Ruh-ul-Quran - At-Tur : 19
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓئًۢا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَۙ
كُلُوْا : کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو هَنِيْٓئًۢا : مزے سے بِمَا : بوجہ اس کے جو كُنْتُمْ : تھے تم تَعْمَلُوْنَ : تم عمل کرتے
(ان سے کہا جائے گا) کہ کھائو اور پیو رچتا ہوا، اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو
کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ھَنِٓیْئًا م بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔ (الطور : 19) (ان سے کہا جائے گا) کہ کھائو اور پیو رچتا ہوا، اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ ) مہمانوں کی قدر افزائی اہلِ جنت کی حیثیت چونکہ مہمانوں کی بھی ہوگی اور جنت کے مالکوں کی بھی۔ لیکن جنت کی بےپایاں نعمتیں دیکھ کر طبیعتوں میں ایک ہچکچاہٹ ضرور ہوگی کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں جنت کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں لیکن یہ ان کا بےپایاں اور بیشمار ہونا یہ ایک ایسا انعام ہے جو ہمیں حیرت میں مبتلا کیے جارہا ہے۔ اس لیے ان کی اس ہچکچاہٹ اور حیرت کو دور کرنے کے لیے فرمایا جائے گا کہ یہ سب نعمتیں تمہارے لیے ہیں۔ اب جس طرح چاہو، جتنا چاہو اور جب چاہو کھائو پیو۔ تمہیں ان نعمتوں کے حصول کے لیے نہ کوئی محنت کرنا ہوگی، نہ تمہیں ان نعمتوں کے چھن جانے کا اندیشہ ہونا چاہیے۔ پھر ان میں سے کوئی نعمت ایسی نہیں جو کبھی ختم ہوجائے اور پھر ان کے حصول کے لیے تمہیں کسی کا احسان نہیں لینا پڑے گا بلکہ تمہیں جس چیز کی خواہش ہوگی وہ چیز تمہارے سامنے حاضر ہوجائے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کا مزید احسان یہ ہے کہ اس نے یہ سب کچھ اپنے فضل و کرم سے عطا فرمایا ہے لیکن تأثر یہ دیا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اعمال کا صلہ ہے۔ اور ہماری کمائی کا ثمرہ ہے۔ دنیا میں قیمتی سے قیمتی نعمت بھی اگر بےمحابا طریقے سے استعمال کی جائے تو عموماً نقصان دیتی ہے۔ پیٹ میں گرانی پیدا کرتی ہے، بعض دفعہ سوئِ ہضم لاحق ہوجاتا ہے۔ لیکن جنت کی نعمتیں ان تمام آلائشوں سے پاک ہوں گی۔ بلکہ وہاں ایسا بھی نہیں ہوگا کہ غذا کسی قسم کی غلاظت پیدا کرے۔ آدمی ہرحال میں سبک اور توانا ہوگا۔ ھَنِیٔ فعیل کے وزن پر صفت ہے۔ اس کے معنی ہیں راس آنے والی چیز۔ ہم نے اسی کا لحاظ کرتے ہوئے اس کا ترجمہ رچتا ہوا کیا ہے۔
Top