Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 8
اِنَّكُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍۙ
اِنَّكُمْ : بیشک تم لَفِيْ : البتہ میں قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ : بات جھگڑنے والی
بیشک تم ایک دوسرے سے مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو
اِنَّـکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ۔ (الذریٰت : 8) (بےشک تم ایک دوسرے سے مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو۔ ) یہ جوابِ قسم ہے یہ قسم کا جوابِ قسم ہے۔ کہنا یہ ہے کہ ان مخالفین نے قیامت اور جزاء و سزا کے بارے میں جو مختلف خیالات بنا رکھے ہیں اور جو اس سلسلے میں مختلف باتیں ان کی طرف سے کہی جاتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ تضادفکر میں بھی مبتلا ہیں اور تضادقول میں بھی۔ کیونکہ یہ لوگ ایک ہی بات کے قائل نہیں تھے۔ کچھ لوگ تو ایسے تھے جو قیامت کے کھلے منکر تھے۔ اور کچھ لوگ تھے جنھیں قیامت کے اقرار و انکار میں تذبذب تھا۔ نہ صریح انکار کرتے نہ اور نہ صریح اقرار کرتے تھے، بلکہ اس کو مستبعداز عقل سمجھتے تھے۔ اور بہت سے لوگ ایسے تھے جو قیامت کو بعیداز امکان تو نہیں سمجھتے تھے لیکن جزاء و سزا کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جن لوگوں کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کر رکھا ہے اور جنھیں وہ اپنا شفیع سمجھتے ہیں وہ انھیں قیامت کے روز ہر طرح کی سزا سے بچا لیں گے۔ عربوں کے علاوہ باقی دنیا میں فکری تضاد کی اور بہت سی صورتیں تھیں لیکن عرب ان سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ اس لیے ان کے ان متضاد افکار اور ان پر مبنی متضاد اقوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے اقوال کی اگر کوئی علمی حیثیت ہوتی تو کوئی نہ کوئی ان کی سند ہوتی اور یہ اس پر اتفاق کرلیتے۔ لیکن ہر شخص کا قیاس و گمان کے نتیجے میں ایک مختلف بات کہنا ایسا ہی ہے جیسے آسمان کی طرف دیکھنے والے کو مختلف شکلیں دکھائی دیتی ہیں جن کی باہم کوئی حقیقت نہیں۔
Top