Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 15
قُلْ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں اِنْ : اگر عَصَيْتُ : میں نافرمانی کروں رَبِّيْ : اپنا رب عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : بڑا دن
کہہ دو ! اگر میں نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی ‘ تو میں ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
ارشاد ہوتا ہے : قُلْ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ۔ (الانعام : 15) ” کہہ دو ! اگر میں نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی ‘ تو میں ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں “۔ توحید کے مختلف گوشوں کو مستحکم کرنے اور شرک کے ہر ممکن خطرے سے بچانے کے لیے ‘ جن جن ہدایات کی ضرورت تھی ‘ وہ ایک ایک کر کے عطا کی جا رہی ہیں اور اس طرح عقیدہ توحید کو ایک جامع اور کامل شکل دی جا رہی ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بار بار اس کا واسطہ ذات رسالت مآب ﷺ کو بنایا جا رہا ہے حالانکہ اللہ کے یہاں ان کا جو مقام و مرتبہ ہے ‘ اس کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھنا بندوں کے لیے تو ویسے ہی ممکن نہیں۔ پوری کائنات ان کے پائوں کی دھول کے بھی برابر نہیں ہوسکتی۔ بایں ہمہ ! بار بار انہی کو خطاب کیا جا رہا ہے اور انہی سے ان باتوں کا اظہار کرایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شاید ہمیں یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تم توحید کی عظمتوں کو دل میں اتارنے کی کوشش کرو اور شرک کی شناعت کو پوری طرح سمجھنے اور اس کی گندگی سے بچنے کا پوری طرح اپنے اندر عزم پیدا کرو کیونکہ اگر اس میں ذرا بھی کمزوری قابل برداشت ہوتی تو نبی کریم ﷺ سے ان باتوں کا اظہار نہ کرایا جاتا۔ وہی ایک ذات والا صفات ایسی ہوسکتی ہے ‘ جنھیں شاید شریعت کی پابندیوں سے استثناء مل سکتا۔ لیکن اگر وہ بھی اللہ کی نافرمانی یا توحید میں کسی کمی بیشی کی صورت میں ‘ اللہ کے عذاب سے خوفزدہ ہیں تو پھر اور کون ہے ‘ جو اس سے مستثنیٰ ہوسکتا ہے ؟ ہر دور کے انسانوں میں ہم یہ کمزوری دیکھتے ہیں کہ وہ جن لوگوں کو عظمتوں کا پیکر سمجھتے ہیں۔ انھیں شرعی احکام کی پابندیوں سے بھی مستثنیٰ سمجھنے لگتے ہیں۔ چناچہ یہیں سے شرک کو راستہ ملتا ہے اور لوگ ایسے باعظمت لوگوں کے بارے میں آہستہ آہستہ خدائی صفات کا تصور کرنے لگتے ہیں اور بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ بعض لوگ شاید اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ‘ اس کی عبادت سے بھی مستثنیٰ ہوجاتے ہیں۔ ہمارے بزرگانِ دین میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ( رح) بڑے عظیم مقام و مرتبہ کے مالک ہیں۔ ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ وہ جوانی میں کسی جنگل سے گزر رہے تھے کہ اچانک ان کے سامنے ایک روشنی نمودار ہوئی۔ سر اٹھا کے دیکھا تو ایک شہزادہ سا نظر آیا ‘ پھر آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ لیکن اس کی آواز آئی کہ عبدالقادر ! جانتے ہو میں کون ہوں ؟ میں تمہارا خدا ہوں۔ میں تمہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم نے میری بہت عبادت کی ‘ میں تم سے بہت خوش ہوں ‘ چناچہ اس خوشی میں میں تمہیں اپنی عبادت سے رخصت دے رہا ہوں ‘ آج کے بعد تم پر کوئی پابندی نہیں۔ شیخ کہتے ہیں کہ مجھے معاً خیال آیا کہ عبادت سے رخصت تو آنحضرت ﷺ کو بھی نہ ملی ‘ آپ شدید بیماری میں بھی نماز کی پابندی فرماتے رہے اور زندگی میں کوئی نماز کبھی آپ کی قضا نہ ہوسکی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس کی پابندی سے حضور ﷺ مستثنیٰ نہ ہوئے ‘ مجھے اس سے مستثنیٰ کیا جا رہا ہے ؟ اللہ نے میری مدد فرمائی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ شیطان ہے ‘ جو مجھے ورغلانا چاہتا ہے۔ میں نے فوراً کہا لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ شیطان چیختا ہوا بھاگا۔ لیکن جاتے ہوئے اس نے پھر کمند پھینکی۔ کہنے لگا کہ عبدالقادر ! تمہیں تمہارے علم نے بچا لیا ‘ ورنہ نجانے اب تک میں کتنے زاہدوں کو برباد کرچکا ہوں۔ حضرت شیخ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ یہ ظالم اب بھی باز نہیں آیا ‘ چناچہ میں نے کہا کہ مجھے میرے علم نے نہیں بچایا بلکہ میرے اللہ نے مجھے بچایا ہے۔ ان آیات میں آنحضرت ﷺ کو خطاب اور آپ کے واسطے سے ان توحیدی کلمات کو کہلوانا شاید اس کا یہ مطلب ہے کہ لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ وہ بنیادی عقیدہ ہے ‘ جس میں کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر تو دنیا میں کوئی ذات نہیں اور اگر آپ بھی اس کے پابند ہیں تو اور کوئی کس شمار قطار میں ہے۔ اسلام کا نظریہ توحید اسلام نے مسلمانوں کو جس عقیدہ توحید کی تعلیم دی ہے۔ وہ محض ایک نظریاتی بحث اور علم کلام کا کوئی مسئلہ نہیں کہ جس کا تعلق صرف کتابی زندگی سے ہو اور عملی زندگی میں اس سے کوئی واسطہ نہ پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقیدہ توحید مسلمانوں کی زندگی میں ایک ایسی زندہ قوت کا نام ہے ‘ جس کی موجودگی سے مسلمان زندہ ہیں اور جس کے نکل جانے سے مسلمانوں کی اسلامی زندگی موت کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم عقیدہ توحید پر غور کرتے ہیں تو اس کی بنیاد ‘ سب سے پہلے اس تصور پر اٹھائی گئی ہے کہ زمین و آسمان اور خود حضرت انسان کا خالق ومالک اور حاکم حقیقی ‘ صرف خداوند ذوالجلال ہے۔ اسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے زندگی گزارنے کا ایک نظام دے اور اس نظام کے حوالے سے قیامت کے دن اس سے بازپرس کرے۔ اس بنیاد کو اگر سمجھ لیا جائے تو پھر یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا کہ ان بنیادی تصورات میں آخرت میں جواب دہی کا احساس اور اپنی بداعمالی کے نتیجے میں جہنم کے عذاب کے خوف کو اگر دل و دماغ میں راسخ نہ کیا جائے تو یہ بنیادی تصورات ‘ مذہبی ضرورت کو تو پورا کرسکتے ہیں ‘ لیکن اگر مذہب کا مقصد انسانی زندگی کی اصلاح ‘ شائستگی ‘ تطہیرِ فکر اور تہذیبِ نفس ہے تو یہ اس وقت تک انسانی زندگی میں پیدا نہیں کیے جاسکتے ‘ جب تک آدمی قیامت کے دن اپنی بداعمالی کے نتیجے سے فکر مند نہیں ہوگا اور اللہ کے عذاب سے لرزاں و ترساں نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ جب تک ان میں قیامت کے عذاب کا خوف باقی رہا اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس زندہ رہا ‘ ان کی زندگیاں بےعملی اور بد عملی کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ وہ اگر تخت حکومت پر بھی بیٹھتے تھے تو اس یوم عظیم کا ڈر انھیں ظلم کرنے سے روکتا تھا اور معمولی سے معمولی آدمی بھی ‘ جب ان سے انصاف مانگنے آتا تھا تو وہ یہ سوچ کر سہم جاتے تھے کہ آج میں نے اگر اسے انصاف نہ دیا تو کل جب میں اللہ کی عدالت میں کھڑا ہوں گا تو میرے ساتھ کیا گزرے گی اور جب انھیں اپنوں کی خواہشیں یا حالات کا دبائو راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کرتا تو ہمیشہ یہی فکر انھیں راہ راست پر رکھتی تھی۔ تاریخ کی نہایت ممتاز شخصیت حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جب انھوں نے ظلم سے حاصل کی ہوئی تمام دولت اور تمام جائیداد خاندان سے چھین کر بیت المال کو واپس کردی اور خود خلفاء کی اولاد ہوتے ہوئے بھی اپنے پاس بھی کچھ نہ رہنے دیا تو گھر میں غربت نے بسیرا کرلیا۔ ایک دن گھر تشریف لائے تو بیٹیوں نے آگے بڑھ کر آپ کا اس طرح استقبال کیا کہ انھوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے یہ حالت دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا تو آپ کی پھوپھی صاحبہ نے بتایا کہ گھر میں سوائے مسور کی دال اور پیاز کے اور کچھ نہ تھا ‘ بچیوں نے دونوں چیزیں ابال کر اپنا پیٹ بھرا ہے ‘ آپ کو چونکہ پیاز کی بو سے بہت نفرت ہے ‘ ان کا گمان ہے کہ شاید ان کے منہ سے بو آتی ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھے ہوئے ہیں۔ آپ نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ بیٹیو ! تم میں سے ایک ایک مجھے اپنی جان سے زیادہ پیاری ہے۔ میرے پاس جو کچھ ہے ‘ وہ سب تمہارے لیے ہے۔ لیکن اس سے زیادہ بیت المال سے لے کر اگر تمہاری نذر کر دوں تو یقینا گھر کی حالت بدل سکتی ہے۔ مگر کل کو مجھے اس کی جواب دہی کرنا ہوگی۔ پھر تمہارے باپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ اس لیے میں یہ تو برداشت کرسکتا ہوں کہ ہم گھر میں فاقوں سے گزارا کرلیں ‘ لیکن میں قیامت کے عذاب کا سامنا نہیں کرسکتا اور اس کے بعد انھوں نے یہی آیت پڑھی کہ میں اس بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ چناچہ اسی زندہ توحید کو مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتارنے کے لیے جہاں بنیادی تصورات پر زور دیا گیا ‘ وہیں اس عذاب عظیم کا احساس بھی دلایا گیا ‘ جس سے فی الواقع انسانی اعمال میں تبدیلی آتی ہے اور انسانی خواہشوں پر غلبہ پانے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ انسان کے اعمال اس کے مقصد حیات کے پرتو ہوتے ہیں ایک اور حقیقت بھی قابل توجہ ہے کہ ان تمام تصورات اور بنیادی احساسات میں یقینا اتنی قوت ہے کہ ان کے قبول کرلینے کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ زندگی میں تبدیلی نہ آئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ یہ تصورات کبھی دل و دماغ میں اترنے نہیں پاتے ‘ جب تک آدمی ایک اور بات کا فیصلہ نہ کرے۔ وہ بات یہ ہے کہ آخر زندگی گزارنے والا اپنے سامنے زندگی کی کامیابی اور اس کی کامرانی کسے قرار دیتا ہے اور اس کے سامنے وہ کون سی منزل اور کون سا ہدف ہے ‘ جس کو حاصل کرلینا ‘ اس کے نزدیک زندگی کی کامیابی ہے ؟ یہ وہ بات ہے ‘ جس کے فیصلے پر باقی تمام فیصلوں کا دارومدار ہے۔ ایک آدمی اگر حصول اقتدار کو اپنی کامیابی کی منزل قرار دیتا ہے تو اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوسکتی کہ اس کے اپنے اخلاق اور اللہ سے اس کا تعلق اور بنیادی اقدار سے اس کی وابستگی کا عالم کیا ہے۔ اسے تو اقتدار چاہیے ‘ چاہے اس کے لیے اسے بڑے سے بڑا ظلم اور بڑے سے بڑے گناہ کا ارتکاب ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح اگر ایک آدمی ‘ کامیابی دولت مندی کو سمجھتا ہے تو اس کے لیے یہ بات بےمعنی ہے کہ جائز ناجائز اور حلال اور حرام کی کیا اہمیت ہے۔ ہماری قریبی تاریخ میں غیر مسلم صحافیوں میں ایک مشہور صحافی سردار دیوان سنگھ مفتون گزرے ہیں۔ انھوں نے ایک زمانے میں خواجہ حسن نظامی مرحوم اور ملا واحدی مرحوم کے ساتھ مل کر ایک اخبار جاری کیا تھا۔ ملا واحدی لکھتے ہیں کہ میرا گھر دفتر اخبار سے متصل تھا۔ میں دفتر سے فارغ ہو کر اپنے گھر چلا جاتا اور کبھی ضرورت ہوتی تو دفتر کا چکر بھی لگا لیتا۔ میں نے ایک روز گئی رات دیکھا کہ دفتر میں لائٹ جل رہی ہے۔ میں دفتر آیا ‘ دیکھا سردار صاحب میز پر بیٹھے کام کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا سردار صاحب ! کیا آپ صبح سے کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا جی ہاں ! تہجد کے وقت دیکھا تو پھر سردار صاحب کام کر رہے تھے۔ حتی کہ اگلی شام تک ناگزیر ضروریات کے علاوہ ‘ وہ مسلسل کام میں لگے رہے۔ میں نے حیران ہو کر ان سے کہا ! میں دیکھ کر پریشان ہو رہا ہوں کہ کل سے آپ مسلسل کام کر رہے ہیں۔ آخر آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں ؟ کہنے لگے تاکہ میں ایک کامیاب زندگی گزار سکوں۔ میں نے پوچھا آپ کے نزدیک کامیاب زندگی کا تصور کیا ہے ؟ کہنے لگے ‘ جب میں مروں تو کم از کم اپنے بینک میں ایک لاکھ روپیہ چھوڑ کر جاؤں۔ اس زمانے کا ایک لاکھ ممکن ہے آج کے ایک کروڑ کے برابر ہو۔ ممکن ہے آپ اسے ایک انفرادی واقعہ کہہ کر نظر انداز کردیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگ اسی طرح کے مقاصد زندگی ٹھہرا چکے ہیں اور پھر اسی کے لیے محنت کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے یہاں قرآن کریم نے توحید کے وسیع تر تصور کے ساتھ ساتھ ‘ اس بنیادی بات کو نظر انداز نہیں کیا کہ جہاں تمہارے لیے عقیدہ توحید کو دل و جان سے قبول کرنا ضروری ہے ‘ وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ پہلے اپنی کامیابی کا ہدف تو مقرر کرو۔ اسی پر باقی تمام باتوں کا دارومدار ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے ارشاد فرمایا جا رہا ہے :
Top