Tafseer-e-Jalalain - Ar-Rahmaan : 8
اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ
اَلَّا تَطْغَوْا : کہ نہ تم خلل ڈالو۔ زیادتی کرو فِي الْمِيْزَانِ : میزان میں
تاکہ تم تولنے میں بےاعتدالی نہ کرو
تاکہ تولنے میں بےاعتدالی نہ کرو 8۔ یہ آسمان کی میزان تم انسانوں کو کیا درس دے رہی ہے اور کس انداز میں درس دے رہی ہے کہ اگر اس میزان کو قائم کردیا جائے تو اتنا بڑا نظام درست رہ سکتا ہے۔ تو تم بھی میزان کو سیدھا رکھو اور پھر دیکھو کہ تمہاری دنیوی زندگی اور اخروی زندگی دونوں میں کسی طرح توازن پیدا ہوتا ہے اور تم کیسے مطمئن ہوتے اور تمہاری زندگی کی ساری پریشانیاں کیونکر ختم ہوجاتی ہیں لیکن تم اپنی زندگی پر غور کرو کہ کبھی تم نے اس زندگی میں اس میزان پر غوروفکر بھی کی ہے تاکہ تمہاری زندگی میں سکون اور ٹھہرائو آسکے ؟ تم بڑے بڑے انسانوں کو دیکھتے ہو جن کے پاس دولت کے انبار ہیں اور وہ ملکوں پر حکومتیں کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود زندگی میں آرام و سکون نام کی کوئی چیز نہیں ، کیوں ؟ اس لیے کہ انہوں نے توازن کو برقرار رکھنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کبھی غور کیا ہے کہ یہ سارا معاملہ توازن قائم نہ رکھنے کے باعث ہے۔ اگر انسان کچھ بھی غوروفکر کرے تو اس کو یہ بات اچھی معلوم ہوسکتی ہے کہ ساری گڑ بڑ توازن قائم نہ رکھنے کے باعث ہوتی ہے۔ فرد واحد ہو یا خاندان برداری اور عام معاشرہ زندگی ہو یا اجتماعی ماحول میں خرابی بہرحال میزان کے درست نہ رہنے سے ہوتی ہے اگر میزان درست ہو تو کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔ صحت کا سارا انحصار اسی میزان پر قائم ہے اس میں خرابی واقع ہونے سے جسم خراب ہوتا ہے اور جوں میزان میں کمی آتی جاتی ہے صحت خراب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔ اس سے بات کو سمجھ لو کہ ہر ایک چیز کے لیے ایک میزان عدل ہے اگر وہ قائم ہے تو معاملہ صحیح ہے ورنہ خرابی ہے۔ زیر نظر آیت کے الفاظ پر ذرا غور کرو۔ فرمایا جارہا ہے کہ ” تولنے میں بےاعتدالی نہ کرو “ اگر معاملہ انفرادی ہے تو انفرادی تول کو قائم رکھنا ہے اگر معاملہ اجتماعی عدل کو برابر رکھنا ہے۔ قول میں کمی بیشی سے معاملہ بہرحال خراب رہے گا اس لیے سمجھ لینا چاہئے کہ ترازو میں کہاں کہاں کمی بیشی کی جارہی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے عدل کا قانون بنایا ہے اور اسی پر نظام کائنات قائم ہے اور پھر کس خوبی اور حسن سے قائم ہے ، کیوں قائم ہے ؟ محض اس لیے کہ اس کو چلانے والا اپنے ارادہ اور اختیار سے چلا رہا ہے۔ اگر وہ صاحب ارادہ اور صاحب اختیار نہ ہوتا تو کبھی اس نظام کو قائم نہ رکھ سکتا وہ خود تو لاریب نظروں سے اوجھل ہے لیکن اس کا چلایا ہوا نظام اس بات کی گواہی اور شہادت دے رہا ہے کہ وہ ہے اور لاریب ہے اور یہ بھی کہ وہ وحدہ لاشریک لہ ہے۔ ہمارے رسول محمد ﷺ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : (بالعدل قامت السموت والارض) کہ آسمانوں اور زمین کا نظام عدل ہی پر قائم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تم بھی عدل و انصاف کو قائم رکھو ، ترازو میں سرکشی اور زیادتی سے کام نہ لو۔ اگر تم نے طغیان سے کام لیتے ہوئے میزان درہم برہم کردی تو اس کی سزا اس دنیا میں بھی بھگتو گے اور آخرت میں بھی اس کا وبال تم پر آئے گا۔ اس کی شہادت یہ آسمان و زمین تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم صرف میزان اور ترازو کی تصویریں بنا بنا کر لوگوں کو دکھاتے ہیں اور پھر کبھی دایاں بازو اوپر اور کبھی بایاں اور کبھی کسی رنگ میں کبھی کسی رنگ میں اور ہمارا سارا انحصار انہی تصویروں پر ہے۔ جب یہ ترازو کسی کے ہاتھ میں آتا ہے تو وہ بندر بانٹ سے کام لیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ترازو خالی ہوجاتی ہے اور اس کے دونوں پلڑوں میں کوئی چیز بھی موجود نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود اس کے دونوں پلڑوں میں کبھی برابری نہیں آتی اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ آخراب اس ترازو کو کیا ہوا ہے کہ اس کے دونوں پلڑے خالی ہیں لیکن توازن پھر بھی برابر نہیں ہے ؟
Top