Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 64
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ١ؕ غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا١ۘ بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ١ۙ یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُ١ؕ وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا١ؕ وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ؕ كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ١ۙ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا (کہتے ہیں) الْيَھُوْدُ : یہود يَدُاللّٰهِ : اللہ کا ہاتھ مَغْلُوْلَةٌ : بندھا ہوا غُلَّتْ : باندھ دئیے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَلُعِنُوْا : اور ان پر لعنت کی گئی بِمَا : اس سے جو قَالُوْا : انہوں نے کہا بَلْ : بلکہ يَدٰهُ : اس کے (اللہ کے) ہاتھ مَبْسُوْطَتٰنِ : کشادہ ہیں يُنْفِقُ : وہ خرچ کرتا ہے كَيْفَ : جیسے يَشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَيَزِيْدَنَّ : اور ضرور بڑھے گی كَثِيْرًا : بہت سے مِّنْهُمْ : ان سے مَّآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : آپ کا رب طُغْيَانًا : سرکشی وَّكُفْرًا : اور کفر وَاَلْقَيْنَا : اور ہم نے ڈالدیا بَيْنَهُمُ : ان کے اندر الْعَدَاوَةَ : دشمنی وَالْبَغْضَآءَ : اور بغض (بیر اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن كُلَّمَآ : جب کبھی اَوْقَدُوْا : بھڑکاتے ہیں نَارًا : آگ لِّلْحَرْبِ : لڑائی کی اَطْفَاَهَا : اسے بجھا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَيَسْعَوْنَ : اور وہ دوڑتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرتے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ہاتھ ان کے بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب سے ان پر لعنت ہو۔ بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ‘ وہ خرچ کرتا ہے ‘ جیسے چاہتا ہے۔ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھا رہی ہے ‘ جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔ جب جب یہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکائیں گے ‘ اللہ اس کو بجھا دے گا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللہِ مَغْلُوْلَۃٌ ط غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا م بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوطَتٰنِ لا یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ ط وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا ط وَاَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرَبِ اَطْفَاَھَا اللہ ُ ط وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَ اللہ ُ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ (المائدہ : 64) ” اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ہاتھ ان کے بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب سے ان پر لعنت ہو بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ‘ وہ خرچ کرتا ہے ‘ جیسے چاہتا ہے۔ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھا رہی ہے ‘ جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔ جب جب یہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکائیں گے ‘ اللہ اس کو بجھا دے گا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “۔ یہود پر اللہ کی لعنت اور دور حاضر میں اس کے اثرات دین اور شعائرِ دین کے ساتھ ان کے مذاق کی مثالیں گزشتہ آیات میں گزر چکی ہیں۔ ایک مثال اس آیت کریمہ میں ذکر کی جا رہی ہے کہ یہ بدبخت یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یعنی اللہ تنگ دست ہوگیا ہے۔ اب اس کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں رہا اور یا ہاتھ بندھا ہونا بخل سے کنایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ بخیل ہوگئے ہیں۔ یہ بات کہنے والے یہود میں دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک تو عوام تھے اور دوسرے خواص۔ عوام کا کہنا یہ تھا کہ ہم لوگ مدینہ طیبہ کے خوشحال اور متمول لوگ تھے ‘ اب اللہ نے ہمیں فقیر کردیا ہے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اوس و خزرج کو یہ لوگ لڑائیوں پر اکساتے رہتے اور جب لڑائی چھڑ جاتی تو وہ اسلحہ جنگ خریدنے کے لیے ان یہود سے قرض لیتے اور یہ ان کو بھاری سود پر قرض دیتے۔ اس طرح ان کا ساہوکاری کاروبار چلتا رہتا اور ان کی مالداری میں اضافہ ہوتا رہتا۔ جب سود کی رقم بڑھ جاتی تو بعض دفعہ ان کے باغات بھی یہ اپنے پاس گروی رکھ لیتے۔ اس طرح مدینہ کی دولت ان یہود کے پاس سمٹ آئی تھی اور یہ علاقے کا امیر ترین طبقہ بن گئے تھے۔ اسلام جب مدینہ طیبہ میں آیا۔ اوس و خزرج نے اسلام قبول کیا ‘ اللہ نے ان کے دلوں میں اسلام کی وجہ سے محبت پیدا کردی اور نفرتوں کی آگ ہمیشہ کے لیے سرد ہوگئی۔ باہمی محبت و پیار پیدا ہوجانے کے بعد لڑائیاں رک گئیں۔ اب انھیں یہود سے قرض لینے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ وہ اپنے وسائل میں رہ کر گزارا کرنے لگے بلکہ اللہ نے ایسی قناعت کی دولت دی کہ انھوں نے مہاجرین کا بوجھ بھی اٹھایا۔ اس صورت حال نے یہود کی مالی حالت کو پتلا کردیا۔ چناچہ اپنی اس مالی کمزوری کا سبب چونکہ یہود مدینہ طیبہ میں ورود اسلام کو سمجھتے تھے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گستاخیاں کرنے لگے کہ پہلے ہم دولت میں کھیلتے تھے ‘ اب پروردگار معلوم ہوتا ہے بخیل ہوگئے ہیں۔ انھوں نے ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اسی وجہ سے ہماری مالی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ دوسرا خواص کا طبقہ تھا۔ وہ اپنے خاص انداز میں بارگاہ حق میں گستاخی کا ارتکاب کرتا تھا۔ وہ جب یہ سنتے کہ رسول کریم ﷺ مسلمانوں کو صدقات واجبہ و نافلہ کی ترغیب دیتے اور انفاق فی سبیل اللہ پر ابھارتے ہیں۔ انھوں نے اس پر فقرے کسنے شروع کیے اور مسلمانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کی کوشش کی حالانکہ ایک واضح سی بات تھی کہ اس نوزائیدہ ریاست کے کاروبار کو چلانے اور جہاد و غزا کی ضرورتیں پوری کرنے اور پورے جزیرہ عرب سے آنے والے مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کے لیے ‘ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا جاتا اور پھر قرآن کریم میں پروردگار نے بھی اس کی ضرورت اور فضیلت پر آیات نازل فرمائیں اور اس میں تعبیر یہ اختیار فرمائی کہ لوگو ! تم میں کون اللہ کو قرض دے گا ؟ جو آج اللہ کو قرض دے گا وہ قیامت کے دن دگنا چوگنا واپس بھی پائے گا تو یہود کے طبقہ خواص نے اس تعبیر کو استہزاء کا نشانہ بنایا اور کہنے لگا کہ آج کل مسلمانوں کے اللہ میاں بہت غریب ہوگئے ہیں ‘ بندوں سے قرض مانگنے کی نوبت آگئی ہے۔ اللہ میاں غریب ہیں اور ہم بندے امیر۔ ایسی ہی بات کا تذکرہ سورة آل عمران میں بھی گزر چکا ‘ جس میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ان بدبختوں کی یہ بات سن لی ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں : اِنَّ اللہ َ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَائُ (آل عمران -181) ( اللہ فقیر ہے اور ہم غنی اور مالدار ہیں) ممکن ہے بعض ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ یہود کیسے بھی گئے گزرے ہوں ‘ بہرحال مسلمان تھے۔ اللہ کی عظمت کے قائل اور رسولوں پر ایمان لانے والے۔ ان سے یہ بات کیسے تصور کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کریم کی شان میں ایسی گستاخیوں کا ارتکاب کرسکتے تھے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر بگڑی ہوئی قوموں کے احوال ہماری نگاہ میں رہیں تو پھر ذہنوں میں یہ سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ پچھلی امتوں کے احوال کو تو چھوڑیئے ‘ خود اپنی ہی امت کو دیکھ لیجئے کہ ہمارے غریب لوگوں سے لے کر طبقہ امراء تک آپ کو بکثرت ایسے لوگ ملیں گے کہ جنھیں کبھی اگر کسی حادثے سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور کسی انہونی سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ نہ صرف گھبرا اٹھتے ہیں بلکہ اللہ رب العزت کے بارے میں وہ وہ باتیں کہتے ہیں ‘ جس کا ایک مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کسی کا اگر کوئی جوان بیٹا مرجائے یا کسی کی اولاد نہ ہوتی ہو تو ایسے بےاولاد والدین کا کبھی مرثیہ سنئے یا جوان بیٹے کی موت سے دوچار ہونے والے ماں باپ کے کبھی شکوے سماعت فرمایئے۔ اللہ رب العزت کے بارے میں اس طرح شکایات کا طومار باندھیں گے کہ آدمی شاید اپنے معمولی افسر کے بارے میں بھی اس طرح کی باتیں کہتا ہوا سو دفعہ جھجکتا ہے۔ ممکن ہے آپ یہ خیال فرمائیں کہ یہ باتیں جاہل لوگوں میں ہوں گی۔ تعلیم یافتہ لوگ تو ایسا نہیں کرسکتے۔ لیکن آپ ان تعلیم یافتہ لوگوں سے مل کر دیکھئے ‘ خاص طور پر وہ لوگ جو نو دولتیے ہیں۔ ان کو حالات کا معمولی دھچکا بھی ایمان اور شائستگی سے لاتعلق کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے بلکہ اگر انھیں یہ احساس ہوجائے کہ میں حالات کی گرفت سے کوئی کفر کر کے نکل سکتا ہوں تو اسے ایسا کرنے سے بھی دریغ نہیں ہوتا اور پھر یہ ان کا رویہ کسی ایک نکتہ پر موقوف نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ‘ رسول اللہ ﷺ کی شخصیت مقدسہ ‘ مسلمات دین اور شعائر اسلام میں سے کوئی ایک بھی تو ان کی زبان درازیوں سے بچا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے شاید ظفر علی خان مرحوم نے کہا تھا : تمسخر کرنے والے دین سے ہی گر مہذب ہیں تو ان تہذیب کے پتلوں سے مجھ جیسا گنوار اچھا اس لیے یہود کی ان گستاخیوں کا احوال پڑھتے ہوئے اگر اپنی اس امت کے حالات بھی پیش نظر رہیں تو پھر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ ! یہ ضرور ہے کہ اس طرح کی گستاخی کا ارتکاب یہود کرے یا کوئی اور یہ ایسا بڑا جرم ہے ‘ جس کا براہ راست جواب دینا بھی علم اور ایمان کی توہین ہے۔ اس لیے ان کی اس گستاخی کا براہ راست جواب ارشاد نہیں فرمایا بلکہ اس گستاخی پر انھیں لعنت کی پھٹکار ماری اور فرمایا : غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا ( ہاتھ ان کے بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب سے ان پر لعنت ہو) اس فوری لعنت اور پھٹکار کی وجہ یہ ہے کہ یہود نہ تو اللہ اور اس کی شان سے بیخبر تھے اور نہ دعوت انفاق کے اس بلیغ انداز سے ناواقف۔ وہ ہر چیز کو جانتے بوجھتے ہوئے اس طرح کی حرکتیں صرف اس لیے کر رہے تھے کہ قرآن اور پیغمبرِ اسلام کی عداوت میں ایسے اندھے بہرے ہوگئے تھے کہ تحقیر و استہزاء کا جو موقع بھی مل جاتا اس سے ضرور فائدہ اٹھاتے اور اس عمل کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ بات کہاں تک پہنچے گی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی اس گستاخی پر ان پر جو پھٹکار اور لعنت کی گئی اس کے اثرات تو متنوع قسم کے ہیں ‘ لیکن ایک اثر تو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ آج بنی اسرائیل اپنی ایک نام نہاد آزاد ریاست رکھتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی دنیا کی پشت پناہی سے ان کا ملک ایک مضبوط فوجی چھائونی کی صورت اختیار کر گیا ہے اور عرب دنیا میں ان کی حیثیت ایک ناسور سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور مغربی دنیا اور امریکہ میں ذرائع ابلاغ اور بعض کلیدی وسائل پر قبضہ کرنے کی وجہ سے ہر ملک میں ایک اہم حیثیت کے مالک ہیں۔ باایں ہمہ ! جن لوگوں کو انھیں قریب سے دیکھنے یا ان کے ہمسائے میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے ‘ وہ بتاتے ہیں کہ یہود قوم کا ایک ایک فرد اپنی ساری امارت اور مالداری کے باوجود اپنی خست و دنائت میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ وہ انتہائی مالدار ہوتے ہوئے بھی جس محلے میں رہتے ہیں ‘ اہل محلہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ کسی غریب کی مدد کرنا ‘ کسی ننگے کو کپڑا پہنانا اور کسی بھی رفاہی کام میں شرکت کرنا ‘ ان کی بنیادی سرشت کے خلاف ہے۔ وہ اپنے قومی مفادات اور گروہی تعصبات کے لیے بڑی سے بڑی رقم خرچ کرنے کو تیار ہوجائیں گے اور دوسری قوموں کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے کے لیے آپ ان سے کچھ بھی خرچ کروا لیجئے ‘ لیکن انسانیت کی بھلائی کے لیے آپ ان سے ایک دمڑی تک نہیں لے سکتے۔ یہ بخل اور خست جس کا الزام انھوں نے پروردگار کو دیا تھا ‘ اس طرح ان کی سرشت میں اتر گئی ہے کہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ان پر لعنت برسائی تھی ‘ وہ پوری طرح اس کی گرفت میں ہیں۔ اس کے بعد پروردگار نے ان کی بات کا جواب بھی دیا ہے اور اس کا سبب بھی بیان فرمایا ہے۔ فرمایا : اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں اور وہ جو چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ البتہ ! تم اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں اندھے اور بہرے ہو کر جس طرح گستاخیوں کا ارتکاب کر رہے ہو ‘ اس کا سبب تمہارا وہ حسد اور بغض ہے جو قرآن کریم کے نزول کی وجہ سے تمہارے اندر پیدا ہوگیا ہے کیونکہ بنی اسرائیل قرآن کریم کے نزول کی شکل میں اس کے طبعی نتائج کو دیکھ رہے تھے وہ جانتے تھے کہ عربوں کو قرآن کا ملنا ‘ صرف قرآن ہی کا ملنا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ امامت و سیادت بھی اب ان کی طرف منتقل ہو رہی ہے ‘ جس کے تنہا اجارہ دار اب تک وہ خود بنے بیٹھے تھے۔ اسی حسد نے ان کو اللہ کا باغی بنادیا اور اسی کے سبب سے ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عداوت اور کینہ کا بیج پڑگیا۔ لیکن مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب بھی جزیرۃ العرب میں موجودہ حالات میں کوئی فتنہ اٹھے گا تو اس فتنے کو اٹھانے اور مسلمانوں کے دشمنوں کو اکسانے میں سب سے زیادہ ہاتھ انھیں کا ہوگا۔ لیکن تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ یہ تو اپنی فطرت سے مجبور ہو کر سازشوں کے جال بچھاتے رہیں گے اور مسلمانوں کو بار بار لڑائی میں کھینچنے کی کوشش کریں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان فتنوں کی آگ کو ٹھنڈا کرتا رہے گا اور لڑائیوں کے جہنم کو بجھاتا رہے گا۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ کو جتنی بھی بڑی بڑی لڑائیاں لڑنا پڑیں ‘ ان تمام لڑائیوں کے پیچھے انہی یہود کا سازشی دماغ کارفرما تھا۔ لیکن پروردگار نے برابر مسلمانوں کی نصرت و اعانت فرمائی اور یہود کو بالآخر ذلیل و خوار ہو کر مدینے سے نکلنا پڑا یا اپنے انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ مزید فرمایا : وَیَسْعَوْنَ فِی الاَْرْضِ فَسَادًا ط وَ اللہ ُ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (یہ لوگ ہمیشہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں فرماتا) فساد کے لیے ان کی سرگرمی کی ایک صورت تو یہ تھی ‘ جس کا ابھی ذکر ہوا کہ وہ ہمیشہ دشمنان دین کو اکساتے تھے اور مسلمانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے تھے۔ لیکن فساد فی الارض کی جو اصل صورت ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اس کائنات میں دو نظام کارفرما ہیں۔ ایک نظام تکوینی ہے اور دوسرا تشریعی۔ اس دنیا میں اس وقت تک ہمواری اور سازگاری پیدا نہیں ہوسکتی ‘ جب تک نظام تکوینی اور نظام تشریعی پوری طرح ہم آہنگ نہ ہوں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کی بیشمار مخلوقات زمین و آسمان اور اس کے درمیان موجود ہیں ‘ لیکن اس پوری کائنات میں ہم کہیں بھی کوئی خرابی اور فساد محسوس نہیں کرتے۔ بڑے چھوٹے ہزاروں کرے آسمان کی وسعتوں میں محو پرواز ہیں ‘ لیکن ان میں کہیں تصادم نظر نہیں آتا۔ سورج کبھی چاند کے راستے میں حائل نہیں ہوتا ‘ چاند کبھی اپنا راستہ نہیں بدلتا ‘ شب و روز کے آنے میں کبھی تخلف نہیں ہوتا ‘ زمین کبھی اپنی قوت روئیدگی کے خزانے لٹانے میں پس وپیش نہیں کرتی ‘ ستارے روشنی دینے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے ‘ پھول خوشبو دینے میں ‘ کلی چٹکنے میں ‘ پانی بہنے میں ‘ ہوا چلنے میں ‘ پرندے اڑنے اور چہکنے میں ‘ سبزہ لہلہانے میں ‘ سایہ دار درخت سایہ دینے میں کبھی تساہل کا شکار نہیں ہوتے۔ سورج برابر اپنی تخلیق کے دن سے لے کر آج تک سمندر سے کرنوں کے ڈول بھر بھر کر فضائے آسمانی میں ابر کی چادریں بچھاتا ہے۔ ہوا انھیں لوریاں دیتی ہوئی برسنے کی جگہ پر پہنچاتی ہے ‘ بارش ایک قانون کے مطابق برستی ہے اور زمین ضرورت کے مطابق اسے نگلتی اور باقی اگل دیتی ہے۔ دانہ گندم ایک خاص انداز میں اگتا ‘ بڑھتا ‘ پروان چڑھتا اور ایک پودے کی شکل اختیار کرتا ہے ‘ حتیٰ کہ سات سو دانوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس قانونِ تکوین کے تحت یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہیں ‘ اس میں کبھی کمی بیشی واقع ہوجائے۔ مختصر یہ کہ پوری کائنات کا نظام جس قانون تکوین کے تحت چل رہا ہے ‘ کہیں بھی اس سے سرتابی نہیں ہوتی۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ اس سرتابی نہ ہونے اور مکمل اطاعت کی وجہ سے پورے نظام کائنات میں کہیں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ہم انسانی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ قدم قدم پر تنازعات ابھرتے ہیں ‘ حقوق متصادم ہوتے ہیں تلخیاں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ جان ‘ مال ‘ عزت ‘ آبرو کوئی چیز بھی اپنا یقینی تحفظ نہیں رکھتی۔ آدمی آدمی سے الجھ رہا ہے ‘ قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں ‘ کہیں خون بہہ رہا ہے ‘ کہیں عزتیں رسوا ہو رہی ہیں ‘ کہیں عفتوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ جنگل کی طرح طاقت اور قوت دنیا کا قانون بن چکی ہے۔ کسی کو کسی کے سامنے جواب دہی کا احساس نہیں۔ کوئی خبر نہیں کہ ان معمولات کا آخر نتیجہ کیا ہوگا۔ غور کیا جائے تو یہ ساری صورت حال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ جس طرح باقی کائنات ایک نظام کی مکمل اطاعت میں رہ کر عافیت و خیریت کے ساتھ زندگی کا سفر طے کر رہی ہے ‘ انسانیت اس کے برعکس بجائے قانون تشریع کی اطاعت کرنے اور اپنی خواہشات اور نفسانی آرزوئوں کو اسی قانون کے حوالے کر کے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنے کے ‘ مسلسل نافرمانی اور قانون کی پامالی کے ساتھ زندگی کا سفر طے کر رہی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ پوری کائنات کا سفر اطاعت کی جہت میں ہے اور نوع انسانی کا سفر اس کے برعکس عدم اطاعت اور نافرمانی کی منزل کی طرف ہے۔ جب کہ دونوں کا خالق ومالک ایک ہے۔ اس نے دونوں کی کامیابی اور کامرانی اپنی اور اپنے قوانین کی اطاعت میں رکھی ہے۔ لیکن جب یہ نظام تکوین اور نظام تشریع کا آپس میں تصادم ہوتا ہے اور کائنات اور نوع انسانی جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو ظاہر ہے کہ زمین کی برکتیں اٹھ جاتی ہیں۔ عناصر فطرت بجائے ہمارے ہم رکاب ہونے کے ‘ ہم سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ قدرت کی رحمتیں انسانوں سے منہ موڑ لیتی ہیں اور دنیا جنت بننے کی بجائے ‘ ایک دہکتا ہوا جہنم بن جاتی ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے ‘ جب بھی دنیا نے اس حقیقت کو سمجھ کر باقی کائنات کی طرح اپنے آپ کو اللہ کے قانون کی اطاعت میں دیا تو دیکھتے ہی دیکھتے انسانی زندگی میں بجائے دکھوں کے آسودگی کے ‘ سائے گہرے ہوگئے۔ بجائے نفرت و عداوت کے شعلے اگلنے کے ‘ یہ دھرتی آشتی اور محبت کے پھول اگانے لگی۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد جس طرح زمین اور اہل زمین کی حالت بدلی ‘ وہ اسی حقیقت کی عکاس ہے۔ آنحضرت ﷺ نے دعوت کے آغاز ہی میں اس بات کو واضح کردیا تھا کہ لوگو ! اگر تم مجھ پر ایمان لا کر اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت میں دے دو تو تم دیکھو گے آج جب کہ کوئی قافلہ بھی خیریت سے سفر نہیں کرسکتا ‘ ایک شخص ملک کے ایک کونے سے سونا اچھالتا ہوا ملک کے دوسرے کونے تک سفر کرے گا ‘ لیکن راستے میں کوئی اسے میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ آج جبکہ تمہارے گھروں میں بھوک اور فاقوں کے پہرے ہیں ‘ ایک وقت کھانا ملتا ہے تو دوسرے وقت نصیب نہیں ہوتا۔ اللہ کی اطاعت کی برکت سے وہ وقت آئے گا کہ تم جھولیوں میں زکوٰۃ کا مال لے کر زکوٰۃ لینے والوں کو تلاش کرنے نکلو گے ‘ لیکن تمہیں زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔ اللہ اپنی زمین پر محض اس دین کی برکت سے تمہیں ایسا غلبہ نصیب فرمائے گا کہ زمین کی بیشتر آبادی تمہارے زیر نگیں ہوگی۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ان میں سے ایک ایک بات سچ ثابت ہوئی اور انسانوں نے ان ساری تبدیلیوں کو بچشم سر دیکھا۔ قرآن کریم یہاں اسی بات کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ یہود کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر انسانوں میں اللہ کا قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے تھے۔ اللہ نے ان کو حامل دعوت امت بنایا تھا ‘ تاکہ وہ اعلائے کلمۃ الحق اور شہادت حق کا فریضہ انجام دیں۔ لیکن انھوں نے خود نافرمانی کی اور نافرمانی پر مبنی قانون کو رواج دے کر اللہ کی زمین کو فساد سے بھر دیا۔ یہ اہل کتاب اگرچہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اور اپنے یہاں اللہ کے دین کا پاکیزہ ورثہ بھی رکھتے ہیں ‘ لیکن اللہ کو نسبتیں عزیز نہیں ‘ بلکہ اپنی اطاعت پر مبنی عمل عزیز ہے۔ اس لیے ان کا ماضی کچھ بھی رہا ہو ‘ اب یہ مفسدین میں شامل ہیں اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ مفسدین سے نہیں ‘ مصلحین سے محبت رکھتا ہے۔ اگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کو دوبارہ اللہ کے یہاں عزت کا مقام نصیب ہو تو پھر ان کے لیے ایک آخری موقع ہے ‘ جس کا اگلی آیت کریمہ میں ذکر کیا جا رہا ہے :
Top