Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 133
وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ
وَرَبُّكَ
: اور تمہارا رب
الْغَنِيُّ
: بےپروا (بےنیاز)
ذُو الرَّحْمَةِ
: رحمت والا
اِنْ
: اگر
يَّشَاْ
: وہ چاہے
يُذْهِبْكُمْ
: تمہیں لے جائے
وَيَسْتَخْلِفْ
: اور جانشین بنا دے
مِنْۢ بَعْدِكُمْ
: تمہارے بعد
مَّا يَشَآءُ
: جس کو چاہے
كَمَآ
: جیسے
اَنْشَاَكُمْ
: اس نے تمہیں پیدا کیا
مِّنْ
: سے
ذُرِّيَّةِ
: اولاد
قَوْمٍ
: قوم
اٰخَرِيْنَ
: دوسری
اور تیرا رب ‘ بےنیاز رحمت والا ہے اگر وہ چاہے ‘ تم کو فنا کر دے اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے لائے ‘ جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا دوسروں کی نسل سے
ارشاد فرمایا : وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَۃِ ط اِنْ یَّشَاْ یُذْھِبْکُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْم بَعْدِکُمْ مَّا یَشَآئُ کَمَآ اَنْشَاَکُمْ مِّنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ ۔ (الانعام : 133) (اور تیرا رب ‘ بےنیاز رحمت والا ہے۔ اگر وہ چاہے ‘ تم کو فنا کر دے اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے لائے ‘ جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا دوسروں کی نسل سے ) اللہ غنی اور رحیم ہے آیت کی تشریح سے پہلے آیت کے پہلے جملے کو دیکھیے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے ” تیرا رب غنی رحمت والا ہے “ اس میں رب کی دو صفات بیان ہوئی ہیں ” غنی “ اور ” رحمت والا “ قاعدے کے اعتبار سے غنی کے بعد ’ واو ‘ یعنی حرف عطف آنا چاہیے تھا لیکن یہاں حرف عطف ساقط کردیا گیا اس میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ ایک موصوف میں کئی صفات ہوسکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ تو بیشمار صفات سے متصف ہیں مثلاً ایک آدمی خطیب بھی ہوسکتا ہے ادیب بھی ‘ شاعر بھی ہوسکتا ہے نثر نگار بھی ‘ فلسفی بھی ہوسکتا ہے سائنسدان بھی ‘ لیکن ہر صفت اپنے اپنے وقت میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی موصوف کے حوالے سے صرف اس کی صفات کا تذکرہ مقصود ہو یعنی یہ بتلانا مقصود ہو کہ اس میں یہ یہ صفات پائی جاتی ہیں تو ہر صفت کے بعد دوسری صفت کے ساتھ حرف عطف لایاجائے گا۔ لیکن جب کہیں ایک سے زیادہ صفات بغیر حرف عطف کے لائی جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صفات بیک وقت موصوف میں پائی جاتی ہیں ان کا ظہور موصوف سے ایک ہی وقت میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی بتلانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہی وقت میں بےنیا زبھی ہیں اور رحمت والے بھی ہیں۔ ان سے بےنیازی کا ظہور بھی ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ رحمت بھی اپنا عمل جاری رکھتی ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غنی اور بےنیاز ہے یعنی اس کی کوئی غرض کسی سے اٹکی ہوئی نہیں ہے اس کا کوئی مفاد کسی سے وابستہ نہیں وہ اپنی کسی بات میں کسی کا محتاج نہیں اس کی شان اور عظمت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ کسی مثبت یا منفی بات سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ ساری دنیا اس کی حمد وثناء کے ترانے گانے لگے اور دن رات اس کی عبادت اور بندگی میں جتی رہے تو اس کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا اور اگر دنیا کا ایک ایک فرد اس کی بندگی سے انکار کر دے تو اس کی شان اور عظمت میں کوئی کمی نہیں ہوسکتی۔ جس طرح آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ” اگر تم میں سے ہر مسلمان کا دل اس طرح اللہ کی محبت سے بھرپور اور روشن ہوجائے جس طرح محمد ﷺ کا دل ہے تو اللہ کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا اور اگر تم میں سے ہر شخص ابلیس کی طرح نافرمان ہوجائے تو اس کی شان میں کوئی کمی نہیں ہوسکتی “۔ وہ نہ تمہاری سلامیوں کا محتاج ہے نہ تمہاری نذر و نیاز کا ‘ اپنے بیشمار خزانے تم پر لٹا رہا ہے لیکن وہ اس کے بدلے میں تم سے کچھ نہیں چاہتا۔ اس کی اصل شان اس کے استغناء میں ہے۔ ہر چیز اس کی محتاج ہے لیکن وہ ہر احتیاج سے پاک ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق اور اپنے بندوں سے ایسا ہی مستغنی ہے تو پھر وہ اپنے بندوں کو راہ راست پر چلانے کے لیے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے بار بار راہنمائی کیوں دیتا ہے اور وہ کیوں اپنے رسولوں کو اس راستے میں مخالفتیں برداشت کرنے اور اذیتیں سہنے پر مجبور کرتا ہے اس کے نافرمان بندے اس کے رسولوں سے جو بھی سلوک کریں اور اس کے دین کا کیسا ہی تمسخر اڑائیں وہ بالعموم برداشت کرتا ہے اور لوگوں کو ڈھیل پر ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے اور پھر یہ سلسلہ ایک دو روز کا نہیں بلکہ حضرت آدم سے لے کر خاتم النبین کی بعثت تک یہی سلسلہ جاری رہا ہے اور آج بھی اس کے راستے پر چلنے والے انہی راہوں کو روشن رکھے ہوئے ہیں اور اس کو نہ ماننے والے اپنی اپنی روش پر قائم ہیں۔ اس کے استغناء کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ کبھی لوگوں کے حال پر توجہ نہ دیتا۔ زیادہ سے زیادہ ضابطے کی کارروائی تک اپنے آپ کو محدود رکھتا۔ لیکن جس طرح ان کی اصلاح و ہدایت کے لیے ہمیشہ سے کوششیں ہوتی آئی ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گویا انسانوں کی طرف سے ان کی بندگی اور عبادت کا محتاج ہے کہ اگر یہ ایسا نہیں کریں گے تو اس کی کبریائی میں کوئی کمی آجائے گی اس لیے یہاں بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں غنی اور بےنیاز ہے اسے تمہاری کسی بات کی پرواہ نہیں لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ رحمت والا بھی ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اور یہ اس کی مہربانی اور رحمت کا ظہور یوں تو مختلف شانوں کے ساتھ ہر وقت جاری رہتا ہے لیکن ہدایت کے معاملے میں اس کا ظہور دو طرح سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ وہ انسانوں کو راہ راست پر چلنے کی جو تلقین کرتا ہے اور حقیقتِ نفس الامری کے خلاف طرز عمل اختیار کرنے سے جو منع کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ تمہاری راست روی سے اس کو کوئی فائدہ اور غلط روی سے اس کو کوئی نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اس راست روی میں تمہارا اپنا فائدہ اور غلط روی میں تمہارا اپنا نقصان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر تم اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق معاشرت اختیار نہیں کرو گے تو تمہارے گھر اجڑ جائیں گے۔ تمہارا معاشرہ تباہ ہوجائے گا اگر تم اس کی راہنمائی کو نظر انداز کر کے اور اس کے احکام سے سرتابی کر کے کاروبارِزندگی چلائو گے تو تہذیب بھی تباہ ہوگی ‘ تمدن بھی اپنا راستہ بدل لے گا اور زندگی اس طرح غلط رخ پر چل نکلے گی کہ تمہاری اجتماعی زندگی طبقات کا شکار ہو کر تباہی کے راستے پر جا پڑے گی اور اگر تم نے اس کی کبریائی کو تسلیم کر کے اس کے عطا کردہ قانون کی پابندی نہ کی تو تم آمریت کی زد میں آجاؤ گے اور کچھ بعید نہیں کہ تم غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیئے جاؤ۔ ان تمام قباحتوں سے بچانے کے لیے وہ تمہیں صحیح طرز عمل کی تعلیم دیتا ہے اور یہ سراسر اس کی رحمت کا تقاضہ ہے کیونکہ اس کی رحمت تمہارے کسی نقصان ‘ کسی دکھ اور کسی حادثے کو برداشت نہیں کرتی وہ تمہیں ایسے تمام حوادث سے بچانا چاہتی ہے بلکہ جب ہم تدبر کا ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ اس کی رحمت جس طرح انسانوں کو راست روی کی تعلیم دیتی ہے اسی طرح یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ اگر انسان غلط روی سے رکتے نہیں ہیں تو اس کی رحمت کے ظہور کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ انسانوں کی کوتاہیوں پر کبھی جلدی گرفت نہیں کرتا۔ وہ انسانوں کو سزا دینے پر کبھی خوش نہیں ہوتا۔ وہ ہر ممکن طریقے سے انھیں غلط انجام سے روکنا چاہتا ہے اس لیے وہ گرفت میں جلدی کرنے کی بجائے ڈھیل پے ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ تبلیغ و دعوت کے ذریعے ان کی غلطیاں بھی ان پر واضح کرتا ہے تاکہ لوگ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو سمجھ کر صحیح راستے کی طرف پلٹ آئیں اور پھر اس کی رحمت کی انتہاء یہ ہے کہ جس طرح وہ تبلیغ و دعوت کے سلسلے کو بند نہیں کرتا کہ وہ کفار کے کفر اور مشرکین کے شرک اور نافرمانوں کی نافرمانیوں سے ناراض ہو کر اللہ کے نبیوں کا بھیجنا اور کتابوں کا اتارنا بند کر دے اسی طرح وہ ان تمام نافرمانوں کی روزی کبھی نہیں روکتا جس طرح وہ اپنے ماننے والوں کو رزق دیتا ہے اسی طرح نہ ماننے والوں کو بھی دیتا ہے بلکہ بعض دفعہ ان کی آزمائش کے لیے انھیں زیادہ رزق دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کی رحمت کو محسوس کر کے یا تو پلٹ آئیں اور یا کفران نعمت کی انتہاء پر پہنچ کر تباہی کا شکار ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کفار کو ختم کر کے نئی نسل پیدا کرنے پر قادر ہے اللہ کی رحمت کا یہ طرز عمل بعض دفعہ بگڑے ہوئے انسانوں میں راہ راست کی طرف آنے کی بجائے یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ ہم اللہ کی نافرمانی پہ نافرمانی کرتے ہیں لیکن وہ نہ تو اپنی نعمتیں ہم سے روکتا ہے اور نہ اس کا پیغمبر اپنی کاوشیں ترک کرتا ہے بلکہ اس کی رحمتیں ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ ہمارے انکار اور طغیان کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم پر عذاب کا کوڑا برستا لیکن بجائے عذاب آنے کے اس کا رسول رحمت اللعالمین بن کے آیا اور جو اس پر کتاب اتری ہے اس کی شان بھی یہ ہے کہ وہ بھی اپنے ماننے والوں کے لیے رحمت بن کے آئی ہے اور پھر اس کی کتاب میں بار بار ہمیں ترغیب دے دے کر راہ ہدایت کی طرف لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کا پیغمبر نا صرف کہ اپنی شخصیت کی پوری توانائیاں ہمیں ہدایت دینے کے لیے صرف کر رہا ہے بلکہ راتوں کو جاگ جاگ کر ہمارے ایمان کے لیے دعائیں بھی کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جس عذاب اور جس گرفت سے ہمیں ڈرایا جا رہا ہے وہ محض ایک افسانہ ہے اللہ میں ہرگز اس کی قوت نہیں کہ وہ ہمیں سزا دے سکے اگر ایسا ہوتا تو یہ ہمیں ڈھیل پر ڈھیل نہ ملتی شاید اسی وسوسے کے ازالے کے لیے اور اسی غلط سوچ کو دور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہیں سزا دینے کی قدرت حاصل نہیں اس کی قدرت کا عالم تو یہ ہے کہ وہ اگر چاہے تو چشم زدن میں تمہیں تباہ و برباد کر دے بلکہ تمہارا نام و نشان مٹا دے کیونکہ یہاں لفظ ہلاکت کا استعمال نہیں ہوا۔ یُذْھِبْکُمْ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہے کہ تمہیں لے جائے یعنی تمہارا نام و نشان تک مٹا دے اور تمہیں ملیامیٹ کر دے اور پھر یہ نہ سمجھو کہ تمہیں تباہ کردینے سے دنیا بےآباد ہوجائے گی اور زمین پر بسنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ فرمایا جس طرح اس میں تمہیں تباہ کرنے کی قدرت ہے اسی طرح دنیا کو آباد کرنے کی بھی اس میں قدرت ہے۔ آخر ایک صدی پہلے جو نسل آج زمین پر آباد ہے ان میں سے کون اس زمین پر آباد تھا یقینا وہ اور لوگ تھے جو تم سے پہلے زمین پر رہتے تھے۔ لیکن آج ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں اس طرح جب وہ تمہیں مٹا دے گا تو تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ سے آج تک جاری وساری ہے قومیں آتی اور جاتی ہیں لیکن زمین اس کی قدرت سے ہمیشہ آباد رہتی ہے۔ پھر ساتھ ہی ساتھ مَا کا لفظ لا کر ایک اور سوال کا جواب بھی دے دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوع انسانی کا سلسلہ نسل انسانی سے قائم ہے اگر تمام انسان ایک دفعہ مٹا دیئے جائیں تو نئے انسان آخر کس نسل سے وجود میں آئیں گے۔ یہاں مَنْ کی بجائے مَا کا لفظ لا کر اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کیونکہ مَا کا غالب استعمال بےجان چیزوں کے لیے ہوتا ہے اور مَنْ کا استعمال جاندار چیزوں کے لیے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا عالم تو یہ ہے کہ وہ اس بات کا محتاج نہیں کہ وہ انسانوں کو انسانوں ہی سے پیدا کرے وہ جب چاہے انسانوں کو بغیر کسی سبب کے بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی قدرت سے یہ کوئی بعید نہیں کہ وہ اس صحرا کی جس چیز کو چاہے تمہاری جگہ لینے کے لیے کھڑی کر دے۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) نے ایک جگہ بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کیونکہ بنی اسرائیل بھی قریش کی ہی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونے پر بڑا ناز کرتے تھے اس لیے حضرت مسیح نے ان سے فرمایا کہ تم اس بات پر گھمنڈ نہ کرو کہ تم ابراہیم کی اولاد ہو میرا خداوند چاہے تو ریگستان کے ذروں سے ابراہیم کے لیے اولاد کھڑی کر دے۔ یہاں قریش سے بھی ان کے غرور پر ضرب لگاتے ہوئے یہی فرمایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کی نگاہ میں بےجان مخلوق کی مانند ہو جس طرح صحرا میں خودرو پودے اگتے ہیں تم اس سے بھی زیادہ بےقدر و قیمت ہو اس لیے تم جیسے پودوں کو مسل کر تم سے بہتر پودوں کو اٹھا کھڑا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔ حاصل کلام یہ کہ جس ذات والا صفات کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں غنی ہے لیکن بندوں کے معاملات میں وہ رحیم و کریم ہے اور قدرتیں اس کی بےپناہ ہیں جب چاہے اپنے ماننے والوں کو نواز سکتا ہے اور اپنے نافرمانوں کو تباہ کرسکتا ہے اور وہ صاف صاف اپنے پیغمبروں کے ذریعے یہ بات واضح کر رہا ہے کہ نبی آخر الزماں کے آجانے کے بعد تمہاری قسمت میزان میں ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے تم اگر اس دعوت کو قبول کرو گے تو اللہ کی نعمتوں کے مستحق ٹھہرو گے اور قیامت کے دن جنت تمہارے انتظار میں ہوگی اور اگر اس دعوت کو رد کردو گے تو عین ممکن ہے کہ انکار کردینے والی قوموں پر جس طرح عذاب آتا رہا ہے تم پر بھی وہ عذاب آجائے ورنہ قیامت کا آنا تو بہرحال یقینی ہے اور اس دن تمہیں جواب دینا پڑے گا کہ تم نے اس دعوت کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ؟ چناچہ یہی بات اگلی آیت کریمہ میں فرمائی جا رہی ہے۔
Top