Tafseer-al-Kitaab - Adh-Dhaariyat : 44
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى
اِنَّ الَّذِيْنَ : یشک وہ لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ : جو ایمان نہیں لاتے آخرت پر لَيُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ : البتہ وہ نام رکھتے ہیں فرشتوں کے تَسْمِيَةَ الْاُنْثٰى : نام عورتوں والے
بیشک جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان ہی نے فرشتوں کے نام عورتوں کے نام پر رکھ چھوڑے ہیں
اِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ لَـیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنْثٰی۔ (النجم : 27) (بےشک جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان ہی نے فرشتوں کے نام عورتوں کے نام پر رکھ چھوڑے ہیں۔ ) شرک کی بےسروپا باتیں کرنے والے کون ہیں ؟ اب اس بات کی وجہ بیان کی جارہی ہے کہ آخر ایسی بےسروپا باتیں کون اختیار کرتا ہے اور کس نے ایسی نامعقول باتوں کا آغاز کیا ہے۔ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینا اور انھیں مؤنث ٹھہرانا اور اپنے لیے بیٹیوں کو ذلت کا باعث سمجھنا ایسی گری ہوئی باتوں کی ایک عام آدمی سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی۔ چہ جائیکہ ایک پوری قوم اس میں مبتلا ہوجائے۔ اس گرہ کو کھولتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موت کا ایک جھونکا زندگی کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے گل کردے گا اس کے بعد نہ کوئی زندگی ہے، نہ کوئی عدالت جہاں زندگی کے اعمال کے لیے جواب دہی کرنا پڑے۔ یہ لوگ زندگی کے اعمال کے بارے میں لاپرواہی کا شکار ہیں۔ جو ان کے منہ میں آتا ہے کہہ گزرتے ہیں، جس تصور کو عقیدہ بنانا چاہیں ان کے لیے کوئی روک نہیں۔ یہ سب کچھ ان ہی لوگوں کا کیا دھرا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کسی نے نہ کسی فرشتے کو دیکھا اور نہ ہی یہ اس وقت حاضر تھے جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا فرمایا تھا۔ تو پھر تذکیر و تانیث کی بحث اس بیخبر ی کے باوجود کیسے وجود میں آگئی۔ اس لیے اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ایسے لوگوں کی ترنگ ہے جو زندگی میں سنجیدگی سے محروم اور لاابالی پن کا شکار ہیں۔
Top