Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 64
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ١ؕ غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا١ۘ بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ١ۙ یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُ١ؕ وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا١ؕ وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ؕ كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ١ۙ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ
وَقَالَتِ
: اور کہا (کہتے ہیں)
الْيَھُوْدُ
: یہود
يَدُاللّٰهِ
: اللہ کا ہاتھ
مَغْلُوْلَةٌ
: بندھا ہوا
غُلَّتْ
: باندھ دئیے جائیں
اَيْدِيْهِمْ
: ان کے ہاتھ
وَلُعِنُوْا
: اور ان پر لعنت کی گئی
بِمَا
: اس سے جو
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
بَلْ
: بلکہ
يَدٰهُ
: اس کے (اللہ کے) ہاتھ
مَبْسُوْطَتٰنِ
: کشادہ ہیں
يُنْفِقُ
: وہ خرچ کرتا ہے
كَيْفَ
: جیسے
يَشَآءُ
: وہ چاہتا ہے
وَلَيَزِيْدَنَّ
: اور ضرور بڑھے گی
كَثِيْرًا
: بہت سے
مِّنْهُمْ
: ان سے
مَّآ اُنْزِلَ
: جو نازل کیا گیا
اِلَيْكَ
: آپ کی طرف
مِنْ
: سے
رَّبِّكَ
: آپ کا رب
طُغْيَانًا
: سرکشی
وَّكُفْرًا
: اور کفر
وَاَلْقَيْنَا
: اور ہم نے ڈالدیا
بَيْنَهُمُ
: ان کے اندر
الْعَدَاوَةَ
: دشمنی
وَالْبَغْضَآءَ
: اور بغض (بیر
اِلٰي
: تک
يَوْمِ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کا دن
كُلَّمَآ
: جب کبھی
اَوْقَدُوْا
: بھڑکاتے ہیں
نَارًا
: آگ
لِّلْحَرْبِ
: لڑائی کی
اَطْفَاَهَا
: اسے بجھا دیتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
وَيَسْعَوْنَ
: اور وہ دوڑتے ہیں
فِي الْاَرْضِ
: زمین (ملک) میں
فَسَادًا
: فساد کرتے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
لَا يُحِبُّ
: پسند نہیں کرتا
الْمُفْسِدِيْنَ
: فساد کرنے والے
اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ہاتھ ان کے بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب سے ان پر لعنت ہو۔ بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ‘ وہ خرچ کرتا ہے ‘ جیسے چاہتا ہے۔ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھا رہی ہے ‘ جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔ جب جب یہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکائیں گے ‘ اللہ اس کو بجھا دے گا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللہِ مَغْلُوْلَۃٌ ط غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا م بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوطَتٰنِ لا یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ ط وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا ط وَاَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرَبِ اَطْفَاَھَا اللہ ُ ط وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَ اللہ ُ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ (المائدہ : 64) ” اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ہاتھ ان کے بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب سے ان پر لعنت ہو بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ‘ وہ خرچ کرتا ہے ‘ جیسے چاہتا ہے۔ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھا رہی ہے ‘ جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔ جب جب یہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکائیں گے ‘ اللہ اس کو بجھا دے گا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “۔ یہود پر اللہ کی لعنت اور دور حاضر میں اس کے اثرات دین اور شعائرِ دین کے ساتھ ان کے مذاق کی مثالیں گزشتہ آیات میں گزر چکی ہیں۔ ایک مثال اس آیت کریمہ میں ذکر کی جا رہی ہے کہ یہ بدبخت یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یعنی اللہ تنگ دست ہوگیا ہے۔ اب اس کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں رہا اور یا ہاتھ بندھا ہونا بخل سے کنایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ بخیل ہوگئے ہیں۔ یہ بات کہنے والے یہود میں دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک تو عوام تھے اور دوسرے خواص۔ عوام کا کہنا یہ تھا کہ ہم لوگ مدینہ طیبہ کے خوشحال اور متمول لوگ تھے ‘ اب اللہ نے ہمیں فقیر کردیا ہے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اوس و خزرج کو یہ لوگ لڑائیوں پر اکساتے رہتے اور جب لڑائی چھڑ جاتی تو وہ اسلحہ جنگ خریدنے کے لیے ان یہود سے قرض لیتے اور یہ ان کو بھاری سود پر قرض دیتے۔ اس طرح ان کا ساہوکاری کاروبار چلتا رہتا اور ان کی مالداری میں اضافہ ہوتا رہتا۔ جب سود کی رقم بڑھ جاتی تو بعض دفعہ ان کے باغات بھی یہ اپنے پاس گروی رکھ لیتے۔ اس طرح مدینہ کی دولت ان یہود کے پاس سمٹ آئی تھی اور یہ علاقے کا امیر ترین طبقہ بن گئے تھے۔ اسلام جب مدینہ طیبہ میں آیا۔ اوس و خزرج نے اسلام قبول کیا ‘ اللہ نے ان کے دلوں میں اسلام کی وجہ سے محبت پیدا کردی اور نفرتوں کی آگ ہمیشہ کے لیے سرد ہوگئی۔ باہمی محبت و پیار پیدا ہوجانے کے بعد لڑائیاں رک گئیں۔ اب انھیں یہود سے قرض لینے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ وہ اپنے وسائل میں رہ کر گزارا کرنے لگے بلکہ اللہ نے ایسی قناعت کی دولت دی کہ انھوں نے مہاجرین کا بوجھ بھی اٹھایا۔ اس صورت حال نے یہود کی مالی حالت کو پتلا کردیا۔ چناچہ اپنی اس مالی کمزوری کا سبب چونکہ یہود مدینہ طیبہ میں ورود اسلام کو سمجھتے تھے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گستاخیاں کرنے لگے کہ پہلے ہم دولت میں کھیلتے تھے ‘ اب پروردگار معلوم ہوتا ہے بخیل ہوگئے ہیں۔ انھوں نے ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اسی وجہ سے ہماری مالی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ دوسرا خواص کا طبقہ تھا۔ وہ اپنے خاص انداز میں بارگاہ حق میں گستاخی کا ارتکاب کرتا تھا۔ وہ جب یہ سنتے کہ رسول کریم ﷺ مسلمانوں کو صدقات واجبہ و نافلہ کی ترغیب دیتے اور انفاق فی سبیل اللہ پر ابھارتے ہیں۔ انھوں نے اس پر فقرے کسنے شروع کیے اور مسلمانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کی کوشش کی حالانکہ ایک واضح سی بات تھی کہ اس نوزائیدہ ریاست کے کاروبار کو چلانے اور جہاد و غزا کی ضرورتیں پوری کرنے اور پورے جزیرہ عرب سے آنے والے مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کے لیے ‘ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا جاتا اور پھر قرآن کریم میں پروردگار نے بھی اس کی ضرورت اور فضیلت پر آیات نازل فرمائیں اور اس میں تعبیر یہ اختیار فرمائی کہ لوگو ! تم میں کون اللہ کو قرض دے گا ؟ جو آج اللہ کو قرض دے گا وہ قیامت کے دن دگنا چوگنا واپس بھی پائے گا تو یہود کے طبقہ خواص نے اس تعبیر کو استہزاء کا نشانہ بنایا اور کہنے لگا کہ آج کل مسلمانوں کے اللہ میاں بہت غریب ہوگئے ہیں ‘ بندوں سے قرض مانگنے کی نوبت آگئی ہے۔ اللہ میاں غریب ہیں اور ہم بندے امیر۔ ایسی ہی بات کا تذکرہ سورة آل عمران میں بھی گزر چکا ‘ جس میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ان بدبختوں کی یہ بات سن لی ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں : اِنَّ اللہ َ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَائُ (آل عمران -181) ( اللہ فقیر ہے اور ہم غنی اور مالدار ہیں) ممکن ہے بعض ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ یہود کیسے بھی گئے گزرے ہوں ‘ بہرحال مسلمان تھے۔ اللہ کی عظمت کے قائل اور رسولوں پر ایمان لانے والے۔ ان سے یہ بات کیسے تصور کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کریم کی شان میں ایسی گستاخیوں کا ارتکاب کرسکتے تھے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر بگڑی ہوئی قوموں کے احوال ہماری نگاہ میں رہیں تو پھر ذہنوں میں یہ سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ پچھلی امتوں کے احوال کو تو چھوڑیئے ‘ خود اپنی ہی امت کو دیکھ لیجئے کہ ہمارے غریب لوگوں سے لے کر طبقہ امراء تک آپ کو بکثرت ایسے لوگ ملیں گے کہ جنھیں کبھی اگر کسی حادثے سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور کسی انہونی سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ نہ صرف گھبرا اٹھتے ہیں بلکہ اللہ رب العزت کے بارے میں وہ وہ باتیں کہتے ہیں ‘ جس کا ایک مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کسی کا اگر کوئی جوان بیٹا مرجائے یا کسی کی اولاد نہ ہوتی ہو تو ایسے بےاولاد والدین کا کبھی مرثیہ سنئے یا جوان بیٹے کی موت سے دوچار ہونے والے ماں باپ کے کبھی شکوے سماعت فرمایئے۔ اللہ رب العزت کے بارے میں اس طرح شکایات کا طومار باندھیں گے کہ آدمی شاید اپنے معمولی افسر کے بارے میں بھی اس طرح کی باتیں کہتا ہوا سو دفعہ جھجکتا ہے۔ ممکن ہے آپ یہ خیال فرمائیں کہ یہ باتیں جاہل لوگوں میں ہوں گی۔ تعلیم یافتہ لوگ تو ایسا نہیں کرسکتے۔ لیکن آپ ان تعلیم یافتہ لوگوں سے مل کر دیکھئے ‘ خاص طور پر وہ لوگ جو نو دولتیے ہیں۔ ان کو حالات کا معمولی دھچکا بھی ایمان اور شائستگی سے لاتعلق کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے بلکہ اگر انھیں یہ احساس ہوجائے کہ میں حالات کی گرفت سے کوئی کفر کر کے نکل سکتا ہوں تو اسے ایسا کرنے سے بھی دریغ نہیں ہوتا اور پھر یہ ان کا رویہ کسی ایک نکتہ پر موقوف نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ‘ رسول اللہ ﷺ کی شخصیت مقدسہ ‘ مسلمات دین اور شعائر اسلام میں سے کوئی ایک بھی تو ان کی زبان درازیوں سے بچا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے شاید ظفر علی خان مرحوم نے کہا تھا : تمسخر کرنے والے دین سے ہی گر مہذب ہیں تو ان تہذیب کے پتلوں سے مجھ جیسا گنوار اچھا اس لیے یہود کی ان گستاخیوں کا احوال پڑھتے ہوئے اگر اپنی اس امت کے حالات بھی پیش نظر رہیں تو پھر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ ! یہ ضرور ہے کہ اس طرح کی گستاخی کا ارتکاب یہود کرے یا کوئی اور یہ ایسا بڑا جرم ہے ‘ جس کا براہ راست جواب دینا بھی علم اور ایمان کی توہین ہے۔ اس لیے ان کی اس گستاخی کا براہ راست جواب ارشاد نہیں فرمایا بلکہ اس گستاخی پر انھیں لعنت کی پھٹکار ماری اور فرمایا : غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا ( ہاتھ ان کے بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب سے ان پر لعنت ہو) اس فوری لعنت اور پھٹکار کی وجہ یہ ہے کہ یہود نہ تو اللہ اور اس کی شان سے بیخبر تھے اور نہ دعوت انفاق کے اس بلیغ انداز سے ناواقف۔ وہ ہر چیز کو جانتے بوجھتے ہوئے اس طرح کی حرکتیں صرف اس لیے کر رہے تھے کہ قرآن اور پیغمبرِ اسلام کی عداوت میں ایسے اندھے بہرے ہوگئے تھے کہ تحقیر و استہزاء کا جو موقع بھی مل جاتا اس سے ضرور فائدہ اٹھاتے اور اس عمل کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ بات کہاں تک پہنچے گی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی اس گستاخی پر ان پر جو پھٹکار اور لعنت کی گئی اس کے اثرات تو متنوع قسم کے ہیں ‘ لیکن ایک اثر تو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ آج بنی اسرائیل اپنی ایک نام نہاد آزاد ریاست رکھتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی دنیا کی پشت پناہی سے ان کا ملک ایک مضبوط فوجی چھائونی کی صورت اختیار کر گیا ہے اور عرب دنیا میں ان کی حیثیت ایک ناسور سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور مغربی دنیا اور امریکہ میں ذرائع ابلاغ اور بعض کلیدی وسائل پر قبضہ کرنے کی وجہ سے ہر ملک میں ایک اہم حیثیت کے مالک ہیں۔ باایں ہمہ ! جن لوگوں کو انھیں قریب سے دیکھنے یا ان کے ہمسائے میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے ‘ وہ بتاتے ہیں کہ یہود قوم کا ایک ایک فرد اپنی ساری امارت اور مالداری کے باوجود اپنی خست و دنائت میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ وہ انتہائی مالدار ہوتے ہوئے بھی جس محلے میں رہتے ہیں ‘ اہل محلہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ کسی غریب کی مدد کرنا ‘ کسی ننگے کو کپڑا پہنانا اور کسی بھی رفاہی کام میں شرکت کرنا ‘ ان کی بنیادی سرشت کے خلاف ہے۔ وہ اپنے قومی مفادات اور گروہی تعصبات کے لیے بڑی سے بڑی رقم خرچ کرنے کو تیار ہوجائیں گے اور دوسری قوموں کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے کے لیے آپ ان سے کچھ بھی خرچ کروا لیجئے ‘ لیکن انسانیت کی بھلائی کے لیے آپ ان سے ایک دمڑی تک نہیں لے سکتے۔ یہ بخل اور خست جس کا الزام انھوں نے پروردگار کو دیا تھا ‘ اس طرح ان کی سرشت میں اتر گئی ہے کہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ان پر لعنت برسائی تھی ‘ وہ پوری طرح اس کی گرفت میں ہیں۔ اس کے بعد پروردگار نے ان کی بات کا جواب بھی دیا ہے اور اس کا سبب بھی بیان فرمایا ہے۔ فرمایا : اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں اور وہ جو چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ البتہ ! تم اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں اندھے اور بہرے ہو کر جس طرح گستاخیوں کا ارتکاب کر رہے ہو ‘ اس کا سبب تمہارا وہ حسد اور بغض ہے جو قرآن کریم کے نزول کی وجہ سے تمہارے اندر پیدا ہوگیا ہے کیونکہ بنی اسرائیل قرآن کریم کے نزول کی شکل میں اس کے طبعی نتائج کو دیکھ رہے تھے وہ جانتے تھے کہ عربوں کو قرآن کا ملنا ‘ صرف قرآن ہی کا ملنا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ امامت و سیادت بھی اب ان کی طرف منتقل ہو رہی ہے ‘ جس کے تنہا اجارہ دار اب تک وہ خود بنے بیٹھے تھے۔ اسی حسد نے ان کو اللہ کا باغی بنادیا اور اسی کے سبب سے ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عداوت اور کینہ کا بیج پڑگیا۔ لیکن مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب بھی جزیرۃ العرب میں موجودہ حالات میں کوئی فتنہ اٹھے گا تو اس فتنے کو اٹھانے اور مسلمانوں کے دشمنوں کو اکسانے میں سب سے زیادہ ہاتھ انھیں کا ہوگا۔ لیکن تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ یہ تو اپنی فطرت سے مجبور ہو کر سازشوں کے جال بچھاتے رہیں گے اور مسلمانوں کو بار بار لڑائی میں کھینچنے کی کوشش کریں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان فتنوں کی آگ کو ٹھنڈا کرتا رہے گا اور لڑائیوں کے جہنم کو بجھاتا رہے گا۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ کو جتنی بھی بڑی بڑی لڑائیاں لڑنا پڑیں ‘ ان تمام لڑائیوں کے پیچھے انہی یہود کا سازشی دماغ کارفرما تھا۔ لیکن پروردگار نے برابر مسلمانوں کی نصرت و اعانت فرمائی اور یہود کو بالآخر ذلیل و خوار ہو کر مدینے سے نکلنا پڑا یا اپنے انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ مزید فرمایا : وَیَسْعَوْنَ فِی الاَْرْضِ فَسَادًا ط وَ اللہ ُ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (یہ لوگ ہمیشہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں فرماتا) فساد کے لیے ان کی سرگرمی کی ایک صورت تو یہ تھی ‘ جس کا ابھی ذکر ہوا کہ وہ ہمیشہ دشمنان دین کو اکساتے تھے اور مسلمانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے تھے۔ لیکن فساد فی الارض کی جو اصل صورت ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اس کائنات میں دو نظام کارفرما ہیں۔ ایک نظام تکوینی ہے اور دوسرا تشریعی۔ اس دنیا میں اس وقت تک ہمواری اور سازگاری پیدا نہیں ہوسکتی ‘ جب تک نظام تکوینی اور نظام تشریعی پوری طرح ہم آہنگ نہ ہوں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کی بیشمار مخلوقات زمین و آسمان اور اس کے درمیان موجود ہیں ‘ لیکن اس پوری کائنات میں ہم کہیں بھی کوئی خرابی اور فساد محسوس نہیں کرتے۔ بڑے چھوٹے ہزاروں کرے آسمان کی وسعتوں میں محو پرواز ہیں ‘ لیکن ان میں کہیں تصادم نظر نہیں آتا۔ سورج کبھی چاند کے راستے میں حائل نہیں ہوتا ‘ چاند کبھی اپنا راستہ نہیں بدلتا ‘ شب و روز کے آنے میں کبھی تخلف نہیں ہوتا ‘ زمین کبھی اپنی قوت روئیدگی کے خزانے لٹانے میں پس وپیش نہیں کرتی ‘ ستارے روشنی دینے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے ‘ پھول خوشبو دینے میں ‘ کلی چٹکنے میں ‘ پانی بہنے میں ‘ ہوا چلنے میں ‘ پرندے اڑنے اور چہکنے میں ‘ سبزہ لہلہانے میں ‘ سایہ دار درخت سایہ دینے میں کبھی تساہل کا شکار نہیں ہوتے۔ سورج برابر اپنی تخلیق کے دن سے لے کر آج تک سمندر سے کرنوں کے ڈول بھر بھر کر فضائے آسمانی میں ابر کی چادریں بچھاتا ہے۔ ہوا انھیں لوریاں دیتی ہوئی برسنے کی جگہ پر پہنچاتی ہے ‘ بارش ایک قانون کے مطابق برستی ہے اور زمین ضرورت کے مطابق اسے نگلتی اور باقی اگل دیتی ہے۔ دانہ گندم ایک خاص انداز میں اگتا ‘ بڑھتا ‘ پروان چڑھتا اور ایک پودے کی شکل اختیار کرتا ہے ‘ حتیٰ کہ سات سو دانوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس قانونِ تکوین کے تحت یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہیں ‘ اس میں کبھی کمی بیشی واقع ہوجائے۔ مختصر یہ کہ پوری کائنات کا نظام جس قانون تکوین کے تحت چل رہا ہے ‘ کہیں بھی اس سے سرتابی نہیں ہوتی۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ اس سرتابی نہ ہونے اور مکمل اطاعت کی وجہ سے پورے نظام کائنات میں کہیں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ہم انسانی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ قدم قدم پر تنازعات ابھرتے ہیں ‘ حقوق متصادم ہوتے ہیں تلخیاں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ جان ‘ مال ‘ عزت ‘ آبرو کوئی چیز بھی اپنا یقینی تحفظ نہیں رکھتی۔ آدمی آدمی سے الجھ رہا ہے ‘ قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں ‘ کہیں خون بہہ رہا ہے ‘ کہیں عزتیں رسوا ہو رہی ہیں ‘ کہیں عفتوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ جنگل کی طرح طاقت اور قوت دنیا کا قانون بن چکی ہے۔ کسی کو کسی کے سامنے جواب دہی کا احساس نہیں۔ کوئی خبر نہیں کہ ان معمولات کا آخر نتیجہ کیا ہوگا۔ غور کیا جائے تو یہ ساری صورت حال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ جس طرح باقی کائنات ایک نظام کی مکمل اطاعت میں رہ کر عافیت و خیریت کے ساتھ زندگی کا سفر طے کر رہی ہے ‘ انسانیت اس کے برعکس بجائے قانون تشریع کی اطاعت کرنے اور اپنی خواہشات اور نفسانی آرزوئوں کو اسی قانون کے حوالے کر کے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنے کے ‘ مسلسل نافرمانی اور قانون کی پامالی کے ساتھ زندگی کا سفر طے کر رہی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ پوری کائنات کا سفر اطاعت کی جہت میں ہے اور نوع انسانی کا سفر اس کے برعکس عدم اطاعت اور نافرمانی کی منزل کی طرف ہے۔ جب کہ دونوں کا خالق ومالک ایک ہے۔ اس نے دونوں کی کامیابی اور کامرانی اپنی اور اپنے قوانین کی اطاعت میں رکھی ہے۔ لیکن جب یہ نظام تکوین اور نظام تشریع کا آپس میں تصادم ہوتا ہے اور کائنات اور نوع انسانی جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو ظاہر ہے کہ زمین کی برکتیں اٹھ جاتی ہیں۔ عناصر فطرت بجائے ہمارے ہم رکاب ہونے کے ‘ ہم سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ قدرت کی رحمتیں انسانوں سے منہ موڑ لیتی ہیں اور دنیا جنت بننے کی بجائے ‘ ایک دہکتا ہوا جہنم بن جاتی ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے ‘ جب بھی دنیا نے اس حقیقت کو سمجھ کر باقی کائنات کی طرح اپنے آپ کو اللہ کے قانون کی اطاعت میں دیا تو دیکھتے ہی دیکھتے انسانی زندگی میں بجائے دکھوں کے آسودگی کے ‘ سائے گہرے ہوگئے۔ بجائے نفرت و عداوت کے شعلے اگلنے کے ‘ یہ دھرتی آشتی اور محبت کے پھول اگانے لگی۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد جس طرح زمین اور اہل زمین کی حالت بدلی ‘ وہ اسی حقیقت کی عکاس ہے۔ آنحضرت ﷺ نے دعوت کے آغاز ہی میں اس بات کو واضح کردیا تھا کہ لوگو ! اگر تم مجھ پر ایمان لا کر اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت میں دے دو تو تم دیکھو گے آج جب کہ کوئی قافلہ بھی خیریت سے سفر نہیں کرسکتا ‘ ایک شخص ملک کے ایک کونے سے سونا اچھالتا ہوا ملک کے دوسرے کونے تک سفر کرے گا ‘ لیکن راستے میں کوئی اسے میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ آج جبکہ تمہارے گھروں میں بھوک اور فاقوں کے پہرے ہیں ‘ ایک وقت کھانا ملتا ہے تو دوسرے وقت نصیب نہیں ہوتا۔ اللہ کی اطاعت کی برکت سے وہ وقت آئے گا کہ تم جھولیوں میں زکوٰۃ کا مال لے کر زکوٰۃ لینے والوں کو تلاش کرنے نکلو گے ‘ لیکن تمہیں زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔ اللہ اپنی زمین پر محض اس دین کی برکت سے تمہیں ایسا غلبہ نصیب فرمائے گا کہ زمین کی بیشتر آبادی تمہارے زیر نگیں ہوگی۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ان میں سے ایک ایک بات سچ ثابت ہوئی اور انسانوں نے ان ساری تبدیلیوں کو بچشم سر دیکھا۔ قرآن کریم یہاں اسی بات کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ یہود کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر انسانوں میں اللہ کا قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے تھے۔ اللہ نے ان کو حامل دعوت امت بنایا تھا ‘ تاکہ وہ اعلائے کلمۃ الحق اور شہادت حق کا فریضہ انجام دیں۔ لیکن انھوں نے خود نافرمانی کی اور نافرمانی پر مبنی قانون کو رواج دے کر اللہ کی زمین کو فساد سے بھر دیا۔ یہ اہل کتاب اگرچہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اور اپنے یہاں اللہ کے دین کا پاکیزہ ورثہ بھی رکھتے ہیں ‘ لیکن اللہ کو نسبتیں عزیز نہیں ‘ بلکہ اپنی اطاعت پر مبنی عمل عزیز ہے۔ اس لیے ان کا ماضی کچھ بھی رہا ہو ‘ اب یہ مفسدین میں شامل ہیں اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ مفسدین سے نہیں ‘ مصلحین سے محبت رکھتا ہے۔ اگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کو دوبارہ اللہ کے یہاں عزت کا مقام نصیب ہو تو پھر ان کے لیے ایک آخری موقع ہے ‘ جس کا اگلی آیت کریمہ میں ذکر کیا جا رہا ہے :
Top