور اتحاد پر مبنی ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ کی ذات خود مسیح ابن مریم میں حلول کرگئی اور اس نے مسیح اور ذات پروردگار کو یکجا کر کے یہ ایک شکل اختیار کی ہے۔ وہ آسمانوں پہ اپنے رب کے ساتھ بیٹھتا ہے۔ اصل میں وہ اللہ ہی ہے ‘ جس نے دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے انسانی شکل میں خود آنا پسند کیا۔ اصلاً وہ انسان نہیں ہے۔ لیکن انھوں نے جب یہ دیکھا کہ خود انجیل میں ان کے اور بھی رشتے اور علامات ہیں مثلاً ان کی والدہ ہیں اور روح القدس جو ان پر اترتا ہے ‘ تو انھوں نے سوچا کہ اب اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات صرف مسیح ہے تو پھر ان کی والدہ اور روح القدس کو ہم کیا کریں گے ؟ پھر لوگ ہم سے پوچھیں گے کہ یہ کیا ہے ؟ اگر مسیح واقعی خدا ہے تو خدا کی تو ماں نہیں ہوتی۔ یہ ماں کہاں سے آگئی ؟ لہٰذا انھوں نے ان تینوں کو الوہیت کے رشتے میں شریک کرنے کے لیے تثلیث کا عقیدہ تیار کیا۔ گویا یوں کہہ لیجئے کہ ان کے عقیدے کی ایک روح ہے اور ایک اس کی تعبیر ہے۔ عقیدے کی روح تو یہ ہے کہ خود پروردگار مسیح ابن مریم ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ مسیح ابن مریم ہی اصل میں پروردگار ہے ‘ جس کا ذاتی نام اللہ ہے ‘ جبکہ صفاتی نام بہت سے ہیں اور ان کی تعبیر انھوں نے یہ اختیار کی کہ روح القدس عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی والدہ ‘ یہ تینوں مل کر الوہیت کو مکمل کرتے ہیں۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس کو وہ تین میں ایک اور ایک میں تین کہتے ہیں ‘ جو ظاہر ہے کہ کسی کے پلے پڑنے والی بات نہیں۔ درحقیقت اس سارے کھیل کا مقصد یہی ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا مانتے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جب اللہ کے پیغمبر کو ہی اللہ بنا ڈالا تو میثاق توحید کا تو نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے استدلال کا طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ غضب اور عتاب کا رنگ اختیار کیا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ کیا کہہ رہے ہو ‘ اس لیے کہ یہ رشتہ اتنا پاکیزہ ہے اگر اس پر ضرب پڑتی ہے تو پروردگار غضبناک ہوجاتا ہے کیونکہ یہ تو سیدھا ذات خداوندی پر حملہ ہے اور اگر اس پہ اللہ کا غضب بھڑک اٹھے تو کیا دنیا میں کوئی چیز ہے جو تمہیں اللہ کے غضب سے بچا سکے ؟ بلکہ کہا کہ جس مسیح ابن مریم کو تم نے خدا بنادیا اور اس کی ماں کو خدائی میں شریک ٹھہرا یا ‘ اگر اللہ کا غضب بھڑکے اور وہ یہ چاہے کہ میں مسیح یا اس کی ماں کو ہلاک کر دوں بلکہ دنیا کی ہر مخلوق کو ہلاک کر دوں تو کیا دنیا کی کسی مخلوق میں اس بات کی طاقت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ روک لے ؟ پروردگار تو وہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں سب کی زندگی ہے اور جس کے ایک ادنیٰ اشارے سے انبیاء کو بھی موت آسکتی ہے۔ مسیح ابن مریم ‘ اگرچہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ‘ مگر پیدا کرنے والے نے ہی انھیں پیدا کیا۔ بغیر باپ کے پیدا ہونا ان کی خوبی نہیں ‘ بلکہ خوبی تو اس پروردگار کی ہے جو بغیر باپ کے پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے بڑا معجزہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش ہے اس سے آگے فرمایا : ” یَخْلُقُ مَا یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُٗ “ کسی کے غیر معمولی طریقے سے پیدا ہوجانے پر اس کی اصل حیثیت تبدیل نہیں ہوجاتی کیونکہ صفت خلق کا مالک تو اللہ ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے ‘ جیسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ قرآن کریم نے ایک اور جگہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ” اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَط “ (اٰل عمران : 59) تمہیں اس بات سے شبہ پیدا ہو رہا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اگر انسان ہوتے تو ان کی ماں کی طرح ان کا باپ بھی ہوتا۔ فرمایا کہ اگر بغیر باپ کے پیدا ہونے سے کوئی انسان ‘ انسان نہیں رہتا بلکہ خدا بن جاتا ہے تو پھر تم بتائو کہ تم آدم (علیہ السلام) کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) کی تو ماں ہے ‘ آدم (علیہ السلام) کی تو ماں بھی نہیں تھی۔ اگر یہ خدا ہیں تو آدم (علیہ السلام) کیا ہیں ؟ اللہ کے یہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال ایسے ہے جیسے آدم (علیہ السلام) کی کہ اس نے چاہا تو آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے پیدا کردیا اور چاہا تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کردیا۔ یہ تو اس کی شان قدرت ہے جس کا اظہار کہیں کسی صورت میں ہوتا ہے اور کہیں کسی صورت میں۔ بجائے اس کے کہ اس بات سے اللہ کی کبریائی اور الوہیت پر زیادہ یقین کرتے ‘ تم تو اور الجھ کر رہ گئے۔ کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ خداوند ذوالجلال کتنا عظیم ہے اور کیسا قادر مطلق ہے کہ کسی چیز کا محتاج نہیں۔ وہ جس طرح چاہے کسی کو پیدا کرسکتا ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا ہیں تو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کیوں نہیں ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خالہ زاد بھائی حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جو ان سے چند سال پہلے دنیا میں تشریف لائے ‘ وہ پیدا ہوتے ہی اللہ کے نبی تھے ‘ جس کی گواہی قرآن نے دی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اس طرح پیدا ہوئے کہ ان کے والد گرامی حضرت زکریا (علیہ السلام) جن کی عمر نوے سال تھی اور اب وہ اس قابل نہ رہے تھے کہ ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا۔ـ ان کی بیوی بھی قریب قریب ان کی عمر کی تھیں اور بانجھ ہوچکی تھیں۔ ان کے ہاں کسی بچے کے پیدا ہونے کا کوئی امکان ہی نہ تھا۔ لیکن نجانے انھیں کیا خیال آیا کہ جب حضرت مریم (علیہا السلام) کو دیکھا کہ گرمیوں کے موسم میں سردیوں کے اور سردیوں کے موسم میں گرمیوں کے پھل ان کے سامنے رکھے ہوتے ہیں تو انھوں نے مریم (علیہا السلام) سے پوچھا کہ ” یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آئے ہیں ؟ “ وہ کہنے لگیں کہ ” یہ پھل وہ ذات بھیجتی ہے جو موسموں کی محتاج نہیں۔ وہ جب چاہے ‘ جو پھل چاہے پیدا کرسکتی ہے۔ “ بس ان کے دل پر ایک چوٹ سی لگی اور خیال آیا کہ یا اللہ ! جب تو پھل دینے میں کسی موسم کا محتاج نہیں ہے تو اولاد دینے میں عمروں کا محتاج کیونکر ہوسکتا ہے۔ میری عمر اگرچہ اس قابل نہیں کہ میرے یہاں بچہ پیدا ہو ‘ مگر تیری قدرت تو بانجھ نہیں۔ اس پر انھوں نے دعا کی : ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃًج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ ۔ فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِلا اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰ (آل عمران : 39۔ 38) (وہیں کھڑے کھڑے زکریا نے اپنے رب سے دعا کی ‘ اس نے کہا : اے میرے رب ! مجھے اپنے پاس سے پاک اولاد عطا کر ‘ تو بیشک دعا سننے والا ہے۔ تو انھیں آواز دی فرشتوں نے جب وہ حجرہ میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ‘ کہ اللہ تمہیں یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے) اب دیکھئے کہ اتنی بڑی بشارت پر حضرت زکریا خوش تو ہوئے ‘ لیکن ساتھ ہی طبیعت میں ایک ہیجان سا پیدا ہوا اور کہنے لگے کہ میرے یہاں بیٹا پیدا ہوگا ‘ وہ کیسے ؟ میرا حال تو یہ ہے کہ میری ہڈیوں میں گودا تک نہیں رہا ‘ سر میرا ہلنے لگا ہے اور میری بیوی بانجھ ہوچکی ہے ؟ جواب ملا ہم جب دینے پہ آتے ہیں تو اسی طرح دیا کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ مجھے کوئی علامت بتا دیجئے۔ فرمایا کہ علامت یہ ہے کہ تین دن تک آپ کسی سے کوئی بات نہیں کرسکیں گے ‘ اگر کوئی آپ سے بات پوچھے تو اشارے سے اس کو جواب دیں۔ اور شب و روز اللہ کی تسبیح میں لگے رہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد اللہ نے انھیں بیٹا عطا فرما دیا۔ اب غور کیجئے کہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ان کا نہ کوئی باپ ہے نہ ماں کیونکہ ماں اگر بانجھ ہے تو ماں کیسے ہوگئی ؟ باپ کا سر ہلتا ہے ‘ ہڈیوں میں گودا تک نہیں رہا ‘ قوت بالکل جواب دے گئی ہے تو ظاہر ہے وہ باپ کیسے بنے گا ؟ اللہ نے ان کو واسطہ بنا کر انھیں بیٹا دیا ہے ‘ لیکن حقیقتاً وہ ماں باپ نہیں ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا ہیں تو پھر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) خدا کیوں نہیں ؟ پھر ان کو موت بھی کس طرح آئی ؟ زندگی میں بھی اتنے فقیر اور قلندر تھے کہ کبھی لباس ہی پہننے کو نہ ملا۔ ایک کمبل تھا جس کو ادھرادھر سے کانٹوں سے اٹکا کر ‘ درمیان میں سوراخ کر کے اوڑھ لیتے۔ کبھی انھوں نے کوئی خوراک نہیں کھائی ‘ بس جنگل میں چلے جاتے اور وہاں سے شہد مل جاتا تو پی لیتے یا پتے توڑ کر کھالیتے۔ دنیا نے ایسا درویش صفت انسان پھر نہیں دیکھا۔ لیکن جاہ و جلال کا عالم یہ تھا کہ وقت کی حکومتیں ان کے سامنے کانپتی تھیں۔ بادشاہوں کو ان کی بداعمالیوں پر اعلانیہ ٹوکتے تھے بالآخر حاکم وقت نے اپنی محبوبہ کے کہنے پر ان کا سر قلم کر کے طشتری میں رکھ کر اس کے سامنے پیش کردیا۔ اس محبوبہ نے یہ شرط رکھی تھی کہ میں اپنے آپ کو تب تیرے سپرد کروں گی جب تو اس خدا رسیدہ آدمی (جو اپنے وقت کا سب سے سچا اور پاکیزہ انسان تھا) کا سر میرے سامنے لا کر پیش کرے گا۔ اب دیکھئے کہ پیدائش سراسر اللہ کی قدرت کا ظہور ہے اور موت بھی کیسی آئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ تو میری قدرت ہے کہ جس کو جیسے چاہوں ‘ پیدا کر دوں۔ اس میں پیدا ہونے والے کا کیا کمال ہے ؟ تم بجائے اس کے کہ پیدا ہونے والے کے پیچھے لگو ‘ پیدا کرنے والے کو تلاش کرو۔ آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا : وَ اللہ ُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ( اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے) اللہ کی صفت ِقدرت پر مکمل یقین رکھنا توحید کی روح ہے مخلوقات کے بارے میں جہاں کہیں بھی شرک کی آمیزش دکھائی دیتی ہے اگر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو قادر مطلق ماننے کا تصور اور عقیدہ دھندلا گیا ہے جس کے نتیجے میں مخلوقات کو اللہ کی قدرت کا مظہر جان کر اس کے بارے میں ایسے ایسے تصورات قائم کرلیے گئے ہیں جس سے توحید کی عمارت تباہ ہو کر رہ گئی ہے اور ایسا بالعموم اس وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسی کو کوئی عظمت ‘ کوئی رفعت ‘ کوئی کمال ‘ کوئی معجزہ اور کرامت عطا کرتا ہے اور یہ صفات عام طور پر چونکہ اللہ کے بندوں اور بالخصوص اللہ اپنے نبیوں کو عطا کرتا ہے اس لیے دنیا نے ہمیشہ اللہ کے ولیوں اور اس کے پیغمبروں کو اس کی صفات میں شریک کر کے شرک کا ارتکاب کیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی غیر معمولی ولادت اور پھر آپ سے غیر معمولی معجزات کے ظہور کے باعث عیسائیوں نے انھیں خدائی منصب پر فائز کردیا اور ان کے بارے میں ایسے عقیدے اختیار کرلیے جو صرف اللہ کی ذات کے لیے زیبا ہیں اگر عیسائیوں کی نظر اس بات پر ہوتی کہ اللہ جسے چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جو وہ چاہتا ہے وہ کمالات عطا فرما دیتا ہے لیکن یہ کمالات کسی کا ذاتی وصف نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا اظہار ہے اس لیے حقیقی قدرت اور طاقت صرف اللہ کو میسر ہے باقی جہاں کہیں اس کا پرتو دکھائی دیتا ہے وہ صرف اللہ کی دین ہے لیکن اہل کتاب نے اس بات کو نہ سمجھ کر بار بار شرک کا ارتکاب کیا۔ ہم چونکہ آخری امت ہیں اور ہمیں بطور خاص توحید کا امین اور علمبردار بنایا گیا ہے اس لیے آنحضرت ﷺ اس بات پر بہت پریشان رہتے تھے کہ کہیں یہ امت بھی اہل کتاب کی طرح شرک کی دلدل میں نہ اتر جائے کیونکہ امتیں ایک ہی طرح سے سفر کرتی ہیں ان میں حوادث کا وقوع پذیر ہونا اور خرابیوں کا درآنا یہ بالعموم ایک ہی طرح سے ہوتا ہے اس لیے آخری دنوں میں جبکہ حضور دنیا سے سفر فرمانے والے تھے سننے والوں نے یہ بات حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ایک سے زیادہ مرتبہ سنی کہ اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ مقصود یہ تھا کہ میری امت اس طرف سے ہوشیار رہے اور اس کے کسی طبقے میں ایسی کوئی بات پیدا نہ ہونے پائے۔ بعض مواقع پر تو آپ نے اہل کتاب کا نام لیتے ہوئے نصیحت فرمائی جس کا ترجمہ حالی مرحوم نے کیا ہے تم اوروں کی مانند دھوکہ نہ کھانا میری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا سب انساں ہیں واں جس طرح سرفگندہ مجھے حق نے دی ہے بس اتنی بزرگی کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا اسی طرح میں بھی ہوں اک اس کا بندہ کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی لیکن افسوس یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اس قدر تاکیدی نصیحتوں کے باوجود اس امت نے آنحضرت ﷺ تو کیا اپنے بزرگوں کے بارے میں بھی شرکیہ کلمات کہنے اور شرک آمیز حرکتیں کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ہمارے بڑے بڑے وہ بزرگ جنھوں نے ہمیں واقعی دین سکھایا اور جن کی محنتوں اور مہربانیوں سے آج ہم مسلمان ہیں ان کے مزارات پر جا کر دیکھ لیجئے، شیطان نے ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد کس طرح ان سے انتقام لینے کی کوشش کی۔ وہاں ایسے ایسے افعال کا ارتکاب ہوتا ہے اور ایسی ایسی باتیں کہی جاتی ہیں کہ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ یا اللہ یہ وہ امت ہے جسے قیامت تک کے لیے توحید کا علمبردار بنایا گیا ہے۔ پنجاب کے مشہور بزرگوں میں ایک حضرت پیر فرید بھی گزرے ہیں جن کا مزار کوٹ مٹھن میں ہے۔ ایک پنجابی شاعر ان کی تعریف میں جو کچھ کہتا ہے اسے پڑھ کر اندازہ فرمایئے اس سے بڑھ کر شرک اور کیا ہوسکتا ہے۔ شاعر صاحب فرماتے ہیں۔ چاچڑ شہر مدینہ ڈسدا ‘ کوٹ مٹھن بیت اللہ ظاہر دے وچ پیر فریدن ‘ باطن دے وچ اللہ اور ایک اردو کے شاعر فرماتے ہیں اور انھوں نے یہ ارشاد آنحضرت ﷺ کے بارے میں فرمایا۔ جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا مدینہ میں مصطفیٰ ہو کر یہ محض نمونے کے طور پر میں نے دو شعر نقل کیے ہیں واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کا مشرکانہ لٹریچر نثر اور نظم دونوں میں بڑی بہتات سے ہمارے ملک میں پھیلا ہوا ہے اگر ایسی باتیں عیسائیوں میں پھیلائی جاتیں تو سمجھ میں آنے والی بات تھی لیکن یہ اس امت میں پھیلائی جا رہی ہیں جسے قیامت تک توحید کی امانت کی پاسداری کرنی ہے اور اسے ہر طرح کے نقصان سے محفوظ رکھنا ہے۔ بالخصوص پاکستان جس کے قومی شاعر نے اپنی ذمہ داری کے حوالے سے فخر کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔ توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا اللہ ہی بہتر جانتا ہے وہ توحید کی امانت کہاں ہے ‘ وہ سینے کہاں ہیں جو اس امانت کے امین تھے اور وہ قوم کہاں ہے جو اس توحید کی وجہ سے اپنے آپ کے بارے میں یہ تصور رکھتی ہے کہ توحید کے اس تعلق کے باعث اسے مٹانا آسان نہیں ہے۔ موحد کون ؟ موحد تو وہ ہوتا ہے جو اللہ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتا ‘ جس کا ہاتھ اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں پھیلتا اور جس کے دل کی دنیا اللہ کے سوا اور کسی سے آباد نہیں ہوتی۔ موحد وہ ہوتا ہے جو اللہ کے رسولوں کے سوا کسی کو اپنا آئیڈیل نہیں مانتا۔ موحد وہ ہے کہ جس کے سامنے اشرفیوں کے توڑے رکھ دئیے جائیں ‘ تو وہ اس کے ایمان کی شمع کو خرید نہ سکیں اور اگر اس کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جائیں تو یہ اذیت بھی اس سے توحید کے سرمائے کو چھین نہ سکے۔ اگر موحد اس کو کہتے ہیں تو آپ اندازہ فرمائیے کہ ہم میں توحید کہاں ہے ؟ جس طرح پہلی آسمانی کتابوں کو ماننے والی امتوں سے عہد و پیمان لیا گیا اور انھوں نے جس طرح اس کو توڑا تو میں بڑی دردمندی سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے عقائد پر غور کر کے دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں ہم بھی انہی کمزوریوں کا شکار تو نہیں ہوگئے۔
Top