Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 48
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّ١ؕ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَۙ
وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کی اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : سچائی کے ساتھ مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالی لِّمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَمُهَيْمِنًا : اور نگہبان و محافظ عَلَيْهِ : اس پر فَاحْكُمْ : سو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِمَآ : اس سے جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَ : اور لَا تَتَّبِعْ : نہ پیروی کریں اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات عَمَّا : اس سے جَآءَكَ : تمہارے پاس آگیا مِنَ : سے الْحَقِّ : حق لِكُلٍّ : ہر ایک کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا ہے مِنْكُمْ : تم میں سے شِرْعَةً : دستور وَّمِنْهَاجًا : اور راستہ وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَجَعَلَكُمْ : تو تمہیں کردیتا اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : واحدہ (ایک) وَّلٰكِنْ : اور لیکن لِّيَبْلُوَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے فِيْ : میں مَآ : جو اٰتٰىكُمْ : اس نے تمہیں دیا فَاسْتَبِقُوا : پس سبقت کرو الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا جَمِيْعًا : سب کو فَيُنَبِّئُكُمْ : وہ تمہیں بتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : اس میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
اور ہم نے تمہاری طرف کتاب اتاری حق کے ساتھ ‘ مصداق اس سے پیشتر سے موجود کتاب اور اس کے لیے کسوٹی بنا کر۔ تو ان کے درمیان فیصلہ کرو اس کے مطابق ‘ جو اللہ نے اتارا اور اس حق سے ہٹ کر جو تمہارے پاس آچکا ہے ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک ضابطہ اور ایک طریقہ ٹھہرایا اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ اس چیز میں تمہاری آزمائش کرے ‘ جو اس نے تم کو بخشی تو بھلائیوں کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے تو وہ تمہیں آگاہ کرے گا اس چیز سے ‘ جس سے تم اختلاف کرتے ہو
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہ ُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَکَ مِنَ الْحَقِّ ط لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَاجًا ط وَلَوْشَآئَ اللہ ُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط اِلیَ اللہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیِہِ تَخْتَلِفُوْنَ ۔ (المائدہ : 48) ” اور ہم نے تمہاری طرف کتاب اتاری حق کے ساتھ ‘ مصداق اس سے پیشتر سے موجود کتاب اور اس کے لیے کسوٹی بنا کر۔ تو ان کے درمیان فیصلہ کرو اس کے مطابق ‘ جو اللہ نے اتارا اور اس حق سے ہٹ کر جو تمہارے پاس آچکا ہے ‘ ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک ضابطہ اور ایک طریقہ ٹھہرایا اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ اس چیز میں تمہاری آزمائش کرے ‘ جو اس نے تم کو بخشی تو بھلائیوں کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے تو وہ تمہیں آگاہ کرے گا اس چیز سے ‘ جس سے تم اختلاف کرتے ہو “۔ اس آیت میں خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی سے ہے۔ لیکن بالواسطہ خطاب پوری امت سے ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ جس طرح ہم نے یہود کی طرف تورات اور نصاریٰ کی طرف انجیل نازل کی اور ان کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ ان کتابوں کے مطابق فیصلے کریں۔ انھوں نے ان کتابوں کے ساتھ جو کیا اس کا انجام ان کے بھی سامنے ہے اور تمہارے بھی۔ اب تم پر بھی اسی طرح ایک کتاب ہم نے نازل کی ہے۔ جو اپنی خصوصیات میں بہت نمایاں ہے اور تمہیں بھی یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ اس کتاب کے مطابق فیصلے کرنا اور یہ چونکہ اللہ کی آخری کتاب ہے ‘ اس لیے اب کسی غلطی کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ اگر اس کے حقوق کی ادائیگی میں کمی کی گئی اور نوع انسانی کو اللہ کی اس نعمت سے بہرہ ور کرنے کی بجائے ‘ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے محروم رکھا گیا تو یہ ایک ایسا حادثہ ہوگا ‘ جس کی تلافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے زور دے کر فرمایا کہ ہم نے یہ جو کتاب اتاری ہے ‘ اس کی تین حیثیتیں ہیں۔ قرآن پاک کی تین حیثیتیں 1 ایک تو یہ کہ اسے حق کے ساتھ اتارا گیا۔ ” حق “ سے مراد یہ ہے ‘ جس پر سیاق کلام دلالت کر رہا ہے کہ اسے ہم نے قول فیصل بنا کر بھیجا ہے۔ چونکہ سابقہ کتابیں ترمیم اور تحریف کا شکار ہوگئیں۔ اب اس کتاب کی حیثیت یہ ہے کہ ان کتابوں کی کمی بیشی اور اہل کتاب کی خیانتوں پر یہ قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے کہ جو بات یہ کہے گی وہ صحیح ہوگی اور پہلی آسمانی کتابوں کو اس کی کہی ہوئی باتوں پر جانچا اور پرکھا جائے گا۔ 2 دوسری خصوصیت اس کتاب کی یہ ہے کہ یہ سابقہ کتابوں کی محفوظ باتوں اور محفوظ حقائق کی تصدیق کرتی ہے اور خود ان حقائق کی مصداق بھی ہے۔ لیکن یہاں ایک عجیب بات یہ ہے کہ سابقہ کتابوں کا ذکر الکتاب کے لفظ سے کیا گیا۔ اس سے اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ قرآن اور تمام وہ کتابیں جو مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں ‘ سب کی سب حقیقت میں ایک ہی کتاب ہے ‘ ایک ہی ان کا مصنف ہے ‘ ایک ہی ان کا مدعا اور مقصد ہے ‘ ایک ہی ان کی تعلیم ہے اور ایک ہی علم ہے ‘ جو ان کے ذریعے سے نوع انسانی کو عطا کیا گیا۔ فرق اگر ہے تو عبارات کا ہے ‘ جو ایک ہی مقصد کے لیے مختلف مخاطبوں کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے اختیار کی گئیں۔ پس حقیقت صرف اتنی ہی نہیں کہ یہ کتابیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں ‘ مؤید ہیں۔ تردید کرنے والی نہیں ‘ تصدیق کرنے والی ہیں بلکہ اصل حقیقت اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ وہ یہ کہ سب ایک ہی الکتاب کے مختلف ایڈیشن ہیں۔ 3 تیسری خصوصیت اس کی یہ ہے کہ یہ کتاب ممہیمن بنا کر نازل کی گئی۔ ” مہیمن “ اللہ کی صفت بھی ہے ‘ جو سورة حشر میں ذکر کی گئی ہے اور اس کتاب کی صفت بھی۔ ” مہیمن “ کا معنی ہوتا ہے محافظ ‘ نگران ‘ گواہ ‘ امین ‘ تائید اور حمایت کرنے والا۔ قرآن کریم کے مہیمن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام برحق تعلیمات کو ‘ جو پچھلی کتب آسمانی میں دی گئی تھیں ‘ اپنے اندر لے کر محفوظ کرلیا ہے۔ وہ ان پر نگہبان ہے ‘ اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات برحق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کی مؤید ہے ‘ اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر اللہ کا کلام جس حد تک موجود ہے ‘ قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ اس پر گواہ ہے ‘ اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر اللہ کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہوگئی ہے ‘ قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جاسکتا ہے۔ جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے ‘ وہ اللہ کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے ‘ وہ لوگوں کا کلام ہے۔ گویا کہ علم الٰہی کے حوالے سے صحت و استناد کی اگر کوئی اتھارٹی ہے ‘ جس کے بعد شک و شبہ کا ہر کانٹا نکل جاتا ہے ‘ وہ صرف قرآن کریم ہے۔ مذہب کے حوالے سے کوئی ایسی بات ‘ جس کی نسبت وحی الٰہی کی طرف ہو ‘ اگر یہ دیکھنا ہو کہ یہ واقعی ثابت بھی ہے یا نہیں تو اس کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ پہلی آسمانی کتابیں یقیناً وحی الٰہی کا نور لے کر نازل ہوئی ہیں اور وہ اپنے دور میں اللہ کی عطا کردہ ہدایت کا سرچشمہ تھیں۔ لیکن اب ان کے مندرجات چونکہ ترمیم و تحریف کی نذر ہوگئے ‘ اس لیے اب ان کی صحت کا دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ قرآن کریم اس کی تصدیق کرتا ہے یا نہیں۔ اسے دنیائے علم کی ستم ظریفی کہئے کہ جس کتاب کی حیثیت قول فیصل اور مہیمن کی تھی ‘ اس کو سابقہ آسمانی کتابوں پر جانچ جانچ کر فیصلہ کیا جانے لگا حالانکہ سابقہ کتابوں کو ماننے والے بھی اس کی صحت کے بارے میں یکسو نہیں۔ لیکن مذہبی تعصب جب علمی امانت پر غالب آجاتا ہے تو اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے ‘ جو ہم مستشرقین کی کتابوں میں دیکھ رہے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی ہر بات کو تورات و انجیل پر رکھ کر دیکھتے ہیں۔ اگر ان سے مختلف نظر آتی ہے تو سمجھتے ہیں کہ محمد ﷺ نے چونکہ ان باتوں کا علم لوگوں سے سن سنا کر حاصل کیا تھا ‘ اس لیے اپنی کتاب میں درج کرتے ہوئے ان سے بھول ہوگئی ہے اور اگر وہ کسی بات کو زائد دیکھتے ہیں ‘ جس کا ذکر پہلی آسمانی کتابوں میں نہیں تو وہ حیران ہو کر اس کا انکار کردیتے ہیں کہ یہ نئی بات کہاں سے آگئی۔ بنیادی خرابی یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو کتاب اللہ نہیں بلکہ کتاب محمد ﷺ سمجھتے ہیں۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کی اصل اور مخصوص حیثیت کو نمایاں کرنے کے بعد فرمایا کہ اے پیغمبر ! لوگوں کے درمیان اس حق کے مطابق فیصلہ کیجئے ‘ جو قرآن کریم کی شکل میں اللہ نے نازل کیا ہے اور آپ کو اس کتاب کے مطابق فیصلہ کرنے میں قدم قدم پر دشواریاں پیش آئیں گی کیونکہ اہل کتاب آپ کو بار بار اپنی خواہشات کے اتباع پر مجبور کریں گے اور وہ چاہیں گے کہ آپ کے فیصلے قرآن کریم کے مطابق ہونے کی بجائے ‘ ان کی خواہشات کے مطابق ہوں۔ آپ پر چونکہ حق نازل ہوچکا ہے ‘ اس لیے آپ کا کام اس حق کا اتباع ہے ‘ کسی کی خواہش کا اتباع نہیں۔ جب ہم تفسیری روایات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس بات کا سراغ ملتا ہے کہ اہل کتاب ‘ بالخصوص یہود ‘ مختلف طریقوں سے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوتے تھے ‘ ان کے ذہنوں پر چونکہ پہلے سے ان کا علمی رعب مسلط تھا کیونکہ یہی پڑھے لکھے لوگ تھے اور مدینے کی آبادی بالکل ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ان سے علمی طور پر مرعوب رہتی تھی۔ اس لیے مسلمانوں پر اپنے اثرات کے باعث یہ لوگ طرح طرح سے اسلامی عدالتوں پر اثر اندازہونے کی کوشش کرتے تھے اور جب ان کو اس میں کامیابی نظر نہیں آتی تھی تو پھر وہ آنحضرت ﷺ سے مل کر آنحضرت ﷺ کے تبلیغ و دعوت میں ڈوبے ہوئے جذبات کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ یہود کے چند علما آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ پیشکش کی کہ آپ ہمارے چند قضایا کا فیصلہ اگر ہماری رائے کے مطابق کردیں تو ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوجائیں گے اور چونکہ ہماری قوم ہم پر اعتماد کرتی ہے ‘ وہ جب دیکھیں گے ہم مسلمان ہوگئے ہیں تو وہ بھی سارے اسلام قبول کرلیں گے۔ یہاں ان کے اسی ارادہ بد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زور دیا جا رہا ہے کہ آپ بہر صورت حق کے مطابق فیصلہ کریں ‘ ان کی خواہشات کی پرواہ نہ کریں۔ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہ ُ سے مراد اس آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے دو باتوں کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایک یہ بات کہ ” فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہ ُ “ یہ زندگی کے کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے یعنی اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دیوانی ‘ فوجداری یا شخصی معاملات ‘ جو عدالتوں میں پہنچیں تو آپ قرآن و سنت کے قانون کے مطابق فیصلہ کریں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی کے فیصلے وحی الٰہی کی روشنی اور اس کی راہنمائی میں ہونے چاہئیں۔ جس طرح شخصی زندگی میں یہ جاننا کہ نکاح کا طریقہ کیا ہے ؟ ‘ اس کے احکام کیا ہیں ؟ ‘ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں ؟ ‘ اولاد کے حقوق کیا ہیں اور والدین کے فرائض کیا ہیں ؟ پھر اولاد کی تربیت کے کیا اصول اسلام نے دیئے ہیں ؟ اسی طرح حقوق و فرائض کی جو ایک پوری تفصیل شخصی زندگی کے حوالے سے اسلامی شریعت دیتی ہے ‘ جس طرح ان تمام معاملات میں ہم اسلامی شریعت سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں ‘ بالکل اسی طرح ہمیں اس بات کا بھی پابند ٹھہرایا گیا ہے کہ ہم اپنی معاشرتی ‘ معاشی ‘ سیاسی غرضیکہ اجتماعی زندگی کے تمام ادوار اور قومی اور بین الاقوامی حدود میں بھی اسلامی شریعت سے راہنمائی لینے اور اس کی پابندی کرنے پر مجبور ہیں۔ گویا ہماری پوری زندگی اسلامی شریعت کی راہنمائی میں گزرنی چاہیے اور ہماری پوری زندگی کا پہیہ شریعت اسلامی کی قوت سے گھومنا چاہیے۔ جہاں جہاں بھی انسانی اجتماعی زندگی میں اسلام نے احکام دے دیئے ہیں ‘ ان سے سرتابی کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ ! جہاں قرآن و سنت خاموش ہے ‘ وہاں اسلامی شریعت کے ماہرین کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اور قرآن و سنت میں غور و فکر کرتے ہوئے ‘ اپنے لیے اصول طے کرسکتے ہیں اور اس میں انھیں آزادی حاصل ہے۔ مختصر یہ کہ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہ ُ کا حکم ہماری پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر محیط ہے۔ ” وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَھُمْ “ میں خطاب امت مسلمہ سے ہے دوسری بات جو ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو یہ حکم دیا جا رہا ہے : وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَکَ مِنَ الْحَقِّ آپ اہل کتاب کی پیروی مت کریں ‘ اس حق سے منحرف ہو کر ‘ جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ یہ حیران کن بات ہے کہ اللہ کا وہ رسول ‘ جو اپنی ذات میں معصوم ہے ‘ جس سے باطل کا اتباع اور حق سے انحراف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پھر یہ کہ دنیا میں وہی حق کا علمبردار ‘ مبلغ اور مناد ہے۔ اگر وہی اس پر قائم نہ رہا تو اور کسی سے کیا توقع ہوسکتی ہے۔ اس لیے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اگرچہ خطاب جناب رسول پاک ﷺ کو ہے ‘ لیکن سمجھایا امت کو جا رہا ہے کہ تمہاری زندگی میں بار ہا ایسے مواقع آئیں گے کہ تمہیں اہل کتاب یا دوسری قوموں کے سامنے اپنے نظریہ حیات پر قائم رہنا مشکل ہوجائے گا۔ بعض دفعہ تم پر ایسا دبائو پڑے گا کہ تم شاید اس کے سامنے ٹھہرتے ہوئے دشواری محسوس کرو۔ اس وقت تم یقیناً یہ چاہو گے کہ مخالف قوتوں سے کوئی سمجھوتہ کر کے اور ان کی بہت سی باتیں مان کر زندگی کا کوئی راستہ نکال لو۔ اس لیے تاکید کے انداز میں فرمایا جا رہا ہے کہ دیکھنا یہ حرکت نہ کرنا۔ تم اس کائنات کا گل سرسبد اور اس زمین کا نمک ہو۔ اگر تمہی نے خزاں سے سازگاری پیدا کرلی اور تو شجرِ انسانیت کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ اس کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَاجًا ط وَلَوْ شَآئَ اللہ ُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط (تم میں سے ہر ایک امت کے لیے ہم نے ایک ضابطہ اور ایک راستہ مقرر کیا ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن (اس نے) ایسا نہیں کیا۔ تاکہ وہ تمہیں آزمائے ‘ اس میں جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے۔ پس تم بھلائیوں میں سبقت کرو۔ ) شریعتوں میں اختلاف انسانوں کے لیے امتحان ہے یہ ایک جملہ معترضہ ہے اور ایک سوال کا جواب ہے ‘ جو اس آیت کے پہلے حصے کو پڑھنے کے بعد ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب قرآن کریم ‘ سابقہ کتابوں کا مؤید اور تصدیق کرنے والا ہے اور تمام آسمانی کتابیں اصلاً ایک الکتاب کا درجہ رکھتی ہیں اور یہ تمام کتابیں ‘ ایک ہی منبع ہدایت سے نکلی ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہر کتاب نے اپنی ماننے والی امت کو دوسری کتاب کی نسبت الگ شریعت دی ہے ؟ یعنی جتنی کتابیں اتری ہیں اور جتنے رسول آئے ہیں ‘ وہ سب الگ الگ شریعتیں لے کر آئے ہیں۔ اگر کتابوں کی حقیقت ایک ہے اور وہ ایک ہی علم لے کر آئی ہیں اور ان کا بھیجنے والا بھی ایک ہی ہے تو پھر الگ الگ شریعتوں کا کیا معنی ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ ہم نے ہر امت کو ایک الگ ضابطہ اور شریعت دی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا سرچشمہ ہدایت الگ الگ ہے۔ جہاں تک دین کے حقائق کا تعلق ہے ‘ وہ ہمیشہ سے غیر متغیر ہیں اور غیر متغیر ہی رہیں گے لیکن شریعت کے ظاہری ڈھانچے اور اس کے فروع میں یقینا تبدیلی کی جاتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ عبادتِ الٰہی کا حکم سب کو دیا گیا۔ سب پر نماز فرض کی گئی ‘ روزہ فرض کیا گیا ‘ قربانی مشروع کی گئی۔ لیکن تمام امتوں میں اس کی ادائیگی کے طریقوں میں اختلاف رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی ایک کمزوری ہے کہ وہ شروع شروع میں ایک حقیقت کو سمجھ کر قبول کرتا ہے ‘ پھر وہ اسے اپنی عادت بنا لیتا ہے اور جب وہی عادت اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہے تو وہ اس کی حقیقت پر غور کرنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کرتی بلکہ آبائو اجداد کا ورثہ سمجھ کر ‘ اس کے ساتھ چمٹی رہتی ہے۔ مرور ایام کے ساتھ اگر اس حقیقت میں کوئی آمیزش ہوتی ہے یا اس میں کمی بیشی کردی جاتی ہے تو چونکہ اب یہ آبائو اجداد کا ورثہ بن چکی ‘ اس لیے اس کی اصلاح کی ہر کوشش کو بھی رد کردیا جاتا ہے۔ نتیجہ اس کا معلوم ہے کہ اس حقیقت کو قبول کرنے والے ‘ درحقیقت اس حقیقت سے دور ہوجاتے ہیں۔ انسانوں کا خالق اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ اس نے انسانوں کو عقل و شعور اور قوت تمیز دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ اس کا امتحان لیتا رہتا ہے کہ تم اپنے اللہ کی اطاعت ‘ کیا سمجھ بوجھ کر اور پورے شعور کے ساتھ کر رہے ہو یا محض آبائو اجداد کا ایک ورثہ سمجھ کر۔ اس لیے ان میں عبودیت کی تازگی پیدا کرنے کے لیے وہ ہر نازل ہونے والی نئی شریعت میں زمانے کے حالات کے مطابق فروعی احکام میں تبدیلی کر کے ایک تو وہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور دوسرا وہ لوگوں کا امتحان لیتا ہے کہ آیا وہ اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور شعور کے ساتھ اس کی اطاعت کرتے ہیں یا وہ اپنی مرضی ہی کی بندگی کرتے اور اپنی مرضی کے ڈگر پر چلنے پر اصرار کرتے ہیں۔ اس کے لیے یہ بات کوئی مشکل نہ تھی کہ پہلے دن سے انسانوں کے لیے ایک راہ ہدایت مقرر کردی جاتی اور وہ قیامت تک کے لیے اس پر چلتے رہتے ‘ جس طرح کو لہو کا بیل ایک دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ ہر آدمی اپنے اس متعین راستے پر چلتا رہتا۔ لیکن یہ اسی صورت ممکن تھا کہ اسے عقل و شعور سے محروم رکھا جاتا۔ اگر جزا و سزا کا سارا ترتب اسی قوت تمیز اور عقل و شعور پر ہونا ہے تو پھر ضروری تھا کہ ہر رسول کے آنے کے بعد ‘ جہاں عبودیت کی تروتازگی کا سامان کیا جاتا ‘ وہیں ان کے شعور کی آزمائش بھی ہوتی۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے عبادت کرنے کا حکم دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ آئے تھے ‘ ان کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش تھی کہ صدیوں سے جسے وہ اپنا قبلہ اور کعبہ بنائے ہوئے ہیں یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے اللہ کے گھر کو ‘ اسے ترک کر کے بیت المقدس کو قبلہ بنالیں۔ اللہ تعالیٰ سورة البقرہ میں اس کی حکمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ( ہم نے یہ جو قبلہ مقرر کیا تھا ‘ تو اس لیے کیا تھا ‘ تاکہ ہم اس بات کو ظاہر کردیں کہ کون اللہ کے رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اس سے انحراف کرتا ہے ؟ ) یعنی اگر تمہیں ایک ہی قبلے کی طرف عبادت کو جاری رکھنے کا حکم دیا جاتا تو اس کے تو تم صدیوں سے عادی تھے اور وہ تمہارے آبائو اجداد کا ورثہ بھی ہے۔ اس میں تمہارا کیا امتحان ہوتا ؟ اس لیے ہم نے درمیان میں چند مہینوں کے لیے بیت المقدس کو قبلہ بنا کر ان کا امتحان لیا ‘ جو بیت اللہ کو قبلہ مانتے تھے اور اس کے بعد پھر تحویل قبلہ کا حکم دے کر ان لوگوں کا امتحان لیا ‘ جو بیت المقدس کو قبلہ جانتے تھے اور اب انھیں بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس مثال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مختلف شریعتوں کے نازل کرنے میں حکمت کیا تھی۔ تمام شریعتیں اپنے اصول اور بنیادی اعتقادات میں یکساں تھیں۔ اختلاف اگر تھا تو صرف فروع یا اس کے ظاہری ڈھانچے میں تھا۔ ظاہر ہے ‘ یہ اختلاف ایسا نہیں ‘ جس کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ دین کے حقائق میں کوئی انقلاب واقع ہوگیا۔ البتہ جو لوگ روح دین سے بیگانہ ہیں اور ضوابط اور ان کی تفصیلات ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں اور جنھوں نے خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیزوں پر خود اپنے حاشیے چڑھا کر ان پر جمود اور تعصب اختیار کرلیا ہے ‘ وہ ہر اس ہدایت کو رد کرتے چلے جائیں گے جو بعد میں اللہ کی طرف سے آئے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو ممیز کرنے کے لیے ‘ اس آزمائش سے گزارنا ضروری تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے شریعتوں میں اختلاف رکھا۔ مزید فرمایا : فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ (نیکیوں اور بھلائیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو) تمام شریعتیں ‘ مقصد میں یکساں تھیں۔ ان کے پیش نظر ‘ صرف ایک مقصد رہا کہ لوگ نیکیوں اور بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور یہ مقصد ظاہر ہے ‘ اسی طرح حاصل ہوسکتا ہے کہ جس وقت جو اللہ کا حکم نازل ہو ‘ اس کی پیروی کی جائے۔ لہٰذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ‘ ان کے لیے شریعتوں کے اختلافات پر جھگڑا کرنے کی بجائے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اس راہ سے پیش قدمی کریں ‘ جس کو اللہ تعالیٰ کی منظوری حاصل ہو۔ آخر میں فرمایا : اِلَی اللہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیہِ تَخْتَلِفُوْنَ (آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتادے گا ‘ جس میں تم اختلاف کرتے رہے۔ ) یعنی تم نے شریعتوں کے اختلاف کو ‘ جس طرح مقصد کے اختلاف میں تبدیل کیا ہے اور اس کا بہانہ بنا کر آنحضرت ﷺ کی بعثت سے انکار کردیا ہے اور قرآن کریم کو ماننے سے منکر ہوگئے ‘ یہ ہٹ دھرمی اور ذہنی اپچ کی انتہاء ہے۔ جب کوئی آدمی اس کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر وہاں کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی۔ نہ کسی مجلس مناظرہ میں اس کا فیصلہ ممکن ہوتا ہے اور نہ میدان جنگ میں۔ اس کا آخری فیصلہ پھر قیامت ہی میں ہوگا ‘ جب کہ حقیقت بےنقاب ہوجائے گی اور لوگوں پر منکشف ہوجائے گا کہ جن جھگڑوں میں عمریں کھپا کر دنیا سے آئے ہیں ‘ ان کی تہہ میں حق کا جوہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کس قدر تھے۔
Top