Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 152
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ١ۚ وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ١ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ۚ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ۚ وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَۙ
وَلَا تَقْرَبُوْا : اور قریب نہ جاؤ مَالَ : مال الْيَتِيْمِ : یتیم اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : ایسے جو هِىَ : وہ اَحْسَنُ : بہترین حَتّٰي : یہاں تک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے اَشُدَّهٗ : اپنی جوانی وَاَوْفُوا : اور پورا کرو الْكَيْلَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَا نُكَلِّفُ : ہم تکلیف نہیں دیتے نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی وسعت (مقدور) وَاِذَا : اور جب قُلْتُمْ : تم بات کرو فَاعْدِلُوْا : تو انصاف کرو وَلَوْ كَانَ : خواہ ہو ذَا قُرْبٰي : رشتہ دار وَ : اور بِعَهْدِ : عہد اللّٰهِ : اللہ اَوْفُوْا : پورا کرو ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ : اس نے تمہیں حکم دیا بِهٖ : اس کا لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑو
اور یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو ‘ بجز اس طریقے کے جو اس کیلئے بہتر ہو یہاں تک کہ وہ سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا رکھو۔ ہم کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اور جب تم بولو تو عدل کی بات بولو ‘ خواہ (نقصان میں) کوئی تمہارا قرابت دار ہی ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو یہ چیزیں ہیں جن کی اس نے تمہیں ہدایت فرمائی تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو
اگلی آیت کریمہ میں انہی احکام عشرہ میں سے مزید چار احکام کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ ج وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ ج لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا ج وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰیج وَبِعَھْدِ اللہِ اَوْفُوْا ط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۔ (الانعام : 152) (اور یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو ‘ بجز اس طریقے کے جو اس کے لیے بہتر ہو یہاں تک کہ وہ سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا رکھو۔ ہم کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اور جب تم بولو تو عدل کی بات بولو ‘ خواہ (نقصان میں) کوئی تمہارا قرابت دار ہی ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو یہ چیزیں ہیں جن کی اس نے تمہیں ہدایت فرمائی تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو) یتیموں کے حقوق یتیم اکیلے اور منفرد کو کہتے ہیں جس سیپ میں ایک ہی موتی ہو اسے دُر یتیم کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے یتیم وہ ہے جو بچپن یا لڑکپن میں یعنی بلوغ سے پہلے باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے سے اکیلا اور تنہا رہ جائے۔ قریبی عزیزوں کے رحم و کرم پر ہو یا معاشرہ کی ہمدردی اور خیرخواہی کا محتاج ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے۔ قرآن پاک نے یتیموں اور مسکینوں کے حقوق اور خاندان اور معاشرے کے لیے ان کی اہمیت ‘ ضرورت اور افادیت واضح کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں۔ سب سے پہلے مختلف اسالیب اور متعدد تاریخی حوالوں سے ایک نہایت اہم حقیقت کا انکشاف کیا ہے وہ یہ کہ تاریخ میں کتنی عظیم قومیں منصہ شہود پر آئیں کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود آج تک ان کے حیرت انگیز تاریخی آثار ان کی عظمت اور قوت کی گواہی دیتے ہیں جن میں قوم عاد ‘ قوم ثمود اور مصر کے آل فرعون وہ مشہور قومیں ہیں جن کی تاریخ سے عرب واقف تھے اور قوت اور شان و شوکت کے اعتبار سے کوئی قوم اس وقت دنیا میں ان کے ہم پلہ نہ تھی۔ لیکن اپنے تمام تر قوت و شوکت کے باوجود یہ قومیں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ عذاب کا کوڑا اس بری طرح سے ان پر برسا کہ وہ تاریخ میں عبرت کا نشان بن گئیں۔ قرآن کریم ان قوموں اور ان کی وجاہتوں کا ذکر کرنے کے بعد بتاتا ہے کہ ان کی تباہی اور بربادی کا سبب اپنے خالق ومالک سے انحراف اور طغیان و معصیت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے بےکس و بےبس اور سرافگندہ و درماندہ طبقات کی طرف سے لاپرواہی بلکہ ظلم تھا اور ان طبقات میں بطور خاص یتیم اور مسکین کا وہ ذکر کرتا ہے کیونکہ جو معاشرہ یتیموں کا خیال نہیں کرتا۔ اس سے باقی پسماندہ اور مظلوم طبقات کی داد رسی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ارشاد خداوندی ہے : کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ ۔ وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلیٰ طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ۔ (الفجر : 17-18) (ہرگز نہیں (تباہی کا سبب اور کچھ نہیں) بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا دینے (ضروریات زندگی) کی فراہمی پر زور نہیں دیتے) یتیم اور مسکین کے حقوق کی عدم ادائیگی کا ذکر بطور خاص اس لیے بھی ہے کہ خاندان کسی بھی معاشرے کی اساس ہے۔ خاندان کی شکست و ریخت معاشرے کی اور آخر کار پوری قوم کی تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ خاندان کے ارکان اربعہ والدین اولاد زوجین اور اہل قرابت ہیں اور یتیم اگر خاندان ہی کا حصہ ہے یعنی بیٹا مرجانے کے صورت میں یتیم بچہ دادا کا پوتا ہے اور بھائی کی موت کی شکل میں یہ یتیم مرحوم کے بھائی کا بھتیجا ہے۔ اب اگر ایسے یتیم کے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خاندان میں کتنی دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ جب تک یہ یتیم بچہ ظلم کی تصویر بن کر زندگی گزارتا ہے تو دوسرے اہل قرابت چاہے لفظی ہمدردی کے سوا کچھ نہ کریں۔ لیکن اس یتیم کیساتھ ہونے والے سلوک کو نہ صرف محسوس کریں گے بلکہ خاندانی تقریبات میں موضوعِ سخن بھی بنائیں گے اور کبھی کبھی زیب داستاں کے طور پر بھی ذکر کریں گے۔ ایسی صورت میں خاندانی روابط اور روابط کے استحکام پر جو اثرات مرتب ہوں گے وہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔ یہ تو وہ اثرات ہیں جو شعوری اور غیر شعوری طور پر خاندان پر اثر انداز ہوں گے۔ لیکن اسکا ایک پہلو اور بھی ہے کہ یتیم بچہ اگر بےمروتی اور بدسلوکی کے سائے میں پروان چڑھتا ہے وہ دادا کی بےمروتی کو دیکھتا ہے تو خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے کہ یہی میرے وہ دادا ہیں کہ میرے باپ کی زندگی میں سراپا محبت و شفقت تھے۔ وہ اپنے چچا اور تایا کے بدلے ہوئے رویہ کو دیکھتا ہے تو نہ جانے کیسے کیسے تاریک رجحانات اس کے رگ و پے میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ بچپنے کی وہ عمر جسے پیار اور محبت کی ٹھنڈک میں بسر ہونا چاہیے جب بےالتفاتی بدسلوکی اور بےنیازی کی تیز دھوپ میں جلنے لگتی ہے تو اس نوخیز بچے کی محرومیاں خاندان سے نفرت بزرگوں سے بدگمانی اور انسانی جذبات سے مایوسی میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ محرومیاں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح دھکنے لگتی ہیں۔ جو آخر کار بغاوت اور انتقام کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور معاشرہ ان سے بالوسطہ متاثر ہوتا ہے اور اگر اس یتیم بچے کی کفالت کرنے والے اپنے نہیں پرائے ہیں تو پھر یہ بچہ بڑاہو کر براہ راست معاشرے سے اپنی محرومیوں کا انتقام لیتا ہے۔ یہی یتیم بچے بڑے ہو کر مسکین کہلاتے ہیں۔ کیونکہ بعد از بلوغ یتیم یتیم نہیں رہتا۔ اپنے پائوں پر کھڑا ہوجائے تو معاشرہ کا کارآمد اور معزز فرد بن جاتا ہے اور اگر خاندان یا معاشرہ کی لاپرواہی سے ضائع ہوجائے تو معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے۔ غالباً اسی بات کی طرف قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا : أَرَاَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ ۔ (الماعون : 1) (تو نے اس شخص کو دیکھا ‘ جو روز جزاء کو یا جزاء کے قانون کو جھٹلاتا ہے) یعنی اسے اس بات سے انکار ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اعمال کی جزا و سزا سے گزرنا پڑے گا اور وہ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ دنیا میں جزا و سزا کا قانون جاری ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ‘ یہاں کی ریت ہے۔ فَذَلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ ۔ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ۔ (الماعون : 3-2) (اس شخص کے ایسے ہی خیالات کا نتیجہ ہے) کہ یہ یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر آمادہ نہیں کرتا۔ اسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ محبت و مروت اور ایثار وہمدری سے محروم یہ طبقہ (یعنی یتیم و مسکین) وقت آنے پر معاشرے سے انتقام لیتا ہے۔ جب یتیم کو چچا کے مظالم اور چچازاد بھائیوں کی بےاعتنائیاں یاد آتی ہیں تو وہ بڑا ہو کر چچازاد بھائیوں بلکہ تمام اہل قرابت سے اپنے زخموں کا حساب لیتا ہے اور اگر خاندان سے باہر معاشرہ بھی اس کی محرومیوں کا سبب بنتا رہا ہے تو وہ معاشرے کے افراد کو بھی زیادتیوں کا نشانہ بنا کر سکون حاصل کرتا ہے۔ یہ جو ہم نوجوانوں کو بینک لوٹتے ‘ ڈاکے ڈالتے ‘ عفتوں کے فانوس توڑتے اور عظمتوں کے چراغ بجھاتے دیکھتے ہیں۔ یہ دراصل اپنی محرومیوں کا انتقام ہے اور پھر اس میں صرف یتامیٰ اور مساکین ہی شریک نہیں بلکہ بڑے اور خوشحال لیکن تہذیب خوردہ اور مغرب زدہ خاندانوں کے چشم وچراغ بھی ہیں جنھیں ان کی مائوں نے اپنی سوشل مصروفیات اور بیگمات کی تفریحات کے باعث پیار نہیں دیا۔ بچے ان کے پیار کو ترستے رہے۔ لیکن وہ صنف نازک کے حقوق حاصل کرنے اور عورت کا مقام بلند کرنے کے لیے دن بھر مختلف تقریبات میں شرکت اور اس کے لیے دن میں کئی کئی دفعہ لباس بدلنے کی مصروفیت کے باعث بچوں کے لیے وقت نہ نکال سکیں اور باپ جلب زر کی دوڑ اور کلبوں کی مصروفیت کی وجہ سے بچوں کو وقت نہ دے سکے۔ آج یہ بچے انسانی احساسات سے تہی دامن انسانی معاشرے کو ادھیڑنے کھدیڑنے میں لگ گئے۔ تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ جو قومیں اپنے خاندان کے اجزا کو نہیں سمیٹتیں ان کے شیرازہ کو بکھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور جو قومیں اپنے مساکین یعنی معاشرہ کے گرے ہوئے اور پسماندہ افراد کو سہارا نہیں دیتیں یہی افراد معاشرے کے خلاف بغاوت کردیتے ہیں۔ نتیجۃً معاشرہ خانہ جنگی کا شکار ہو کر قومی استحکام سے محروم ہوجاتا ہے۔ اب اس کو گرانے کے لیے چند حوادث ہی کافی ہوتے ہیں۔ مزید برآں قرآن کریم ہمیں یہ بھی آگاہی دیتا ہے کہ ایسی قومیں اور ایسے معاشرے جو یتامیٰ و مساکین کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتے ان کی صرف دنیا ہی تباہ نہیں ہوتی ان کی آخرت بھی برباد ہوجاتی ہے وہ انجام کار جہنم کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ ارشادِ خداوندی ہے : مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ ۔ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ۔ وَ لَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ ۔ (اہل جہنم سے پوچھا جائے گا) کس چیز نے تمہیں جہنم میں پہنچایا ؟ وہ کہیں گے ہم نمازی نہیں تھے اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ (المدثر : 42-44) دوسری بات یہ کہ ترقی یافتہ اور شان و شوکت کی حامل اقوام و ملل کے برے انجام سے استدلال کرتے ہوئے یتامیٰ اور مساکین کی طرف سے تغافل اور بدسلوکی کے نتائج سے ڈرانے کے بعدمثبت طرز استدلال کے ذریعہ قرآن نے چند ایسے تاریخی واقعات کا ذکر کیا جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اسباب عادیہ سے ہٹ کر بھی پروردگار کی نظر کرم یتامیٰ اور مساکین کے شامل حال رہتی ہے۔ حضرت موسیٰ و خضر علیھما السلام کے واقعہ میں قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ و خضرعلیھما السلام دریا عبور کرنے کے لیے ایک کشتی پر سوار ہوئے کشتی والوں نے دونوں کا احترام کرتے ہوئے کرایہ لینے سے انکار کردیا۔ لیکن حضرت خضر نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ عین دریا میں کشتی کا تختہ توڑ ڈالا اور اس طرح کشتی کو بیکار کردیا۔ پھر ایک گائوں میں پہنچے تو گائوں والوں نے مہمان نوازی کرنے کی بجائے کھانا تک کھلانے سے انکار کردیا لیکن اہل دیہہ کی بدسلوکی کے باوجود حضرت خضر حضرت موسیٰ کے ساتھ دن بھر ایک دیوار مرمت کرتے رہے جو گرا چاہتی تھی۔ دونوں واقعات میں حضرت خضر کے عمل کو عام طرز زندگی اور اسلوب زندگی سے ہٹا ہوا محسوس کر کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تعجب و استنکار کا اظہار کیا۔ اس پر حضرت خضر نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جو جواب دیا قرآن کریم نے اسے اس طرح بیان کیا ہے : اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُ اَنْ اَعِیْبَھَا وَ کَانَ وَرَآئَ ھُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا۔ (الکہف : 79) (جہاں تک کشتی کا تعلق ہے ‘ وہ چند مسکینوں کی تھی ‘ جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اس کشتی کو بیکار کر دوں کیونکہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ آرہا تھا ‘ جو ہر کشتی پر زبردستی قبضہ کر رہا تھا) وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَ کَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّھُمَا وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا ج فَاَرَادَ رَبُّکَ اَن یَّبْلُغَآ اَشُدَّھُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنْزَ ھُمَا ق صلے رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ج (الکہف : 82) (رہا دیوار کا قصہ۔ وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی ‘ جو اس شہر میں رہتے تھے۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون تھا اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا ‘ اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ جب یہ دونوں بچے بالغ ہوں تو اپنا خزانہ نکالیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت ہے) ان دونوں واقعات پر غور کیجئے کس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت یتیموں اور مسکینوں کی دستگیری کرتی ہے اور ایسے طریقے سے کرتی ہے جو ہمارے فہم و فراست سے بالا ہے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوجاتی ہے کہ وہ پروردگار جو ایسے غیر معمولی طریقوں سے ان بےکسوں کی دستگیری فرماتا ہے اس کی رحمت ایسے معاشرے پر کیوں نہ برسے گی جو معاشرہ یتیموں اور مسکینوں کی جائے پناہ ‘ محبتوں اور حمایت و اعانت کا سرچشمہ ہوگا۔ یتیموں کے بارے میں نبی کریم ﷺ کے ارشادات نبی کریم ﷺ نے بھی قرآن کریم کی طرح اپنے ارشادات عالیہ میں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی اور اسے مسلمان معاشرے کی اخلاقی ذمہ داری قرار دیا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : انا وکافل الیتیم لہ اولغیرہ فی الجنۃ ھکذا واشار بالسبابۃ والوسطی و فرج بینھما شیئا (میں اور اپنے یا پرائے یتیم کی کفالت کرنے والا آدمی جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے اور آپ نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کر کے بتلایا اور ان کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی) مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کلمہ والی انگلی اور اس کے برابر کی بیچ والی انگلی اس طرح اٹھائی کہ ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا ‘ بتلایا کہ جتنا تھوڑا سا فاصلہ اور فرق تم میری ان دو انگلیوں کے درمیان دیکھے ہو بس اتنا ہی فاصلہ اور فرق جنت میں میرے اور اس مرد مومن کے مقام میں ہوگا جو اللہ کے لیے اس دنیا میں کسی یتیم کی کفالت اور پرورش کا بوجھ اٹھائے۔ خواہ وہ یتیم اس کا اپنا ہو جیسے پوتا یا بھتیجا وغیرہ یا پرایا ہو یعنی جس کے ساتھ رشتہ داری وغیرہ کا کوئی خاص تعلق نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ کا ایک اور ارشاد دیکھیے : من قبض یتیما من بین المسلمین الی طعامہ و شرابہ ادخلہ الجنۃ البتۃ الا ان یکون قد عمل ذنبا لا یغفر ” اللہ کے جس بندے نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم بچے کو لے لیا اور اپنے کھانے پینے میں شریک کرلیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور بالضرور جنت میں داخل کرے گا الا یہ کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جو ناقابل معافی ہو “۔ ایک اور حدیث میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : من مسح راس یتیم لم یمسحہ ال اللہ کان لہ بکل شعرۃ یمر علیھا یدہ حسنات و من احسن الی یتیمۃ و یتیم عندہ کنت انا وھو فی الجنۃ کہا تین و قرن بین اصبعیۃ ” جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے ہاتھ پھیرا تو سر کے جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پھرا تو ہر ہر بال کے حساب سے اس کو نیکیاں ملیں گی اور جس نے اپنے زیر کفالت کسی یتیم بچی یا یتیم بچے کے ساتھ بہتر سلوک کیا تو میں اور وہ آدمی جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے اور آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر دکھایا یعنی ان دو انگلیوں کی طرح بالکل پاس پاس ہوں گے “ اندازہ فرمایئے کہ محض اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا کسی بڑی سعادت اور لاکھوں نیکیوں کے حصول کا سبب ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک پیار اور محبت آنحضرت ﷺ کے قرب کا ذریعہ ہے وہ بھی جنت میں۔ یعنی جنت میں داخلہ بجائے خود کتنی بڑی خوش بختی ہے اور پھر اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ کا قرب یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے۔ مزید فرمایا : خیر بیت فی المسلمین بیت فیہ یتیم یحسن الیہ و شر بیت فی المسلمین بیت فیہ یتیم یساء الیہ ” مسلمانوں کے گھرانوں میں بہترین وہ گھرانہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے “ یعنی یتیم کے ساتھ حسن سلوک کسی گھر کو اللہ کی نگاہ میں عزت و وجاہت کا حامل بنا دیتا ہے اور یتیم کے ساتھ بدسلوکی کسی گھر کو قابل نفرت بنا دیتی ہے۔ لوگ عزت و ذلت کے اسباب اور ذرائع نہ جانے کیا کیا گمان کرتے ہیں۔ لیکن اللہ کی نگاہ میں بالکل دوسرے معیارات ہیں اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ جو گھر اللہ کے یہاں بہتر ہے اس پر اس جہاں کی رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ وہیں رزق میں برکت ہوتی ہے اور گھر کے مکینوں کو نیکیوں کی توفیق ملتی ہے اور جو گھر اس کے یہاں برا ہے وہ خیر و برکت سے محروم اور توفیق خداوندی سے دور ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام نے مختلف اسالیب سے یتامیٰ و مساکین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے مقام کے تعین اور بعثت نبوی کے وقت ان مظلوم گروہوں سے متعلق دنیا کی ذہنیت کی تبدیلی کے لیے حیرت انگیز کام کیا جس سے فی الواقع یتامیٰ اور مساکین کو ایک نئی زندگی اور ایک نیا معاشرتی مقام نصیب ہوا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محض تذکیر و ترغیب سے لائی ہوئی تبدیلی دیرپا اور مستقل نہیں ہوتی۔ اس لیے اسلام نے اسی پر اکتفا کرنے کی بجائے یتامیٰ اور مساکین کو قانونی تحفظ بھی دیا اور بیکسوں پر ہونے والے مظالم کا قانونی عمل سے انسداد کر کے رکھ دیا۔ یتیموں کی کفالت کے بارے میں قوانین اب نہایت اختصار سے اس آئینی اور قانونی عمل کی ایک جھلک پیش خدمت ہے جو فی الواقع انسانی معاشرتی زندگی کے لیے بیش بہا نعمت ہے۔ دور جاہلیت میں یتیموں پر جو مظالم کیے جاتے تھے اور جو زیادتیاں ہوتی تھیں ان میں سے پہلی زیادتی یہ تھی کہ مرنے والا باپ اپنے بچوں کے لیے جو مال و اسباب چھوڑ جاتا تھا یا جو حصہ بچوں کو اپنے باپ کی میراث میں سے ملنا چاہیے تھا انھیں دینے سے یکسرانکار کردیا جاتا تھا۔ جاہلیت میں عربوں کا تصور یہ تھا کہ وراثت کا حقدار صرف وہ ہوسکتا جو اپنے اعزا و اقربا اور خاندان کو کوئی فائدہ پہنچانے کے قابل ہو۔ ان کے اپنے الفاظ میں ” کہ میراث میں اس کو حصہ دیا جائے جو گھوڑے پر چڑھ کر دشمن کو قتل کر کے مال غنیمت لانے کی استعداد رکھتا ہو۔ “ مقصود ان کا یہ تھا کہ جو خاندان کو نفع پہنچانے کے قابل نہیں وہ خاندان سے کوئی چیز لینے کا بھی حقدار نہیں۔ بچیاں چونکہ پرایا دھن ہیں اور صنف نازک سے تعلق رکھتی ہیں اور چھوٹے بچے بھی کوئی فائدہ پہنچانے کے قابل نہیں اس لیے ان کو میراث میں حصہ بھی نہیں ملنا چاہیے۔ چناچہ بالعموم یتیم بچے اور بچیاں میراث سے محروم کردیئے جاتے تھے۔ اسلام میں جب تک میراث کا حکم نازل نہیں ہوا مسلمانوں میں دور جاہلیت کے اثرات کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے واقعات ظہور پذیر ہوجاتے تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یتیم بچوں اور بچیوں کے ساتھ کیسی کیسی زیادتیاں ہوتی تھیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ جنگ احد کے بعد حضرت سعد بن ربیع ( رض) کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئیں اور انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ سعد کی بچیاں ہیں جو جنگ احد میں شہید ہوئے۔ ان کے چچا نے پوری جائیداد پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہ تک نہیں چھوڑا۔ اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا۔ اسی طرح ایک اور واقعہ کا بھی سراغ ملتا ہے کہ حضرت اوس بن ثابت شہید ہوگئے تو ان کے بھتیجوں نے ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیا۔ اوس کی بیوی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا واقعہ عرض کیا۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں بچیوں کو بطور خاص اور یتیم بچوں کو بھی بالعموم میراث میں سے حصہ دینے سے انکار کیا جاتا تھا اور آج بھی ہمارے یہاں کم و بیش یہی طریقہ رائج ہے۔ بعض علاقوں میں بڑے بچوں کو میراث دینے کا روج ہے اور چھوٹے بچوں کو محروم کردیا جاتا ہے۔ جہاں تک بچیوں کا تعلق ہے بہت کم گھرانے ہوں گے جہاں ان کو ان کا حق دیا جاتا ہے ورنہ مختلف حیلے بہانوں سے ان کو یہ سمجھ کر محروم کردیا جاتا ہے کہ یہ پرایا دھن ہیں اگر ان کو جائیداد میں سے حصہ دیا گیا تو ہمارا داماد یعنی بچی کا شوہر ہمارا شریک بن جائے گا اس لیے قرآن کریم نے سب سے پہلے میراث میں جس طرح لڑکے کا حصہ رکھا اسی طرح لڑکی کا بھی حصہ مقرر کیا اور پھر یتیموں کو بطور خاص ان کے حصے کے اموال دینے کی تاکید کی۔ اموال دیتے ہوئے بھی یتیموں کے ولی بعض زیادتیاں کرتے تھے کہ ان کے مال میں سے اچھی چیزیں نکال کر کم درجے کی چیزیں رکھ دیتے مثلاً اعلیٰ نسل کے فربہ جانور خود رکھ لیتے اور گنتی پوری کرنے کے لیے ردی نسل کے دبلے اور لاغرجانور یتیم کو دے دیتے۔ اسی طرح زیادتی کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ یتیموں کے اموال کو اپنے اموال میں خلط ملط کردیتے اور حفاظت کے بہانے سے سب آہستہ آہستہ ہڑپ کر جاتے۔ قرآن کریم نے واضح احکام دے کر ان تمام زیادتیوں کو ختم کر ڈالا اور اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا ارشاد فرمایا : وَاٰتُو الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ص وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا۔ (النساء : 2) (یتیموں کا مال ان کو واپس دو ۔ اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل دو اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے) یتیم بچیوں کے ساتھ زیادتی کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ یتیم بچیاں جن لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں وہ ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا اور ان کا حقیقی محافظ تو کوئی ہے نہیں جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے اور نکاح کرتے ہوئے بھی نہ ان کو ان کی حیثیت کے مطابق مہر دیا جاتا اور نہ نکاح کے بعد ان کے حقوق ادا کیے جاتے۔ یہی زیادتی آج بھی مختلف شکلوں میں مسلمانوں میں رائج ہے کہ گھر میں اگر کوئی یتیم بچی موجود ہے تو عام طور پر اس کی مرضی پوچھے بغیر بلکہ اس کی بےبسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بالکل اس کا بےجوڑ رشتہ طے کردیا جاتا ہے۔ وہ بیچاری بےبسی کی تصویر بنے قبولیت کے سوا کوئی راستہ اپنے سامنے نہیں پاتی۔ پھر گھر میں اس کی حیثیت ایک نوکرانی سے زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ کوئی اس کی طرف سے پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ یہ زیادتی کیوں ہو رہی ہے ؟ اس کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ ان یتیم بچیوں سے ہرگز نکاح نہ کرو اگر تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ تم ان سے انصاف نہیں کرسکو گے۔ خود اپنے ضمیر سے فتوی طلب کرو۔ ضمیر صحیح جواب دیتا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کن جذبات کے تحت اپنا یا اپنے بچوں کا ان سے نکاح کر رہے ہو۔ یتیم بچوں اور بچیوں کے اگر محرمی رشتہ دار اور بزرگ زندہ ہیں تو وہ یتیموں کے ولی ہوں گے۔ ان کی ذاتوں کے حوالے سے اور ان کے مال اور جائیداد کے حوالے سے تمام ذمہ داریاں انھیں پوری کرنا ہوں گی۔ لیکن اگر یتیم کا کوئی بڑا یا قریبی عزیزنہ ہو یا اگر قریبی عزیز ہیں لیکن وہ اس قابل نہیں ہیں کہ دیانت داری سے اپنے فرائض انجام دے سکیں تو پھر اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ یتیموں کے لیے ولی کا تقرر کرے اور وقتاً فوقتاً اس بات کا جائزہ لیتی رہے کہ یتیموں کے حقوق کی پاسداری صحیح طریقے سے ہو رہی ہے۔ یا نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : السلطان ولی من لا ولی لہ (بادشاہ یعنی حکمران اس کا ولی ہے ‘ جس کا کوئی ولی نہیں) اسی وجہ سے اسلامی حکومتوں میں قاضیوں کے فرائض میں یہ بات شامل ہوتی تھی کہ وہ شہر میں یتامیٰ کے ولی کی ذمہ داریاں بھی ادا کریں۔ یتیموں کے ان ولیوں کی ذمہ داریوں میں سے سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بالکل اپنے بچوں کی طرح ان یتامیٰ کی پرورش اور تربیت کا اہتمام کریں۔ ان کی تعلیم کے لیے کوشش کریں۔ ان کا کردار بنانے میں امکانی مساعی سے گریز نہ کریں اور اگر اس کے لیے انھیں ایک معقول وقت صرف کرنا پڑے تو قرآن کریم نے اس کے لیے واضح احکام دیئے ہیں۔ ارشاد فرمایا : وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ج وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ط (النساء : 6) (یتیم کا جو سرپرست مالدار ہے ‘ وہ پرہیز گاری سے کام لے۔ یعنی کوئی معاوضہ نہ لے اور جو غریب ہے ‘ وہ معروف طریقے سے کھائے۔ یعنی اپنا حق الخدمت اس حد تک لے کہ ہر غیر جانبدار معقول آدمی اس کو مناسب تسلیم کرے) نیز یہ کہ جو کچھ بھی حق الخدمت وہ لے وہ چوری چھپے نہ لے بلکہ اعلانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے۔ یتیم کی دیکھ بھال میں اس بات کی بھی بڑی اہمیت ہے کہ یتیم کا ولی اسے اس طرح کا احساس نہ ہونے دے جس سے اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو اور اس کے سامنے اپنے بچوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرے کہ واقعی اسے اپنی یتیمی کا غم ستانے لگے۔ کیونکہ شخصیت کی تعمیر میں عزت نفس اور خودداری بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یتیم کے ولی کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ یتیم کے اموال اور جائیداد کا تحفظ کرے۔ اسے نہ صرف ضائع ہونے سے بچائے بلکہ اگر اس میں اضافے کی کوئی جائز صورت ممکن ہو تو اس سے بھی دریغ نہ کرے۔ اسی وجہ سے شریعت قاضی کے فرائض میں اسے شامل کرتی ہے اور فقہاء نے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک ادارتی نظم قائم کیا ہے۔ جب تک یتیم بلوغ کی عمر کو نہ پہنچ جائے اس کے اموال اور جائیداد میں سے اس کی تربیت اور پرورش پر اٹھنے والے اخراجات لیے جائیں گے۔ لیکن جب وہ بلوغ کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے یہ اموال اس کے حوالے کرنے سے پہلے قرآن کریم ایک اور شرط بھی لگاتا ہے۔ جس کو قرآن کریم میں رشد کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمْ الَّتِیْ جَعَلَ اللہ ُ لَکُمْ قِیَامًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۔ وَابْتِلُوا الْیَتٰمٰی حَتَّی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ج فِاِنْ اٰنَسْتُمْ مِنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْآ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ ج (النساء : 5-6) (اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ‘ ناداں لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ البتہ انھیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو۔ اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو ‘ یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔ پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پائو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو) ان آیات میں واضح طور پر چندباتیں کہی گئی ہیں۔ پہلی یہ بات کہ یتیموں کے اموال اس وقت تک ان کے حوالے مت کروجب تک وہ بلوغ کی عمر کو نہ پہنچیں۔ کمسنی کی عمر سفاہت اور بےوقوفی کی عمر ہے اس میں مال ان کے سپرد کرنا گویا مال کو ضائع کرنے کے مترادف ہے حالانکہ مال قیام زندگی کا ذریعہ ہے۔ اسے ناداں لوگوں کے اختیار اور تصرف میں نہیں دینا چاہیے۔ جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام تمدن و معیشت اور بالآخر نظام اخلاق کو خراب کردیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ یہ یتیم اپنی دیکھ بھال خود نہیں کرسکتے اور اپنی ضرورتیں پوری کرنا بھی انکے بس میں نہیں تو انکے ضروری مصارف انکے مال سے ان کے ولی پورے کریں گے۔ لیکن بالکل اس طرح جیسے فکر مندی اور سمجھداری کے ساتھ اپنا مال اپنے بچوں پر خرچ کرتے ہیں۔ تیسری یہ بات کہی کہ انھیں نیک ہدایت کرو یعنی صرف ان کی ضرورتیں پوری کرنا ہی ولی کی ذمہ داری نہیں بلکہ تعمیر سیرت ‘ کردار سازی اور تعلیم و تربیت بھی ولی کی ذمہ داری ہے۔ چوتھی بات یہ کہ اگر وہ یتیم بلوغ کی عمر کو پہنچ جائیں تو اب بھی فوراً ان کے اموال ان کے سپرد نہ کردیئے جائیں بلکہ چھوٹی موٹی ذمہ داریاں ان پر ڈال کر یا کوئی ذمہ داری کا کام تفویض کر کے اس کا اندازہ لگایا جائے کہ آیا ان میں ذمہ داریاں سنبھالنے کی سمجھ بھی پیدا ہوئی ہے یا نہیں اور جسم کے ساتھ ساتھ ان کی عقلی نشو و نما کا کیا حال ہے ؟ ان میں اپنے معاملات کو خود اپنی ذمہ داری پر چلانے کی صلاحیت کس حد تک پیدا ہوئی ہے ؟ اگر ان میں سنجیدگی اور عقلمندی پیدا ہوگئی ہے اور وہ واقعی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہوگئے ہیں تو پھر اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے مال ان کے حوالے کردو۔ ” کورٹ آف وارڈز “ کا قانون انہی آیات سے ماخوذ ہے۔ یہ چند قانونی احکام ہیں جن کی ایک مختصر سی تفصیل ہم نے عرض کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں میں یتیموں کے بارے میں جو اصلاح پیدا کرنا چاہتا ہے وہ کیا ہے ؟ اور پھر کس طرح یتیموں کے حوالے سے عائد شدہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اب تک جو کو تاہیاں ہوتی رہی ہیں ان سے بچنے کے لیے قانونی احکام دیتا ہے تاکہ یتیم ہر صورت میں معاشرے کے دوسرے افراد کی طرح کارآمد اور معزز ارکان معاشرہ بن کر اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیں۔ تاکہ اسلامی معاشرہ اپنا صحیح کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے۔ ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو اس آیت کریمہ میں دوسرا حکم اور مجموعی طور پر احکام عشرہ میں سے ساتواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ ناپ اور تول میں کمی بیشی نہ کرو بلکہ پورا ناپو اور پورا تولو۔ اس حکم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن و سنت نے اس حکم کی تعمیل پر نہایت زور دیا ہے اور اس کے خلاف کرنے پر سخت وعید سنائی ہے اور قرآن کریم نے اس حکم کی تاکید کرتے ہوئے یہاں تک بتایا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم جن بڑی بڑی گمراہیوں میں مبتلا تھی ان میں سب سے بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ چونکہ تجارت پیشہ لوگ تھے اس لیے ناپ اور تول میں انھوں نے دو طریقے اختیار کر رکھے تھے کہ ان کے لینے کے باٹ اور تھے اور دینے کے باٹ اور جب وہ لیتے تھے تو پورا پورا ناپ تول کے لیتے تھے اور جب دیتے تھے تو ناپ تول میں کمی کرتے اور دوسرے کو نقصان پہنچاتے تھے اور اسی وجہ سے اس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ پھر تیسویں پارے میں مستقل ایک سورة جس کا نام ہی مطففین ہے جس کی پہلی آیت میں ایسا کرنے والوں کو خرابی اور بربادی کی وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ خرابی اور بربادی ہے تطفیف کرنے والوں کے لیے کہ جب وہ لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انھیں دیتے ہیں تو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بالآخر بربادی اور ہلاکت کا شکار ہونگے۔ اسی طرح حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کے مطابق ان لوگوں کو جو تجارت میں ناپ تول کا کام کرتے تھے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ناپ اور تول یہ وہ کام ہیں جن میں بےانصافی کرنے کی وجہ سے تم سے پہلے کئی امتیں عذاب الٰہی کے ذریعے تباہ ہوچکی ہیں۔ (دیکھنا تم ایسا نہ کرنا) ناپ تول میں کمی جسے قرآن میں تطفیف کا نام دیا گیا ہے اس کا تعلق صرف ڈنڈی مارنے اور کم ناپنے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس کا تعلق پوری کائنات سے ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ کائنات کا پورا نظام عدل و قسط پر قائم ہے اور اس کائنات کی ہر چیز شاہد ہے کہ اس کا خالق و مدبر قائم بالقسط ہے۔ اس وجہ سے اس دنیا کی صلاح و فلاح کے لیے بنیادی چیز یہ ہے کہ انسان اپنے دائرہ اختیار میں کانٹے کی تول عدل و قسط کو قائم کرے۔ اگر اس میں ذرا رخنہ پیدا ہوجائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری زندگی اپنے مرکز ثقل سے منحرف ہوگئی اور اب سارے نظام تہذیب و تمدن میں فساد و اختلال رونما ہو کے رہے گا۔ ہم اگر اپنے زندگی کے معاملات پر غور کریں تو حقیقت یہ ہے کہ عدل و قسط کا قیام ہی ہماری زندگی کی کامیابی اور اس میں توازن کا ضامن ہے اور اسی توازن سے پوری زندگی میں استواری پیدا ہوتی اور اعتدال وجود میں آتا ہے۔ ایک گھر جو میاں بیوی سے وجود میں آتا ہے اور ماں باپ اور اولاد کے رشتے سے مکمل ہوتا ہے اسی کو دیکھ لیجئے کہ اگر میاں بیوی اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی اور حقوق کی پاسداری پوری طرح انجام دیتے رہیں تو اس گھر میں کبھی الجھن اور اڑچن پیدا نہیں ہوگی۔ شوہر اپنی قوامیت کا پوری طرح ثبوت دے اور بیوی اطاعت و محبت کا تو یہ گھر دنیا ہی میں جنت کا نمونہ بن جائے گا۔ اسی طرح اگر اولاد ماں باپ کے احترام میں کمی نہ ہونے دے اور والدین شفقت و محبت کے تمام پہلوئوں کو پوری طرح بروئے کار لائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خاندان کی بنیاد استوار نہ ہو سکے۔ اسی طرح معاشرے میں بسنے والے لوگ اپنے اپنے فرائض میں یکسو ہوں اور حقوق کی شناخت میں کبھی دراڑیں نہ آئیں تو اس سے عدل و قسط کی صورت میں وہ توازن پیدا ہوتا ہے جس سے یہ معاشرہ نہایت کامیابی کے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھتا ہے۔ اس لیے یہاں جو تطفیف سے روکا جا رہا ہے اور ناپ تول میں عدل و قسط کے قائم کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ صرف ناپنے اور تولنے والی چیزوں تک محدود نہیں ہوسکتا یقینا اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے اسی لیے امام مالک ( رح) نے اپنی مشہور کتاب مؤطا میں حضرت عمر ؓ کا ایک قول نقل کیا ہے کہ آپ نے ایک شخص کو نماز کے ارکان میں کمی کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ تم نے تطفیف کی ہے یعنی جو حق واجب تھا وہ ادا نہیں کیا اس کو نقل کرنے کے بعد امام مالک فرماتے ہیں لِکُلِّ شَیئٍ وَفَائٌوَ تَطْفِیْفٌیعنی حق کا پورا دینا اور کمی کرنا ہر چیز میں ہوتا ہے صرف ناپ تول ہی میں نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہم اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں جب کمی کرتے ہیں تو تطفیف کرتے ہیں۔ یعنی ایک ملازم اپنی ڈیوٹی کا معاوضہ پورا لیتا ہے لیکن ڈیوٹی کے مقررہ اوقات میں کمی کرتا ہے یا کام میں کوتاہی کرتا ہے یا معاوضہ سے زائد رشوت یا کسی اور صورت میں پیسہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ تطفیف کا ارتکاب کرتا ہے اور جب یہ برائی کسی معاشرے میں عام ہوجاتی ہے یہاں تک کہ اس سے نفرت رفتہ رفتہ کم ہونے لگتی ہے تو پھر اس معاشرے میں تباہی اور بربادی میں کوئی دیر نہیں ہوتی۔ آج ہم اپنے ملک میں جس صورت حال سے دوچار ہیں اس میں اگر غور کیا جائے تو یہی وہ تطفیف ہے جس کے ارتکاب نے ہمیں تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ ہمارا ہر ادارہ اس گناہ میں پوری طرح آلودہ ہے۔ تعلیمی ادارے جو لوگوں کی راہنمائی کا فرض انجام دیتے ہیں ان کی انتظامیہ اور ان کے اساتذہ تک بری طرح اس میں آلودہ ہوچکے ہیں۔ احتسابی اداروں کو اسی خرابی نے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ خود حکومت کے ایوان اور ہماری پارلیمنٹ کے ارکان اس سے بچے ہوئے نہیں بجز ان لوگوں کے جن پر اللہ خاص رحم فرمائے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایک دفعہ مجھ سے ایک صاحب کہنے لگے کہ آپ کہتے ہیں کہ رشوت لینا حرام ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب تنخواہوں میں گزارا نہیں ہوتا ‘ رشوت نہ لیں تو زندگی کیسے گزاریں میں نے ان سے کہا کہ آپ نے رشوت لے کر اپنی زندگی گزارنے اور گزارا کرنے کا ایک راستہ نکال لیا ہے۔ لیکن جس سے آپ نے رشوت لی اس سے آپ نے پوچھ لیا تھا کہ اس کا بھی گزارا ہوتا ہے یا نہیں ؟ انتہائی دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ارشاد و ہدایت کے وہ ادارے اور اس کی ذمہ دار شخصیات جو کبھی اس امت کے بگاڑ کو روکنے کا آخری ذریعہ سمجھی جاتی ہیں ان کو بھی اس برائی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دین کے نام پر دولت کمائی جاتی ہے اور ارشاد و ہدایت کی مسندوں پر بیٹھنے والے فتوحات لیے بغیر اپنے مریدوں کو دیدار تک کرانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ہر وہ آدمی جو ان کے پاس کچھ سیکھنے کا ارادہ لے کرجاتا ہے جب تک اپنی ہمت سے بڑھ کر نذر پیش نہیں کرتا اس وقت تک دروازہ ان کے لیے نہیں کھلتا کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ علامہ اقبال کے پاس ایسے ہی ایک صاحب بڑی عقیدت لے کر حاضر ہوئے وہ ابھی اقبال سے اظہار عقیدت ہی کر رہے تھے کہ ان کا ایک غریب مرید انھیں ڈھونڈتا ہوا وہاں جا پہنچا۔ ان کے سامنے اس نے ادب سے بیٹھتے ہوئے پہلے اپنی غربت کی کہانی سنائی اور پھر اپنے پلو سے ایک روپیہ نکالاجو نجانے اس نے ایک ایک آنہ کر کے کس طرح مکمل کیا تھا وہ اس نے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت صاحب نے بجائے خود دعا کرنے کے علامہ سے گزارش کی کہ آپ دعا فرمائیں۔ علامہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ یا اللہ یہ غریب شخص جو بری طرح قرض میں جکڑا ہوا ہے اس کے حال پر رحم فرما جب کہ اس کے قرضہ میں مزید ایک روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ جو نجانے وہ کہاں سے لے کر آیا اور اس نے اپنے پیر صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ کہنا یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ نے توازن قائم کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے کہ جب ناپ تول کرو تو پورا پورا ناپو اور تولو۔ اور جب زندگی کے معاملات لوگوں کے ساتھ انجام دو تو اس میں بھی پوری طرح انصاف اور توازن سے کام لو کہیں بھی ڈنڈی مارنے کی کوشش نہ کرو اور ناپ تول کے بارے میں خاص طور پر آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحمت کرے جو بیچنے کے وقت بھی نرم ہو کہ حق سے زیادہ دے اور خریدنے کے وقت بھی نرم ہو کہ حق سے زیادہ نہ لے بلکہ کمی بھی ہو تو راضی ہوجائے اور ایسے ہی موقع پر ایک وزن کرنے والے کو حکم دیا کہ زِن و ارجح یعنی تولو اور جھکتا ہوا تولو اور اس حوالے سے خود آنحضرت ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب آپ اپنا قرض ادا فرماتے تھے تو عموماً جتنا قرض ہوتا تھا اس سے کچھ زیادہ ادا فرمایا کرتے تھے۔ اسی سلسلے کا آنحضرت کا ایک واقعہ ہے وہ جہاں زیر بحث بات پر دلالت کرتا ہے وہاں آپ کی حقانیت کا شاہد بھی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ نے ایک یہودی سے کچھ غلہ قرض لیا اور ادائیگی کی ایک تاریخ طے فرما لی وہ تاریخ آنے سے پہلے ہی مطالبہ لے کر حاضر ہوگیا۔ آنحضرت نے صرف اتنا فرمایا کہ ابھی تو ادائیگی کا وقت نہیں آیا تم پہلے ہی آگئے ہو۔ اس نے بجائے اپنے قصور کا اعتراف کرنے کے بدتمیزی اور گستاخی شروع کردی۔ اب وہ جیسے جیسے گفتگو میں تیز ہوتا جا رہا تھا حضور کی خاموشی ویسے ویسے بڑھتی جا رہی تھی حتیٰ کہ اس نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ تم جو آل عبدالمطلب ہو تم تو ہمیشہ کے نادہند ہو۔ اس پر حضرت عمر فاروق ( رض) برداشت نہ کرسکے وہ اٹھے اور اسے گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑا کہ تم یہ کیا بکواس کر رہے ہو۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کو سختی سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور ساتھ ہی کہا کہ تمہیں اس طرح اس سے پیش نہیں آنا چاہیے تھا بلکہ تمہیں یہ چاہیے تھا کہ مجھے سمجھاتے کہ حضور اگر آپ نے قرض لیا تھا تو آپ کو ادائیگی کی فکر بھی کرنی چاہیے تھی اور اسے حسن معاملہ کی تلقین کرتے۔ لیکن تم نے جو اس کے ساتھ سختی کی ہے اب اس کا معاوضہ یہ ہے کہ جتنا میں نے اس سے قرض لیا ہے اسے اس سے کچھ بڑھ کر ادا کرو۔ مثلاً ایک من کے بدلے سوا من۔ چناچہ جب اسی طرح اضافے کے ساتھ اسے اس کا قرض ادا کردیا گیا تو وہ چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد لوٹ کے آیا اور کہا حضور میں ایک یہودی ہوں اور کتاب کا علم رکھتا ہوں میں نے اپنی کتاب یعنی تورات میں نبی آخر الزماں کی علامتیں پڑھی ہیں باقی تمام علامتیں میں آپ میں دیکھ چکا تھا صرف ایک علامت تھی جسے میں جاننا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ہماری کتاب میں یہ لکھا ہے کہ جو آخر الزماں نبی ہوں گے ان کی علامت یہ ہے کہ لوگوں کی گستاخیاں ان کے تحمل اور بردباری کو شکست نہیں دے سکیں گی۔ وہ سخت سے سخت رویہ اختیار کرنے والوں سے بھی نرمی اور حسن اخلاق سے پیش آئے گا۔ کہا آج میں اس نشانی کو دیکھنے کے لیے آیا تھا چناچہ آج میں نے پوری طرح اس نشانی کو دیکھ لیا ہے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ واقعی وہی نبی ہیں جس کی خبر ہماری کتابوں نے دی تھی۔ اب مجھے کلمہ پڑھایئے اور مسلمان کیجئے۔ اس کے بعد اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا حکم نہیں دیتے۔ اس کے تین مطلب اہل علم نے بیان کیے ہیں۔ ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ نے شریعت میں جتنے احکام دیئے ہیں وہ انسان کی فطرت اور اس کی صلاحیتوں کو تول کردیئے ہیں۔ ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اس کے تحمل سے بڑھ کر ہو اس لیے کل کو کوئی آدمی اللہ کے سامنے یہ عذر نہیں کرسکے گا کہ شریعت میں جو احکام ہمیں دیئے گئے تھے وہ چونکہ بہت سخت تھے ہم کسی طرح اس پر عمل کرسکتے تھے اس لیے یہاں فرمایا کہ ہم چونکہ انسانی فطرت اور انسان کی صلاحیتوں کے پیدا کرنے والے ہیں ہم خوب جانتے ہیں کہ اس کے تحمل اور برداشت کا عالم کیا ہے اس لیے ہم نے جو بھی حکم دیا ہے وہ ٹھیک ٹھیک اندازہ کر کے دیا ہے اگر کوئی حکم کسی کو سخت معلوم ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ حکم میں سختی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکم پر عمل کرنے والا یا تو فسادِ نیت کا شکار ہے اور یا قوت ارادی کی کمزوری کا۔ ورنہ اسلامی شریعت کے احکام میں ایسی کوئی سختی نہیں جس کا تحمل انسان کے لیے مشکل ہو۔ دوسرا اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ آنحضرت ﷺ کا اپنا عمل یہ تھا کہ آپ ہمیشہ اصل قرض سے بڑھ کر ادا فرماتے تھے اور ہر حکم کی تعمیل میں واجب سے بڑھ کر ہمت صرف کرتے تھے جس سے امت کو یہ سبق ملتا تھا کہ اسے بھی مالی معاملات ہوں ‘ بدنی معاملات ہوں یا لین دین کے معاملات اس میں حق واجب سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہیے اور ادائیگی کرنی چاہیے۔ اس لیے یہاں یہ بات کہہ کر یہ تسلی دی گئی ہے کہ اگرچہ آنحضرت کا اپنا اسوہ یہی ہے لیکن اس کی حیثیت تقویٰ اور اخلاق کی ہے قانون کی نہیں۔ کوئی آدمی زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے سرخرو کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ لیکن ہر آدمی چونکہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا اس لیے اس کو فرض یا واجب قرار نہیں دیا گیا جس آدمی نے اپنے ذمے حق کو پورا پورا ادا کردیا ہے لیکن اس نے حق سے زائد کچھ نہیں کیا تو وہ یقینا اللہ کے سامنے مواخذہ سے بچ جائے گا۔ تیسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ جن طبیعتوں پر نیکی کا غلبہ ہوتا ہے وہ ایسی صورت میں بھی اسلامی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کی جسمانی صحت ان کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ بالآخر وہ اصل احکام کی بجاآوری سے بھی معذور ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک شیخ فانی کو اللہ تعالیٰ نے روزے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے وہ اگر چاہے تو اسے اس بات کی اجازت ہے کہ بجائے خود روزہ رکھنے کے دوسرے کو روزہ رکھوا دے لیکن بعض نیک لوگ ایسی صورت میں بھی چاہے اس کا نتیجہ ان کی صحت کے لیے کیسا ہی خطرناک نکلے وہ روزہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے بہت بڑی نیکی سمجھتے ہیں۔ ان سے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ ہر شخص پوری دیانت و صداقت کے ساتھ شرعی احکام کی تعمیل ظاہراً و باطناً کرے۔ لیکن اگر اس کی جسمانی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی تو اسے شرعی احکام سے کشتی لڑنے کی اجازت نہیں اس کا جسم جس حد تک تحمل کرسکتا ہے وہ اسی کا پابند ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس اجازت کو بہانہ نہیں بنا لینا چاہیے جس طرح ہمت سے بڑھ کر احکام کی تعمیل کوئی نیکی نہیں اسی طرح ہمت کی کمزوری کا بہانہ بنا لینا بہت بڑی برائی ہے۔ دونوں کے درمیان اعتدال اختیار کرنا ہی اصل میں اس کا صحیح مفہوم ہے۔ ہمیشہ حق و انصاف کے مطابق بات کرو اس آیت کریمہ میں تیسرا مگر مجموعی طور پر آٹھواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ جب تم کوئی بات کہو تو عدل اور انصاف کے ترازو میں تول کے کہو۔ اس حکم کا تعلق بھی انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے تمام معاملات میں پاکیزگی اور اس کے سیرت و کردار کی تعمیل میں اکل حلال کے ساتھ ساتھ جو چیز سب سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے وہ یہی چیز ہے کہ آدمی اپنے قول میں سچا اور اپنے رویے میں کھرا ہو وہ جب بھی کوئی بات منہ سے نکالے تو اسے حق اور عدل کی کسوٹی پر پوری طرح پرکھ کے دیکھ لے اس میں صداقت و امانت بھی شامل ہو اور حکمت و مروت بھی یعنی نہ تو منہ سے ایسی بات نکلنی چاہیے جو جھوٹ پر مبنی ہو اور نہ زبان سے ایسی بات ادا ہونی چاہیے جو معاملات میں پیچیدگی کا باعث ہو اور دلوں کو زخم پہنچانے والی ہو۔ اس میں ذرا سی بےاحتیاطی بہت ساری الجھنوں کا باعث بنتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جس برائی نے بری طرح دراڑیں پیدا کی ہیں وہ یہی ہے کہ ہم قدم قدم پر زبان کا غلط استعمال کرتے ہیں یہ زبان اور یہ قوت گویائی جو اللہ کی بیش بہا نعمت ہے ہم اسے نہایت غلط طریقے اور غلط جگہوں پر استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے بات بات پر جھوٹ بولنا ‘ معمولی سے نفع کی خاطر اور معمولی لالچ میں آکر بات کو کچھ سے کچھ بنادینا اور معمولی سے معمولی خوف کا شکار ہو کر بات سے مکرجانا اور معمولی معمولی فوائد کی خاطر عدل اور انصاف کا خون کردینا یہ ہمارا روزمرہ بن گیا ہے۔ اسی نے ہماری اجتماعی زندگی میں ایسے کانٹے بکھیرے ہیں جو ہمیں آنکھوں سے چننے پڑ رہے ہیں۔ ہمارا مقتدر طبقہ ‘ ہماری عدالتیں ‘ ہماری انتظامیہ ‘ ہمارے باقی اجتماعی ادارے بھی اس برائی کا بری طرح شکار ہوگئے ہیں۔ ہمیں اس بات کا شاید بالکل احساس نہیں رہا کہ ہماری زبان سے نکلنے والا ایک ایک بول کل کو میزان قیامت میں تول بن جائے گا۔ جس پر ہماری اخروی زندگی کا دارومدار ہے۔ لیکن یہاں یہ حکم جس سیاق کلام میں وارد ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق دو چیزوں سے ہے ایک تو یہ کہ فرض کرو تمہیں کہیں کسی معاملے میں گواہی دینی پڑے تو تمہیں اپنی گواہی میں عدل اور قسط کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھنا ہے۔ فرض کیجئے تمہاری گواہی سے ایک فریق کو فائدہ پہنچتا ہے اور دوسرے کو نقصان لیکن دونوں صورتوں میں تم نے اگر انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا تو کل کو دونوں فریقوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جب تم گواہی دو تو بالکل وہی بات کہو جو حقیقت میں تم جانتے ہو اور جس کو تمہاری آنکھوں نے دیکھا ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم اس میں مزید چھان بین کرلو اور اس بات کی بالکل پرواہ نہ کرو کہ تمہاری گواہی سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان بلکہ تمہیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں کیا یہ میرے علم اور واقعے کے مطابق ہے یا نہیں ؟ اور کیا اس بارے میں اللہ کے سامنے جب مجھ سے پوچھا جائے گا تو کیا میں یہ کہہ کر سرخرو ہو سکوں گا کہ میں نے واقعی اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے غلط گواہی کو شرک کے برابر قرار دیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے یہاں شرک اتنا بڑا گناہ ہے جسے معاف کرنے سے اللہ نے انکار کردیا ہے۔ حضور نے ارشاد فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے اور اس پر قرآن کریم کی ایک آیت سے استدلال بھی فرمایا۔ دوسری چیز جو اس حکم سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا موقع دے کہ تم منصف اور جج کے مسند پر فائز کردیئے جاؤ تو فرمایا جا رہا ہے کہ تم اس مسند پر بیٹھ کر عدل اور قسط کے مطابق ٹھیک ٹھیک فیصلے کرو۔ تمہاری یہ ذمہ داری ہے کہ ہر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کی پوری طرح چھان بین کرو۔ گواہیوں کو اچھی طرح جانچو ‘ پرکھو اور پھر صورت معاملہ کو پوری طرح سمجھنے کے بعد کامل تقویٰ اور شعور کے ساتھ معاملے کا فیصلہ کرو۔ تمہارے فیصلے سے اگر تمہارے کسی اپنے عزیز یا دوست پر ضرب پڑتی ہے تو اس کی بالکل پرواہ نہ کرو اور اگر اس سے کسی دشمن کو فائدہ پہنچتا ہو تو تب بھی تم عدل و قسط کو ہاتھ سے نہ جانے دو ۔ اسی کی تاکید کے لیے آنحضرت : نے ارشاد فرمایا قاضی یعنی مقدمات کا فیصلہ کرنے والے تین قسم کے ہیں ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں جس نے معاملہ کی تحقیق شریعت کے موافق کر کے حق کو پہچانا پھر حق کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے اور جس نے تحقیق کر کے حق بات کو جان تو لیا مگر جان بوجھ کر فیصلہ اس کے خلاف کیا وہ دوزخی ہے اور اسی طرح وہ قاضی جس کو علم نہ ہو یا تحقیق اور غور و فکر میں کمی کی اور جہالت سے کوئی فیصلہ دے دیا وہ بھی جہنم میں جائے گا۔ اسی کی مزید تائید اور تاکید کے لیے فرمایا : وَلَوْ کَانَ ذَا قُرَبیٰ کہ تمہاری گواہی یا تمہارے فیصلے کی زد اگر تمہارے کسی قرابت دار پر پڑتی ہے تو تب بھی تمہیں عدل سے ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے۔ اللہ سے کیے عہد کو پورا کرو اس آیت کریمہ میں چوتھا حکم اور مجموعی طور پر احکام عشرہ کا نوواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ اللہ کے عہد کو پورا کرو اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اس عہد الست کو پورا کرو جو عالم ارواح میں اللہ نے انسانی روحوں سے لیا تھا سب کو جمع کر کے پوچھا تھا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں “ سب نے بالاتفاق کہا تھا کہ ہاں آپ ہی ہمارے رب ہیں اور ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً جتنے اللہ کے پیغمبر آئے اور کتابیں آئیں انھوں نے آکر اسی عہد کی یاددہانی کرائی۔ سعید روحوں نے اس یاددہانی کو قبول کیا اور ایمان لے آئیں۔ لیکن جنھوں نے معصیت اور بگاڑ کی شدت کے باعث اپنے آپ کو بالکل ناکارہ بنا لیا تھا وہ ایمان سے محروم رہیں۔ یہاں اسی کا حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ کے اس عہد الست کو پورا کرو جس میں تم نے اللہ کو اپنا رب مان کر یہ تسلیم کیا تھا کہ تم اللہ ہی کی بندگی اور اطاعت کرو گے۔ سو آج اسی بندگی کی دعوت لے کر ہمارے آخری رسول تم میں مبعوث ہوئے ہیں ‘ اپنے اس عہد کی پاسداری کرتے ہوئے ان پر ایمان لائو۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ جب ایک آدمی کلمہ طیب یا کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوتا ہے تو وہ اصلاً اللہ سے یہ عہد کرتا ہے کہ یا اللہ میں تجھے ہی الہٰ یعنی معبود برحق اور حاکم حقیقی جانتا ہوں میں نہ کسی کے سامنے عبادت کے لیے سر جھکائوں گا اور نہ میں کسی کی غیر مشروط اطاعت کروں گا صرف تیرے ہی سامنے میرا سر جھکے گا اور تیرے ہی قانون کو میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کروں گا اور مسلمان اجتماعی طور پر یہ کلمہ پڑھتے ہوئے اسی عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی قطعہ زمین عطا فرمائے گا جس میں ہماری اپنی حکومت ہوگی تو اس میں ہم اللہ ہی کے قانون کو نافذ کریں گے اور اسی کی غیر مشروط اطاعت کریں گے۔ کوئی ملکی قانون جو اللہ کے قانون سے متصادم ہوگا ہم اسے ماننے سے انکار کردیں گے حکمرانوں کی کوئی ایسی اطاعت جو اللہ کی اطاعت سے ٹکرائے گی ہم ایسی اطاعت کرنے سے انکار کردیں گے۔ اس حوالے سے ہمارے قرن اول کی تاریخ روشن مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ ہم نے اللہ سے کیے ہوئے اس عہد کو ہمیشہ پورا کرنے کی کوشش کی چاہے ہمیں اس کے لیے کیسی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑی ہو۔ مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ امیر معاویہ ( رض) نے اپنے پڑوسی عیسائی ملک سے جنگ بندی کا ایک معاہدہ کیا اور ایک مدت طے پا گئی کہ اس مدت کے دوران جانبین میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرے گا۔ چناچہ جب وہ مدت اختتام کے قریب پہنچی تو امیر معاویہ نے سرحد پر فوجیں جمع کرنے کا حکم دے دیا کہ جیسے ہی یہ مدت ختم ہو اسی دن یا اسی رات ہماری فوجیں دشمن کے ملک پر حملہ کردیں۔ چناچہ حکم کی تعمیل کی گئی۔ امیر معاویہ خود فوجوں کی کمانڈ کرتے ہوئے دشمن کے ملک میں داخل ہوگئے۔ دشمن چونکہ بالکل بیخبر تھا چناچہ یہ علاقے فتح کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے کہ اچانک انھوں نے ایک دن دیکھا کہ ایک سوار اونٹ پر بگٹٹ بھاگے ہوئے چلا آرہا ہے اس نے ہاتھ اٹھا رکھے ہیں اور بلند آواز سے کچھ کہہ رہا ہے۔ قریب آیا تو لوگوں نے سنا کہ وہ یہ کہہ رہا تھا وَفَائً لَا غَدْرَا کہ معاہدہ پورا کرنا ہے توڑنا نہیں۔ یہ سوار قریب پہنچا تو معلوم ہوا یہ فلاں صحابی ہیں امیرمعاویہ خود آگے بڑھے پوچھا کہ میں نے کیا معاہدے کی خلاف ورزی کی ؟ ان صحابی نے بتایا کہ میں نے خود آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ تم اس وقت تک دشمن کے ملک پر حملہ نہ کرو جب تک کہ معاہدہ ختم ہونے کی اطلاع دشمن کو نہ دے دی جائے۔ اب اگرچہ معاہدہ کی مدت ختم ہوچکی ہے لیکن دشمن اس سے بیخبر ہے آپ کو اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے ورنہ یہ معاہدے کی روح کی خلاف ورزی ہوگی۔ امیر معاویہ نے جب یہ آنحضرت کا ارشاد سنا اور صحابی کی وضاحت سنی تو آپ نے فوراً سر جھکا لیا اور فوجوں کی واپسی کا حکم دے دیا اور جو علاقے فتح ہوچکے تھے ان کو چھوڑ کر واپس آگئے۔ ان دونوں طرح کے عہدوں کے ساتھ ساتھ وہ تمام معاہدے اور تمام وعدے جو ہم انفرادی طور پر ایک دوسرے سے کرتے ہیں یا مسلمان مملکت دوسری مملکتوں سے کرتی ہے اور مسلمان ریاستیں دوسری ریاستوں سے کرتی ہیں وہ تمام معاہدے بھی اس عہد سے مراد ہیں۔ یعنی مسلمانوں کے ایک دوسرے سے کیے ہوئے وعدے اور مسلمان ریاست کے دوسروں سے کیے ہوئے معاہدے اسی طرح پورے کرنے چاہئیں جس طرح اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ تمام وعدے اور تمام مواعید اللہ ہی کے نام سے وجود میں آتے ہیں اور اللہ ہی نے ان کی پابندی کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر ہم ان کو توڑیں گے تو دنیا میں جو ہوگا سو ہوگا اللہ کے یہاں اس کی ہمیں جواب دہی کرنی پڑے گی۔ کیونکہ قرآن کریم نے دوسری جگہ اسی حکم کو مطلق رکھا ہے یہاں تو عہد کو عہد اللہ کہا گیا ہے وہاں صرف عہد کا لفظ آیا ہے۔ فرمایا اَوْفُوْا بِالْعَہْدِ ج اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُولاً ” عہد کو پورا کرو ‘ بیشک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا “ (بنی اسرائیل : 34) ۔ یہاں عہد سے مراد ہر طرح کا عہد ہے چاہے وہ اللہ کے ساتھ ہو ‘ چاہے ریاستوں کے مابین ہو اور چاہے انفرادی طور پر باہمی معاملات میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپس کے وعدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص اگر انفرادی طور پر اللہ کے ساتھ کوئی نذر مانتا ہے تو اسے پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں کی جن باتوں میں تعریف فرمائی ہے ان میں ایک بات یہ بھی ہے یوفون نذورھم وہ اپنی نذروں کو پورا کیا کرتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ وہ باتیں ہیں جس کی تمہیں اللہ نے وصیت فرمائی ہے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو۔ پچھلی آیت میں آیت کے اختتام پر یہ فرمایا تھا کہ ان باتوں کی اللہ نے تمہیں وصیت اس لیے کی ہے تاکہ تم ان باتوں میں تعقل سے کام لو اور غور و فکر کرو اور اگلی آیت کریمہ میں اسی طرح کا جملہ لا کر آخر میں فرمایا کہ یہ تمہیں جو وصیت کی جا رہی ہے یہ اس لیے ہے تاکہ تم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جوہر عقل سے نوازا ہے اور یہ ایک ایسا نور ہے کہ جس پر اگر خواہشات مفادات اور عصبیتوں کا اندھیرا غالب نہ آجائے تو وہ انسان کو ہمیشہ راہ راست کیطرف راہنمائی کرتا ہے۔ لیکن جب اس پر دوسری چیزیں پردہ ڈال دیتی ہیں تو پھر یا تو یہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا خواہشات کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے اور خواہشات پوری کرنے کے لیے اس کے لیے دلائل گھڑتا اور ضمیر کو سلانے کی کوشش کرتا ہے۔ مشرکین مکہ مسلسل شرک اور کفر کے ارتکاب کی وجہ سے ایک ایسی اندھی عصبیت کا شکار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے انکے عقل و شعور کے چراغ گل ہوگئے تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ اپنی جہالت کو ملت ابراہیمی کا نام دے رہے تھے۔ انھیں سب سے پہلے اسی تعقل کو اختیار کرنے کی دعوت دی گئی کہ جہالت کے اندھیروں سے نکلو اور عقل کی روشنی میں خود اپنے رویے کا جائزہ لو اور پھر ملت ابراہیمی کی مزید باتیں اور مزید احکام بتا کر ان سے فرمایا کہ اگر تم نے تعقل کا سفر مکمل کرلیا ہے اور تم نے واقعتا صحیح سمت میں غور و فکر شروع کردیا ہے تو اب تمہاری دوسری منزل یہ ہے کہ تم تذکر سے کام لو اور اپنے اصل مقام کو سمجھنے اور مقصد حیات کو جاننے کے لیے فکر مندی پیدا کرو تمہارا اصل مقام اور مقصد تمہارے سامنے مسلسل نمایاں اور واضح کیا جا رہا ہے اگر تم عصبیت کے اندھیروں سے نکل کر ان باتوں پر غور کرو گے تو یہ یاد دہانی تمہارے سامنے تمہارے اصل مقام کو واضح کر دے گی اور جب تم نے اپنی اور کائنات کی حقیقت اور پھر ان دونوں میں باہمی تعلق اور اللہ کے ساتھ اپنے رشتے کی حقیقت کو سمجھ لیا اور اس یاد دہانی کی منزل سے خیریت سے گزر گئے تو پھر یقینا تمہارے اندر تقویٰ یعنی اللہ کا خوف پیدا ہوجائے گا اور اپنے انجام کے بارے میں تمہارے اندر فکر مندی ابھرے گی اور اپنے معمولات کے حوالے سے تمہیں یہ احساس دامن گیر ہوجائے گا کہ جسطرح کی زندگی ہم گزار رہے ہیں اللہ کے سامنے جا کر ہم اسکا کیا جواب دے سکیں گے تو یہی وہ آخری منزل ہے جہاں پہنچ کر آدمی اپنے مقصد حیات کو بھی پا لیتا ہے اور وہ زندگی بھی اختیار کرلیتا ہے جو اسے آخرت میں سرخرو کرسکے گی۔ اب اگلی آیت کریمہ میں احکام عشرہ میں سے دسواں حکم بیان کیا جا رہا ہے۔
Top