Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 49
وَ اَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكَ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ
وَاَنِ
: اور یہ کہ
احْكُمْ
: فیصلہ کریں
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان
بِمَآ
: اس سے جو
اَنْزَلَ
: نازل کیا
اللّٰهُ
: اللہ
وَلَا تَتَّبِعْ
: نہ چلو
اَهْوَآءَهُمْ
: ان کی خواہشیں
وَاحْذَرْهُمْ
: اور ان سے بچتے رہو
اَنْ
: کہ
يَّفْتِنُوْكَ
: بہکا نہ دیں
عَنْ
: سے
بَعْضِ
: بعض (کسی)
مَآ
: جو
اَنْزَلَ
: نازل کیا
اللّٰهُ
: اللہ
اِلَيْكَ
: آپ کی طرف
فَاِنْ
: پھر اگر
تَوَلَّوْا
: وہ منہ موڑ جائیں
فَاعْلَمْ
: تو جان لو
اَنَّمَا
: صرف یہی
يُرِيْدُ
: چاہتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
اَنْ
: کہ
يُّصِيْبَهُمْ
: انہیں پہنچادیں
بِبَعْضِ
: بسبب بعض
ذُنُوْبِهِمْ
: ان کے گناہ
وَاِنَّ
: اور بیشک
كَثِيْرًا
: اکثر
مِّنَ
: سے
النَّاسِ
: لوگ
لَفٰسِقُوْنَ
: نافرمان
پس اے محمد ﷺ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ‘ ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں ‘ جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ‘ ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں
وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہ ُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْم بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللہ ُ اِلَیْکَ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللہ ُ اَنْ یُّصِیْبَھُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِھِمْ ط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ ۔ (المائدہ : 40) ” پس اے محمد ﷺ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں ‘ جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ‘ ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں “۔ اس آیت کریمہ میں جس بات کا حکم دیا جا رہا ہے ‘ اسی کا حکم گزشتہ آیت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عطف بھی سابقہ آیت کے پہلے حصے پر ہے۔ درمیان میں ایک جملہ معترضہ آگیا تھا ‘ اس کی وضاحت کے بعد پھر وہی سلسلہ کلام دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ بظاہر یہ تکرار معلوم ہوتی ہے اور تکرار کو عام طور پر کلام کا عیب سمجھا جاتا ہے ‘ جس سے اللہ کے کلام کو پاک ہونا چاہیے۔ لیکن اگر مخاطب کے سابقہ تغافل کی وجہ سے یا اس کے حق سے انحراف یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے تکرار کی ضرورت محسوس ہو تو پھر تکرار نہ صرف عیب نہیں رہتی بلکہ کلام کی ضرورت بن جاتی ہے۔ یہاں بھی یہی حقیقت کارفرما ہے۔ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے حوالے سے سابقہ امتوں نے جو روش اختیار کی ‘ جس کے نتیجے میں قرآن کریم نے انھیں کافر ‘ فاسق اور ظالم ٹھہرایا۔ اس روش کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری تھا کہ مستقبل کی اس امت کو جسے قیامت تک نوع انسانی کی قیادت کا فرض انجام دینا ہے بار بار تنبیہ کی جائے کہ وہ یہ رویہ اختیار نہ کرے ‘ ورنہ نوع انسانی کا مستقبل تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے مکرر ارشاد فرمایا اور خطاب بھی آنحضرت ﷺ سے کیا تاکہ اس حقیقت کو زیادہ نمایاں ہونے کا موقع ملے اور امت پوری طرح اس کی اہمیت کو محسوس کرسکے۔ قرآن سے امت مسلمہ کا سلوک لیکن اس ساری احتیاط اور تاکید کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ امت اسلامیہ نے اس خدشے کو ایک حقیقت بنا کر دنیا کے سامنے عبرت کے لیے پیش کردیا ہے۔ آج پورے عالم اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم سب سے زیادہ چھپنے والی اور پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ صرف سعودی عرب میں قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کا محیر العقول نظام موجود ہے اور پوری دنیا میں سعودی حکومت نے اسے مفت تقسیم کرنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا مجموعی طور پر اس کے ساتھ رویہ حیرت انگیز حد تک قابل افسوس ہے کہ جس کتاب کو وہ انتہائی مقدس اور محترم جان کر آنکھوں سے لگاتی ہے ‘ اسے سمجھنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ اسے جزدانوں میں لپیٹ کر ‘ طاقوں میں سجایا جاتا ہے۔ تعویذ بنا کر دھو دھو کر پیا جاتا ہے اور نہ جانے کیا کیا مقدس کام اس سے لیئے جاتے ہیں۔ کوئی مرجائے تو اس سے ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے۔ لیکن خود وہ کتاب کیا کہتی ہے ‘ اس سے مسلمانوں کو کوئی سروکار نہیں۔ سمجھ یہ لیا گیا ہے کہ اس کتاب کا مقصد حصول ثواب ہے یا ایصال ثواب یا بیماریوں میں اس سے شفا پانا ہے اور اگر کسی کی جان نہ نکلتی ہو تو اس کے پاس پڑھ کر اس کی نزع کو سہل بنانا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم سے یہ سارے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ وہ شفا بھی ہے ‘ اس کے پڑھنے سے ثواب بھی ملتا ہے ‘ اس سے ایصال ثواب بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ کتاب دنیا میں صرف اس حوالے سے تو نازل نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہماری کوتاہ فہمی ہے کہ ہم نے اس کتاب کو ان مقاصد تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا : تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا توپیں جب چلتی ہیں تو اس کی زد میں آنے والے جانور اور حیوانات بھی مرجاتے ہیں۔ لیکن توپیں جانوروں کے شکار کے لیے نہیں داغی جاتیں۔ ان سے تو مورچے تباہ ہوتے اور فصیلیں اڑائی جاتی ہیں۔ اس لیے قرآن کریم بھی کتاب ہدایت ‘ کتاب زندگی اور کتاب انقلاب بن کر آیا تھا اور قرن اول میں اس سے یہی فائدہ اٹھایا گیا اور یہ امت دنیا کی امامت کے منصب پر فائز رہی۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم تھا کہ یہ امت اس کتاب مقدس سے یہی سلوک کرے گی۔ اس لیے اس نے تکرار کے ساتھ اپنے حکم کو دھرایا تاکہ ہم ان کوتاہیوں سے بچ سکیں۔ لیکن ہماری امت کا ہر طبقہ ‘ ایک محدود طبقے کو چھوڑ کر ‘ اپنی اس روش کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ جنھیں مذہب سے کوئی خاص رشتہ نہیں ‘ ان کی تو شکایت ہی فضول ہے۔ شکایت تو ان سے ہے ‘ جو اپنے بچوں کو قرآن پاک نہایت شوق سے حفظ تک کرواتے ہیں اور خود بھی پابندی سے روزانہ تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں۔ لیکن نہ جانے انھیں یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ جو کتاب ‘ کتاب ہدایت ہو ‘ اگر اس کو سمجھا نہ جائے تو اس سے ہدایت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے ‘ جیسے کوئی شخص بیرون ملک گیا اور اس نے جاتے ہوئے اپنے عزیز دوست سے کہا کہ میں بیوی بچوں کو یہاں چھوڑے جا رہا ہوں ‘ تم میرے سب سے عزیز دوست ہو۔ خدا کے لیے میرے بچوں کی دیکھ بھال کرنا اور آتے جاتے گھر کی ضرورتوں کے بارے میں پوچھتے رہنا۔ میں خود بھی وقتاً فوقتاً تمہیں خط لکھتا رہوں گا۔ تم اس کے مطابق میرے اہل خانہ کی ضرورتوں کو پورا کرتے رہنا۔ جب وہ چند سال کے بعد اپنے گھر لوٹ کے آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس اللہ کے بندے نے کبھی ایک دفعہ بھی گھر کی راہ نہیں دیکھی اور کبھی آکر اس نے معلوم نہ کیا کہ اہل خانہ زندہ ہیں یا مرگئے۔ اس شخص کو سن کر نہایت دکھ ہوا چناچہ ‘ جب اس کا دوست ملنے آیا تو اس نے اس سے منہ پھیرلیا۔ اس کے دوست نے جب اس کی بےرخی کو دیکھا تو اس کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے اپنے گھر لے گیا اور پوچھا دوست بتائو تو سہی ‘ تمہیں شکایت کیا ہے۔ اس نے کہا شکایت پوچھتے ہو ‘ تم نے یہی دوستی کا حق ادا کیا کہ اتنے سالوں میں میرے بچوں کی ایک دفعہ بھی خیریت معلوم نہ کی۔ اس نے کہا اس بات کو چھوڑو ‘ گھر گیا اور اس کے تمام خطوط کا پلندہ ‘ جو اس نے نہایت خوبصورت جزدان میں لپیٹا ہوا تھا ‘ وہ اٹھا کرلے آیا اور اہل محلہ میں جا کر اس نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم ذرا میرے دوست کے سامنے اس بات کی گواہی دو کہ جب بھی اس کا خط آتا تھا تو کیا میں لہک لہک کر آپ لوگوں کو پڑھ کر نہیں سناتا تھا اور کس طرح میں اپنے دوست کی ہر وقت آپ لوگوں کے سامنے تعریف کرتا تھا ؟ اب بتایئے اس کے علاوہ میں اور کیا کرسکتا تھا ؟ اس دوست نے یہ سن کر سر پکڑ لیا کہ تم تو عقل سے بالکل ہی فارغ معلوم ہوتے ہو۔ خطوط لہک لہک کر پڑھنے کے لیے اور لوگوں کو سنانے کے لیے ہوتے ہیں یا جو کچھ خطوط میں لکھا جائے ‘ اسے سمجھ کر عمل کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر تم ایسے ہی ضعیف العقل ہو تو میں تم سے کیا گلہ کروں۔ یہ ایک انفرادی واقعہ ہے ‘ جس سے آپ کو تعجب ہوا ہوگا اور آپ اسے یقیناً فتورِ عقل کی ایک مثال سمجھیں گے۔ لیکن اس امت اسلامیہ کے بارے میں ‘ جس کے ہم سب افراد ہیں کیا رائے قائم کی جاسکتی ہے ؟ کیا ہم سب اسی اختلالِ دماغ کا شکار ہیں کہ اللہ کا پیغام جو ہماری زندگی کی راہنمائی کے لیے آیا ‘ وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس کے مطابق زندگی کے فیصلے کرنا تو دور کی بات ‘ ہم اسے سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اس لیے تکرار کے ساتھ ‘ اس حکم کو ارشاد فرمانے کے بعد اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی۔ کہا جب تم اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے کا ارادہ کرو تو نہایت ہوشیاری کا ثبوت دینا۔ اس بات سے پوری طرح چوکنا رہنا کہ یہ اہل کتاب یا دشمنان دین ‘ تمہیں اس شریعت کے حوالے سے کسی فتنہ میں مبتلا نہ کردیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنے سے برتر قوتوں کے سامنے اپنے مفادات کو غیر محفوظ سمجھ کر ‘ اس قدر ذہنی تحفظات کا شکار ہوجاؤ کہ تم سرے سے اسلامی شریعت سے لاتعلقی کا فیصلہ کرلو۔ جب قرآن کریم اتر رہا تھا تو یقینا یہ بات حیران کن ہوگی کہ مسلمان کبھی اس صورت حال سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں لیکن آج ہم پورے عالم اسلام کو دیکھتے ہوئے ‘ جب اس حقیقت کو اپنے سامنے پاتے ہیں تو اس کی کوئی تاویل کرنا مشکل نظر آتی ہے۔ ہمارے ملک کا جو ڈیشری سے متعلق ایک اہم وفد ایک مسلمان ملک کے دورے پر گیا۔ اس کے پروگرام میں سربراہ مملکت سے ملاقات بھی شامل تھی۔ ملاقات سے پہلے اس وفد کے سربراہ نے پروٹوکول آفیسر کو ضابطہ کے مطابق اطلاع دی کہ ہم آپ کے ملک کے سربراہ کو قرآن کریم کا تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے اگلے روز جواب دینے کا وعدہ کیا۔ دوسرے دن باضابطہ جواب دیا گیا کہ آپ قرآن کریم کا تحفہ سربراہ مملکت کو پیش نہیں کرسکتے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ اس ملک میں اقلیتیں بھی رہتی ہیں ‘ اگر قرآن کریم کا آپ تحفہ پیش کریں گے تو ان اقلیتوں کو شکایت پیدا ہوسکتی ہے اور ہم اسے مناسب نہیں سمجھتے۔ اندازہ فرمایئے ! جس ملک کا سربراہ غیر مسلم اقلیتوں کے خوف سے قرآن کریم کا تحفہ قبول نہیں کرسکتا تو کیا وہ قرآن کریم کا نظام اپنے ملک میں نافذ کرنے کا تصو ربھی کرسکتا ہے ؟ یہی وہ چیز ہے ‘ جس سے اس امت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ دیکھنا اس کمزوری کا شکار نہ ہوجانا کہ اگر تمہارے پیش نظر غیر مسلموں کی پسند و ناپسند رہی اور تم اپنے دینی فیصلے بھی ان کے اشارہ ابرو سے کرنے لگے تو پھر اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے کہ تم کبھی شریعت کو نافذ کرسکو۔ تم نے اگر فی الواقع اس فرض کو انجام دینا ہے تو پھر تمہارے سامنے اللہ کی خوشنودی کے حصول کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ ورنہ تم یہ فرض کبھی انجام نہیں دے سکو گے۔ پاکستان بننے کے بعد ‘ پاکستان میں بسنے والے یہاں بھی یہی تماشہ دیکھتے رہے ہیں کہ جب بھی اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ہوا تو سب سے بڑی رکاوٹ وہی طبقہ رہا ‘ جن کی نظریں ہمیشہ باہر کی طرف لگی رہتی تھیں۔ میاں امیر الدین مرحوم ‘ جو پاکستان بننے کے بعد لاہور کے پہلے میئر تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ بتایا کہ حصول پاکستان کے بعد ‘ جب اہل پاکستان نے بالعموم اور اس کی دینی تنظیموں نے بالخصوص زور وشور سے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور اس میں خود مسلم لیگ کا اسلام پسند طبقہ بھی شامل تھا اور میاں امیر الدین کا شمار بھی اسی طبقہ میں ہوتا تھا۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ میں ایک روز ہائی کورٹ بار میں گیا تو مجھے وکلاء نے گھیر لیا۔ کہنے لگے میاں صاحب ! یہ آپ کیا غضب کر رہے ہیں کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ میاں صاحب نے ان سے کہا کہ آخر آپ کو اس میں شکایت کیا ہے ؟ کہنے لگے کہ آج کی روشنی کے زمانے میں ‘ اگر آپ صدیوں پہلے کا قانون نافذ کریں گے تو ہم مغربی دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اندازہ کیجئے کہ نفاذ اسلام کے راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ‘ یہ بےحمیتی ہے کہ اللہ ناراض ہوتا ہے تو بیشک ہوجائے ‘ لیکن مغربی دنیا کو ہم سے ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ ظفر علی خاں مرحوم نے اسی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا تم سمجھتے ہو پرایوں نے کیا ہم کو تباہ یوں تو شرم پیمبر ہے انھیں بھی لیکن بندہ پرور کہیں اپنوں کا یہ کام نہ ہو ان کو ڈر یہ ہے کہ ناراض کہیں ٹام نہ ہو یہ ٹام کی ناراضگی ‘ وہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے ‘ جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے کہا : وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللہ ُ اِلَیْکَ ط آپ ان اہل کتاب سے یعنی ٹام کی اولاد سے ہوشیار رہئے۔ کہیں آپ کو اللہ کی نازل کردہ شریعت سے پھسلا نہ دیں اور کسی فتنہ میں مبتلا نہ کردیں۔ جس بات سے ہوشیار رہنے کی ہمیں آگاہی بخشی گئی تھی ‘ افسوس یہ ہے کہ آج اسی بات نے ہمارا راستہ روک رکھا ہے۔ یہود کی بدنیتی کا انجام اس کے بعد ارشاد فرمایا : فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللہ ُ اَنْ یُّصِیْبَھُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِھِمْ ط یعنی اگر تمہاری تمام مخلصانہ کوششوں کے باوجود ‘ اہل کتاب اپنی روش سے باز نہیں آتے تو آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آپ کو اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ حق سے ان کی روگردانی ‘ بلکہ اہل حق کو بھی اس سے پھیرنے کی کوشش ‘ اصلاً ان کی بدنصیبی کا پیش خیمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کی محرومی کا فیصلہ کیا ‘ بلکہ یہ بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ انھیں ان کے کرتوتوں کی سزا دے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے تینوں قبیلے ‘ جو مدینہ طیبہ میں آباد تھے۔ اپنی اسی روش کے باعث ‘ اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوئے۔ جنگ بدر کے جلدی بعد ‘ بنو قینقاع کو شہر بدر کردیا گیا اور پھر ایک عرصہ کے بعد ‘ بنو نضیر بھی شہر سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ ان کے قلعے ‘ ان کی زمینیں ‘ ان کے کاروبار ‘ سب کچھ پیچھے رہ گیا اور یہ عبرت کی تصویر بنے ‘ خیبر میں جا کر آباد ہوگئے۔ سب سے آخر میں ‘ بنو قریظہ اپنے انجام کو پہنچے کہ جن کے بیشتر افراد کو قتل ہونا پڑا اور پہلے دو قبیلے جو خیبر میں جا کر بس گئے تھے ‘ وہاں بھی ان کی حق دشمنی کی عادت رک نہ سکی۔ بالآخر ان کو جزیرہ عرب سے نکال دیا گیا۔ یہ وہ سزا تھی جو اللہ کے قانون کے مطابق انھیں ملی کیونکہ اس کا قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر اتمام حجت کردی جاتی ہے اور پھر بھی وہ قوم راہ راست اختیار نہیں کرتی تو عام طور پر اس کے اجتماعی گناہوں کی سزا دنیا ہی میں اسے دے دی جاتی ہے۔ البتہ ! انفرادی اعمال کی سزا ‘ وہ قیامت میں پائیں گے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؎ فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ بھی بیان فرما دی کہ ہم نے ان لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیوں کیا فرمایا : وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ (یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں ) یعنی اللہ کی ہدایت سے باغی ہیں۔ انھیں ہر طرح سمجھا بجھا کے دیکھ لیا ہے لیکن ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ آیت کے اس ٹکڑے نے اگرچہ ان کی شقاوت کو پوری طرح نمایاں کردیا ہے۔ تاہم آخری بات مزید فرمائی جا رہی ہے ممکن ہے ان میں سے کوئی بھی اگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو تو شاید وہ اس پر غور کرے اور ہدایت کے راستے پر چل نکلے۔ اس لیے ارشاد فرمایا :
Top