Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 49
وَ اَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكَ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ
وَاَنِ : اور یہ کہ احْكُمْ : فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِمَآ : اس سے جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَلَا تَتَّبِعْ : نہ چلو اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشیں وَاحْذَرْهُمْ : اور ان سے بچتے رہو اَنْ : کہ يَّفْتِنُوْكَ : بہکا نہ دیں عَنْ : سے بَعْضِ : بعض (کسی) مَآ : جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ اِلَيْكَ : آپ کی طرف فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ منہ موڑ جائیں فَاعْلَمْ : تو جان لو اَنَّمَا : صرف یہی يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّصِيْبَهُمْ : انہیں پہنچادیں بِبَعْضِ : بسبب بعض ذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہ وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنَ : سے النَّاسِ : لوگ لَفٰسِقُوْنَ : نافرمان
پس اے محمد ﷺ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ‘ ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں ‘ جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ‘ ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں
وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہ ُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْم بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللہ ُ اِلَیْکَ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللہ ُ اَنْ یُّصِیْبَھُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِھِمْ ط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ ۔ (المائدہ : 40) ” پس اے محمد ﷺ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں ‘ جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ‘ ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں “۔ اس آیت کریمہ میں جس بات کا حکم دیا جا رہا ہے ‘ اسی کا حکم گزشتہ آیت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عطف بھی سابقہ آیت کے پہلے حصے پر ہے۔ درمیان میں ایک جملہ معترضہ آگیا تھا ‘ اس کی وضاحت کے بعد پھر وہی سلسلہ کلام دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ بظاہر یہ تکرار معلوم ہوتی ہے اور تکرار کو عام طور پر کلام کا عیب سمجھا جاتا ہے ‘ جس سے اللہ کے کلام کو پاک ہونا چاہیے۔ لیکن اگر مخاطب کے سابقہ تغافل کی وجہ سے یا اس کے حق سے انحراف یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے تکرار کی ضرورت محسوس ہو تو پھر تکرار نہ صرف عیب نہیں رہتی بلکہ کلام کی ضرورت بن جاتی ہے۔ یہاں بھی یہی حقیقت کارفرما ہے۔ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے حوالے سے سابقہ امتوں نے جو روش اختیار کی ‘ جس کے نتیجے میں قرآن کریم نے انھیں کافر ‘ فاسق اور ظالم ٹھہرایا۔ اس روش کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری تھا کہ مستقبل کی اس امت کو جسے قیامت تک نوع انسانی کی قیادت کا فرض انجام دینا ہے بار بار تنبیہ کی جائے کہ وہ یہ رویہ اختیار نہ کرے ‘ ورنہ نوع انسانی کا مستقبل تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے مکرر ارشاد فرمایا اور خطاب بھی آنحضرت ﷺ سے کیا تاکہ اس حقیقت کو زیادہ نمایاں ہونے کا موقع ملے اور امت پوری طرح اس کی اہمیت کو محسوس کرسکے۔ قرآن سے امت مسلمہ کا سلوک لیکن اس ساری احتیاط اور تاکید کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ امت اسلامیہ نے اس خدشے کو ایک حقیقت بنا کر دنیا کے سامنے عبرت کے لیے پیش کردیا ہے۔ آج پورے عالم اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم سب سے زیادہ چھپنے والی اور پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ صرف سعودی عرب میں قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کا محیر العقول نظام موجود ہے اور پوری دنیا میں سعودی حکومت نے اسے مفت تقسیم کرنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا مجموعی طور پر اس کے ساتھ رویہ حیرت انگیز حد تک قابل افسوس ہے کہ جس کتاب کو وہ انتہائی مقدس اور محترم جان کر آنکھوں سے لگاتی ہے ‘ اسے سمجھنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ اسے جزدانوں میں لپیٹ کر ‘ طاقوں میں سجایا جاتا ہے۔ تعویذ بنا کر دھو دھو کر پیا جاتا ہے اور نہ جانے کیا کیا مقدس کام اس سے لیئے جاتے ہیں۔ کوئی مرجائے تو اس سے ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے۔ لیکن خود وہ کتاب کیا کہتی ہے ‘ اس سے مسلمانوں کو کوئی سروکار نہیں۔ سمجھ یہ لیا گیا ہے کہ اس کتاب کا مقصد حصول ثواب ہے یا ایصال ثواب یا بیماریوں میں اس سے شفا پانا ہے اور اگر کسی کی جان نہ نکلتی ہو تو اس کے پاس پڑھ کر اس کی نزع کو سہل بنانا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم سے یہ سارے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ وہ شفا بھی ہے ‘ اس کے پڑھنے سے ثواب بھی ملتا ہے ‘ اس سے ایصال ثواب بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ کتاب دنیا میں صرف اس حوالے سے تو نازل نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہماری کوتاہ فہمی ہے کہ ہم نے اس کتاب کو ان مقاصد تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا : تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا توپیں جب چلتی ہیں تو اس کی زد میں آنے والے جانور اور حیوانات بھی مرجاتے ہیں۔ لیکن توپیں جانوروں کے شکار کے لیے نہیں داغی جاتیں۔ ان سے تو مورچے تباہ ہوتے اور فصیلیں اڑائی جاتی ہیں۔ اس لیے قرآن کریم بھی کتاب ہدایت ‘ کتاب زندگی اور کتاب انقلاب بن کر آیا تھا اور قرن اول میں اس سے یہی فائدہ اٹھایا گیا اور یہ امت دنیا کی امامت کے منصب پر فائز رہی۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم تھا کہ یہ امت اس کتاب مقدس سے یہی سلوک کرے گی۔ اس لیے اس نے تکرار کے ساتھ اپنے حکم کو دھرایا تاکہ ہم ان کوتاہیوں سے بچ سکیں۔ لیکن ہماری امت کا ہر طبقہ ‘ ایک محدود طبقے کو چھوڑ کر ‘ اپنی اس روش کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ جنھیں مذہب سے کوئی خاص رشتہ نہیں ‘ ان کی تو شکایت ہی فضول ہے۔ شکایت تو ان سے ہے ‘ جو اپنے بچوں کو قرآن پاک نہایت شوق سے حفظ تک کرواتے ہیں اور خود بھی پابندی سے روزانہ تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں۔ لیکن نہ جانے انھیں یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ جو کتاب ‘ کتاب ہدایت ہو ‘ اگر اس کو سمجھا نہ جائے تو اس سے ہدایت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے ‘ جیسے کوئی شخص بیرون ملک گیا اور اس نے جاتے ہوئے اپنے عزیز دوست سے کہا کہ میں بیوی بچوں کو یہاں چھوڑے جا رہا ہوں ‘ تم میرے سب سے عزیز دوست ہو۔ خدا کے لیے میرے بچوں کی دیکھ بھال کرنا اور آتے جاتے گھر کی ضرورتوں کے بارے میں پوچھتے رہنا۔ میں خود بھی وقتاً فوقتاً تمہیں خط لکھتا رہوں گا۔ تم اس کے مطابق میرے اہل خانہ کی ضرورتوں کو پورا کرتے رہنا۔ جب وہ چند سال کے بعد اپنے گھر لوٹ کے آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس اللہ کے بندے نے کبھی ایک دفعہ بھی گھر کی راہ نہیں دیکھی اور کبھی آکر اس نے معلوم نہ کیا کہ اہل خانہ زندہ ہیں یا مرگئے۔ اس شخص کو سن کر نہایت دکھ ہوا چناچہ ‘ جب اس کا دوست ملنے آیا تو اس نے اس سے منہ پھیرلیا۔ اس کے دوست نے جب اس کی بےرخی کو دیکھا تو اس کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے اپنے گھر لے گیا اور پوچھا دوست بتائو تو سہی ‘ تمہیں شکایت کیا ہے۔ اس نے کہا شکایت پوچھتے ہو ‘ تم نے یہی دوستی کا حق ادا کیا کہ اتنے سالوں میں میرے بچوں کی ایک دفعہ بھی خیریت معلوم نہ کی۔ اس نے کہا اس بات کو چھوڑو ‘ گھر گیا اور اس کے تمام خطوط کا پلندہ ‘ جو اس نے نہایت خوبصورت جزدان میں لپیٹا ہوا تھا ‘ وہ اٹھا کرلے آیا اور اہل محلہ میں جا کر اس نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم ذرا میرے دوست کے سامنے اس بات کی گواہی دو کہ جب بھی اس کا خط آتا تھا تو کیا میں لہک لہک کر آپ لوگوں کو پڑھ کر نہیں سناتا تھا اور کس طرح میں اپنے دوست کی ہر وقت آپ لوگوں کے سامنے تعریف کرتا تھا ؟ اب بتایئے اس کے علاوہ میں اور کیا کرسکتا تھا ؟ اس دوست نے یہ سن کر سر پکڑ لیا کہ تم تو عقل سے بالکل ہی فارغ معلوم ہوتے ہو۔ خطوط لہک لہک کر پڑھنے کے لیے اور لوگوں کو سنانے کے لیے ہوتے ہیں یا جو کچھ خطوط میں لکھا جائے ‘ اسے سمجھ کر عمل کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر تم ایسے ہی ضعیف العقل ہو تو میں تم سے کیا گلہ کروں۔ یہ ایک انفرادی واقعہ ہے ‘ جس سے آپ کو تعجب ہوا ہوگا اور آپ اسے یقیناً فتورِ عقل کی ایک مثال سمجھیں گے۔ لیکن اس امت اسلامیہ کے بارے میں ‘ جس کے ہم سب افراد ہیں کیا رائے قائم کی جاسکتی ہے ؟ کیا ہم سب اسی اختلالِ دماغ کا شکار ہیں کہ اللہ کا پیغام جو ہماری زندگی کی راہنمائی کے لیے آیا ‘ وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس کے مطابق زندگی کے فیصلے کرنا تو دور کی بات ‘ ہم اسے سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اس لیے تکرار کے ساتھ ‘ اس حکم کو ارشاد فرمانے کے بعد اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی۔ کہا جب تم اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے کا ارادہ کرو تو نہایت ہوشیاری کا ثبوت دینا۔ اس بات سے پوری طرح چوکنا رہنا کہ یہ اہل کتاب یا دشمنان دین ‘ تمہیں اس شریعت کے حوالے سے کسی فتنہ میں مبتلا نہ کردیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنے سے برتر قوتوں کے سامنے اپنے مفادات کو غیر محفوظ سمجھ کر ‘ اس قدر ذہنی تحفظات کا شکار ہوجاؤ کہ تم سرے سے اسلامی شریعت سے لاتعلقی کا فیصلہ کرلو۔ جب قرآن کریم اتر رہا تھا تو یقینا یہ بات حیران کن ہوگی کہ مسلمان کبھی اس صورت حال سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں لیکن آج ہم پورے عالم اسلام کو دیکھتے ہوئے ‘ جب اس حقیقت کو اپنے سامنے پاتے ہیں تو اس کی کوئی تاویل کرنا مشکل نظر آتی ہے۔ ہمارے ملک کا جو ڈیشری سے متعلق ایک اہم وفد ایک مسلمان ملک کے دورے پر گیا۔ اس کے پروگرام میں سربراہ مملکت سے ملاقات بھی شامل تھی۔ ملاقات سے پہلے اس وفد کے سربراہ نے پروٹوکول آفیسر کو ضابطہ کے مطابق اطلاع دی کہ ہم آپ کے ملک کے سربراہ کو قرآن کریم کا تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے اگلے روز جواب دینے کا وعدہ کیا۔ دوسرے دن باضابطہ جواب دیا گیا کہ آپ قرآن کریم کا تحفہ سربراہ مملکت کو پیش نہیں کرسکتے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ اس ملک میں اقلیتیں بھی رہتی ہیں ‘ اگر قرآن کریم کا آپ تحفہ پیش کریں گے تو ان اقلیتوں کو شکایت پیدا ہوسکتی ہے اور ہم اسے مناسب نہیں سمجھتے۔ اندازہ فرمایئے ! جس ملک کا سربراہ غیر مسلم اقلیتوں کے خوف سے قرآن کریم کا تحفہ قبول نہیں کرسکتا تو کیا وہ قرآن کریم کا نظام اپنے ملک میں نافذ کرنے کا تصو ربھی کرسکتا ہے ؟ یہی وہ چیز ہے ‘ جس سے اس امت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ دیکھنا اس کمزوری کا شکار نہ ہوجانا کہ اگر تمہارے پیش نظر غیر مسلموں کی پسند و ناپسند رہی اور تم اپنے دینی فیصلے بھی ان کے اشارہ ابرو سے کرنے لگے تو پھر اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے کہ تم کبھی شریعت کو نافذ کرسکو۔ تم نے اگر فی الواقع اس فرض کو انجام دینا ہے تو پھر تمہارے سامنے اللہ کی خوشنودی کے حصول کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ ورنہ تم یہ فرض کبھی انجام نہیں دے سکو گے۔ پاکستان بننے کے بعد ‘ پاکستان میں بسنے والے یہاں بھی یہی تماشہ دیکھتے رہے ہیں کہ جب بھی اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ہوا تو سب سے بڑی رکاوٹ وہی طبقہ رہا ‘ جن کی نظریں ہمیشہ باہر کی طرف لگی رہتی تھیں۔ میاں امیر الدین مرحوم ‘ جو پاکستان بننے کے بعد لاہور کے پہلے میئر تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ بتایا کہ حصول پاکستان کے بعد ‘ جب اہل پاکستان نے بالعموم اور اس کی دینی تنظیموں نے بالخصوص زور وشور سے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور اس میں خود مسلم لیگ کا اسلام پسند طبقہ بھی شامل تھا اور میاں امیر الدین کا شمار بھی اسی طبقہ میں ہوتا تھا۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ میں ایک روز ہائی کورٹ بار میں گیا تو مجھے وکلاء نے گھیر لیا۔ کہنے لگے میاں صاحب ! یہ آپ کیا غضب کر رہے ہیں کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ میاں صاحب نے ان سے کہا کہ آخر آپ کو اس میں شکایت کیا ہے ؟ کہنے لگے کہ آج کی روشنی کے زمانے میں ‘ اگر آپ صدیوں پہلے کا قانون نافذ کریں گے تو ہم مغربی دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اندازہ کیجئے کہ نفاذ اسلام کے راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ‘ یہ بےحمیتی ہے کہ اللہ ناراض ہوتا ہے تو بیشک ہوجائے ‘ لیکن مغربی دنیا کو ہم سے ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ ظفر علی خاں مرحوم نے اسی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا تم سمجھتے ہو پرایوں نے کیا ہم کو تباہ یوں تو شرم پیمبر ہے انھیں بھی لیکن بندہ پرور کہیں اپنوں کا یہ کام نہ ہو ان کو ڈر یہ ہے کہ ناراض کہیں ٹام نہ ہو یہ ٹام کی ناراضگی ‘ وہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے ‘ جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے کہا : وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللہ ُ اِلَیْکَ ط آپ ان اہل کتاب سے یعنی ٹام کی اولاد سے ہوشیار رہئے۔ کہیں آپ کو اللہ کی نازل کردہ شریعت سے پھسلا نہ دیں اور کسی فتنہ میں مبتلا نہ کردیں۔ جس بات سے ہوشیار رہنے کی ہمیں آگاہی بخشی گئی تھی ‘ افسوس یہ ہے کہ آج اسی بات نے ہمارا راستہ روک رکھا ہے۔ یہود کی بدنیتی کا انجام اس کے بعد ارشاد فرمایا : فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللہ ُ اَنْ یُّصِیْبَھُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِھِمْ ط یعنی اگر تمہاری تمام مخلصانہ کوششوں کے باوجود ‘ اہل کتاب اپنی روش سے باز نہیں آتے تو آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آپ کو اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ حق سے ان کی روگردانی ‘ بلکہ اہل حق کو بھی اس سے پھیرنے کی کوشش ‘ اصلاً ان کی بدنصیبی کا پیش خیمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کی محرومی کا فیصلہ کیا ‘ بلکہ یہ بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ انھیں ان کے کرتوتوں کی سزا دے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے تینوں قبیلے ‘ جو مدینہ طیبہ میں آباد تھے۔ اپنی اسی روش کے باعث ‘ اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوئے۔ جنگ بدر کے جلدی بعد ‘ بنو قینقاع کو شہر بدر کردیا گیا اور پھر ایک عرصہ کے بعد ‘ بنو نضیر بھی شہر سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کے قلعے ‘ ان کی زمینیں ‘ ان کے کاروبار ‘ سب کچھ پیچھے رہ گیا اور یہ عبرت کی تصویر بنے ‘ خیبر میں جا کر آباد ہوگئے۔ سب سے آخر میں ‘ بنو قریظہ اپنے انجام کو پہنچے کہ جن کے بیشتر افراد کو قتل ہونا پڑا اور پہلے دو قبیلے جو خیبر میں جا کر بس گئے تھے ‘ وہاں بھی ان کی حق دشمنی کی عادت رک نہ سکی۔ بالآخر ان کو جزیرہ عرب سے نکال دیا گیا۔ یہ وہ سزا تھی جو اللہ کے قانون کے مطابق انھیں ملی کیونکہ اس کا قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر اتمام حجت کردی جاتی ہے اور پھر بھی وہ قوم راہ راست اختیار نہیں کرتی تو عام طور پر اس کے اجتماعی گناہوں کی سزا دنیا ہی میں اسے دے دی جاتی ہے۔ البتہ ! انفرادی اعمال کی سزا ‘ وہ قیامت میں پائیں گے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؎ فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ بھی بیان فرما دی کہ ہم نے ان لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیوں کیا فرمایا : وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ (یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں ) یعنی اللہ کی ہدایت سے باغی ہیں۔ انھیں ہر طرح سمجھا بجھا کے دیکھ لیا ہے لیکن ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ آیت کے اس ٹکڑے نے اگرچہ ان کی شقاوت کو پوری طرح نمایاں کردیا ہے۔ تاہم آخری بات مزید فرمائی جا رہی ہے ممکن ہے ان میں سے کوئی بھی اگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو تو شاید وہ اس پر غور کرے اور ہدایت کے راستے پر چل نکلے۔ اس لیے ارشاد فرمایا :
Top