Asrar-ut-Tanzil - Al-Hijr : 47
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا : یہی جَزٰٓؤُا : سزا الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحَارِبُوْنَ : جنگ کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور يَسْعَوْنَ : سعی کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرنے اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : کہ وہ قتل کیے جائیں اَوْ : یا يُصَلَّبُوْٓا : وہ سولی دئیے جائیں اَوْ : یا تُقَطَّعَ : کاٹے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَاَرْجُلُهُمْ : اور ان کے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے مخالف سے اَوْ يُنْفَوْا : یا، ملک بدر کردئیے جائیں مِنَ الْاَرْضِ : ملک سے ذٰلِكَ : یہ لَهُمْ : ان کے لیے خِزْيٌ : رسوائی فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت کرتے ہیں اور ملک میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں ‘ بس یہ ہے کہ عبرت ناک طور پر قتل کیے جائیں یا سولی پر لٹکائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پائوں بےترتیب کاٹ ڈالے جائیں یا ملک سے باہر نکال دیئے جائیں۔ یہ ان کے لیے اس دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے ایک عذاب عظیم ہے
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللہ َ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (المائدہ : 33) ” ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت کرتے ہیں اور ملک میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں ‘ بس یہ ہے کہ عبرت ناک طور پر قتل کیے جائیں یا سولی پر لٹکائیں جائیں یا ان کے ہاتھ اور پائوں بےترتیب کاٹ ڈالے جائیں یا ملک سے باہر نکال دیئے جائیں۔ یہ ان کے لیے اس دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے ایک عذاب عظیم ہے “۔ حدود کسے کہتے ہیں ؟ انسانی جرائم کی مختلف شکلیں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ کوئی آدمی اللہ کے قانون کو توڑتا ہوا کسی دوسرے انسان کے ساتھ زیادتی کرتا ہے ‘ چاہے وہ زیادتی اتلاف جان کی شکل میں ہو ‘ اتلاف مال کی شکل میں ہو یا عزت و آبرو کے نقصان پہنچانے کی شکل میں۔ ان تمام جرائم میں اسلام کے عام قانون کے مطابق مجرموں کو سزا دی جاتی ہے۔ جس کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان پر حد نافذ کی جائے اور دوسرا یہ ہے کہ ان پر تعزیرجاری کی جائے۔ لیکن ہمارے یہاں قانون کی مروجہ زبان میں چونکہ تمام ایسے قوانین کو تعزیرات ہی کہا جاتا ہے ‘ جیسے تعزیرات برطانیہ یا تعزیرات پاکستان۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کی وضاحت کردی جائے۔ بات یہ ہے کہ آدمی جب کوئی جرم کرتا ہے تو اس میں وہ اللہ کی نافرمانی بھی کرتا ہے اور کسی دوسرے انسان کا نقصان بھی کرتا ہے۔ اب اگر اس جرم میں اللہ کی معصیت اور اس کی نافرمانی کا حصہ زیادہ ہے تو اس پر جو سزا دی جاتی ہے اس کو حد کہتے ہیں ‘ جس کی جمع حدود ہے۔ یہ حدود چار ہیں۔ حد زنا ‘ حد سرقہ ‘ حد قذف اور حد خمر۔ قصاص کیا ہے ؟ جس جرم میں انسانی نقصان غالب ہوتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کسی حد تک کم نمایاں ہوتی ہے ‘ اس میں جو سزا دی جاتی ہے ‘ اسے قصاص کہتے ہیں۔ جیسے کسی کے قتل یا کسی کو زخمی کرنے پر دی جانے والی سزا۔ مزید برآں اس میں ایک اور فرق بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ قصاص میں مقتول کے وارث اور کسی زخم کی صورت میں خود زخمی ‘ اپنے مجرم کو معاف کرسکتا ہے لیکن حدود میں جب وہ معاملہ عدالت تک پہنچ جائے تو پھر کسی کو معاف کرنے کا اختیار نہیں رہتا کیونکہ اس میں اللہ کی نافرمانی غالب ہے۔ اس لیے اس کے سوا کوئی اور معاف نہیں کرسکتا۔ تعزیرات کیا ہیں ؟ وہ جرائم یا گناہ کی باتیں جنھیں اسلام نے قابل مذمت قرار دیا یا ان پر لعنت فرمائی یا ان پر جہنم کی وعید سنائی ‘ لیکن ان پر کوئی سزا مقرر نہیں فرمائی ‘ اس میں حکومت کو پارلیمنٹ کی معرفت یا عدالت کی معرفت خود سے سزا دینے کا اختیار حاصل ہے بشرطیکہ ان تمام رعایتوں کو پیش نظر رکھا جائے جس کی فقہا نے تصریح کردی ہے۔ ایسی سزا کو تعزیر کہتے ہیں۔ عام جرائم میں جیسے پہلے ذکر کیا گیا حدود ‘ قصاص یا تعزیرات کے تحت سزا دی جاتی ہے لیکن جب جرم کی نوعیت یہ ہو کہ کوئی شخص یا گروہ یا جتھہ جرأت و جسارت ‘ ڈھٹائی اور بےباکی کے ساتھ اس نظام حق و باطل کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے جو اللہ اور رسول نے قائم فرمایا ہے یا کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے شر و فساد سے علاقہ کے امن اور نظام کو درہم برہم کر دے ‘ لوگ اس کے ہاتھوں اپنی جان ‘ مال ‘ عزت اور آبرو کی طرف سے ہر وقت خطرے میں مبتلا رہیں۔ قتل ‘ ڈکیتی ‘ راہزنی ‘ آتش زنی ‘ اغوا ‘ زنا ‘ تخریب ‘ ترہیب اور اس نوع کے سنگین جرائم جو حکومت کے لیے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کردیں ‘ ان کو قرآن کی زبان میں محاربہ کہتے ہیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں عام جرائم کے حوالے سے نہیں بلکہ اس محاربہ کے حوالے سے سزائوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں مختلف سزائوں کا ذکر ہے اور اسلام نے عدالت کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ حالات کی نوعیت اور بدامنی اور قانون شکنی کے موجود اور متوقع اثرات کے لحاظ سے ‘ ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے نافذ کرے۔ ان میں سے پہلی سزا یہ ہے۔ قتل نفس اور معاشرے میں فساد پھیلانے والوں کی سزائیں 1 اَنْ یُّقَتَّلُوْآ ” یہ لوگ بدترین طریقے سے قتل کیے جائیں “ کیونکہ یہ لفظ تقتیل سے ہے۔ قتل تو عام قتل کو کہتے ہیں اور تقتیل شر تقتیل کے معنی میں ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے مجرم کو عبرت آمیز اور سبق آموز طریقے پر قتل کیا جائے ‘ جس سے دوسروں کو سبق ملے۔ اس سے صرف وہ طریقہ قتل مستثنیٰ ہے ‘ جس سے آنحضرت ﷺ نے روکا ہے۔ وہ ہے آگ میں جلانا۔ اس کے علاوہ دوسرے سب طریقے جو بدمعاشوں کو عبرت دلانے اور دہشت زدہ کرنے کے لیے آج کی دنیا میں مروج ہیں ‘ وہ سب استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ 2 اَوْ یُصَلَّبُوْٓا یہاں بھی یہ لفظ صلب سے نہیں بلکہ تصلیب سے بنا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسے مجرموں کو سزا دیتے ہوئے نہایت اذیت ناک طریقے سے سولی دی جائے۔ جس سے مجرم دہشت زدہ ہو اور دوسرے لوگ عبرت پکڑیں۔ 3 اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلاَفٍ ” ان کے ہاتھ اور پائوں بےترتیب کاٹ دیئے جائیں “۔ 4 اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الاَْرْضِ یعنی اگر حکومت مناسب سمجھے تو ان کو سزا دینے کی بجائے ‘ جلا وطن کردیا جائے۔ لیکن حضرت عمر فاروق ( رض) کی دینی بصیرت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بعض دفعہ ایسے لوگوں کو جلا وطن کرنا دینی اور سیاسی نقطہ نگاہ سے خلاف مصلحت ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو قید میں ڈال دیا جائے اور اس وقت تک قید میں رکھا جائے ‘ جب تک ان کے اصلاح یافتہ ہونے کی امید نہ ہوجائے اور پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس طرح کے حالات میں سزا بھی انفرادی حیثیت سے نہیں ‘ بلکہ گروہی حیثیت سے دی جائے۔ اگر قتل ‘ اغوا ‘ زنا ‘ آتش زنی ‘ تخریب کے واقعات پیش آئے ہوں تو یہ جستجو نہیں کی جائے گی کہ متعین طور پر ان جرائم کا ارتکاب کن ہاتھوں سے ہوا ‘ بلکہ ان کی ذمہ داری میں باغی گروہ کا ہر فرد شریک سمجھا جائے گا اور اسی حیثیت سے ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔ مزید یہ ارشاد فرمایا کہ یہ سزائیں ان کے لیے دنیا میں رسوائی کا باعث ہوں گی۔ اہل دنیا کی نگاہ میں یہ لوگ پہلے کیسے بھی معتبر ہوں ‘ اب قانون کی گرفت میں آنے کے بعد ان کا ظاہری اعتبار ختم ہوجائے گا۔ جب تک یہ اپنی اصلاح نہیں کرلیتے ‘ انھیں کسی بھی عزت کے مقام پر فائز ہونے کا موقع نہیں ملے گا اور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔
Top