Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 14
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ هُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُ١ؕ قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَغَيْرَ : کیا سوائے اللّٰهِ : اللہ اَتَّخِذُ : میں بناؤں وَلِيًّا : کارساز فَاطِرِ : بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : زمین وَهُوَ : اور وہ يُطْعِمُ : کھلاتا ہے وَلَا يُطْعَمُ : اور وہ کھاتا نہیں قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْٓ اُمِرْتُ : بیشک مجھ کو حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں اَوَّلَ : سب سے پہلا مَنْ : جو۔ جس اَسْلَمَ : حکم مانا وَ : اور لَا تَكُوْنَنَّ : تو ہرگز نہ ہو مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
کہو ! کیا میں اللہ کے سوا ‘ جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ‘ کسی اور کو اپنا کارساز بنائوں ؟ اور وہ کھلاتا ہے ‘ کھاتا نہیں۔ کہہ دو ! مجھے تو حکم ملا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا بنوں اور تم ہرگز مشرکوں میں سے نہ بنو
قُلْ اَغَیْرَ اللہِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ ط قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ (الانعام : 14) (کہو ! کیا میں اللہ کے سوا ‘ جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ‘ کسی اور کو اپنا کارساز بنائوں ؟ اور وہ کھلاتا ہے ‘ کھاتا نہیں۔ کہہ دو ! مجھے تو حکم ملا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا بنوں اور تم ہرگز مشرکوں میں سے نہ بنو) سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ تم اس بات کو مان چکے ہو کہ آسمانوں اور زمین کا مالک اور حاکم حقیقی صرف اللہ ہے اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ رات اور دن کی تاریکی اور روشنی میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ وہ سب اس کی گرفت میں ہے۔ ہر چیز اس کے قبضہ اختیار میں ہے۔ وہ انسانوں کے ایک ایک عمل اور ایک ایک احساس سے واقف بھی ہے اور ان پر پوری طرح اختیار بھی رکھتا ہے اور مزید یہ کہ یہ بات بھی تم مان چکے ہو کہ انسانی زندگی ‘ اس کی بقا کے سامان ‘ اس کا رزق ‘ اس کے احساسات ‘ اس کی توانائیاں ‘ سب کچھ اللہ کی عطا کردہ ہیں۔ یعنی ہم صرف اس کی مخلوق ہی نہیں بلکہ اس کے محکوم اور اس کے ممنون احسان بھی ہیں۔ پوچھا یہ جا رہا ہے کہ جب تم یہ سب کچھ تسلیم کرتے ہو اور میں تمہیں جس بات کی دعوت دے رہا ہوں ‘ وہ انہی مسلمات کا لازمی نتیجہ ہے کیونکہ کسی ذات کو حاکم تسلیم کرنا اور پھر محکومیت سے انکار کرنا ‘ کسی کو اپنا مالک سمجھنا اور مملوکیت سے منحرف ہوجانا ‘ کسی کو رازق جاننا اور اس کے رزق کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا ‘ یہ وہ تضاد ہے ‘ جس کی نہ کوئی قانون اجازت دے سکتا ہے اور نہ اخلاق اس کی توجیہ کرسکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ جب صورت حال یہی ہے ‘ جو میں نے بیان کی تو پھر کیا میں اس اللہ کو جسے میں حاکم حقیقی ‘ رازق حقیقی ‘ محسن حقیقی اور رحیم و کریم ذات کے طور پر مانتا ہوں ‘ کیا میں اسے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا ولی بنا لوں ؟ یعنی میں یہ سمجھوں کہ اس کے سوا میرا اور کوئی ہمدرد و غمگسار ‘ کوئی اور پالنے والا اور کوئی اور میرا کارسازہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے جو شخص بھی ان مقدمات پر غور کرے گا ‘ جس کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں تو وہ کبھی اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوگا کہ ایسا کرنا کسی طرح بھی مناسب ہے۔ پھر اس سوال کی حقانیت کو مزید واضح کرنے کے لیے ‘ دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک یہ کہ وہ صرف تمہارا ہی خالق نہیں ‘ وہ تمام آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور تم جانتے ہو کہ تمہاری زندگی اسی زمین و آسمان کی کارفرمائی کی مرہون منت ہے۔ تم جو غذا کھاتے ہو ‘ اس کا ایک دانہ اس وقت تک اگ نہیں سکتا ‘ جب تک زمین اپنی روئیدگی کے خزانے صرف نہیں کرتی اور وہ اس وقت تک برگ و بار نہیں لاسکتا ‘ جب تک موسموں کے تغیرات ‘ بادلوں کی کرم فرمائیاں ‘ ہوائوں کی چارہ جو ئیاں ‘ سورج اور چاند کی مہربانیاں ‘ پوری طرح بروئے کار نہیں آتیں۔ اس سے اندازہ کرو کہ جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے ‘ تم اس کی عنایات کے کس قدر حصار میں ہو۔ تو کیا یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ‘ تم اسے چھوڑ کر کسی اور کو کارساز بنائو گے ؟ دوسری بات یہ فرمائی کہ وہ تمہیں کھلاتا ہے ‘ خود نہیں کھاتا یعنی وہ تمہارا رب ہے اور اس کی ربوبیت صلب پدر سے لے کر شکم مادر تک اور پھر مہد سے لے کر لحد تک مسلسل تمہاری نمود و پرداخت کا فرض انجام دیتی ہے۔ اس کی نگرانی کی نگاہ اگر ذرا تم سے تغافل برتے تو تم اپنے بچپنے کی بےبسی کے نذر ہوجاؤ اور اس کے عطا کردہ حواس و عقل ‘ تم سے اگر چھین لیے جائیں تو تم جیتے جی ذلت اور حرماں نصیبی کا پیکر بن جاؤ تو کیا یہ ربوبیت کا فیضان ‘ جو ہر وقت تمہیں اپنی آغوش میں لیے رہتا ہے ‘ اس کو نظر انداز کر کے تم کسی اور کو اپنا کارساز بنا لو گے ؟ یہ وہ سوالات ہیں ‘ جو آنحضرت ﷺ کے واسطے سے نوع انسانی کے سامنے رکھے جا رہے ہیں۔ ربوبیت کے اس حوالے کے ساتھ ساتھ ایک تعریض بھی ہے کہ وہ کھلاتا ہے ‘ خود نہیں کھاتا یعنی جو ذات تمہیں کھلاتی ہے ‘ اس کے تم شریک ٹھہراتے ہو اور اس کی اطاعت سے انکار کرتے ہو اور نادانی کی انتہا ہے کہ ان قوتوں کے سامنے جھکتے ہو اور ان بتوں کو سجدے کرتے ہو ‘ جنھوں نے نہ کسی چیز کو پیدا کیا اور نہ وہ تمہیں کھلانے پلانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جن بتوں کے سامنے تم سر جھکاتے ہو ‘ تم ان کے کھانے پینے کے لیے ان کی خدمت میں حلوہ اور پوڑیوں کی نیازیں پیش کرتے ہو اور نجانے کن کن نعمتوں کے چڑھاوے چڑھاتے ہو اور تمہارا تصور یہ ہے کہ وہ ان کھانوں کی خوشبو سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے کھانے پینے میں تمہارے محتاج ہیں۔ اسی طرح جن بڑے لوگوں کو تم نے تخت ربوبیت پر فائز کیا ‘ انھوں نے خود تمہیں کیا دیا۔ الٹا تم نے ان کے لیے تخت ربوبیت بچھایا کیونکہ کوئی فرعون یا نمرود ‘ دنیا میں خدائی کے ٹھاٹ نہیں جما سکتا ‘ جب تک اس کے نام نہاد بندے ‘ اسے ٹیکس اور نذرانے نہ دیں۔ اس طرح کسی صاحب قبر کی شان معبودیت قائم نہیں ہوسکتی ‘ جب تک اس کے پرستار ‘ اس کا شاندار مقبرہ تعمیر نہ کریں۔ کسی دیوتا کا دربار خداوندی سج نہیں سکتا ‘ جب تک اس کے پجاری اس کا مجسمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نہ رکھیں اور اسے تزئین و آرائش کے سامانوں سے آراستہ نہ کریں۔ سارے بناوٹی خدا بچارے خود اپنے بندوں کے محتاج ہیں۔ صرف ایک خداوند عالم ہی وہ حقیقی خدا ہے۔ جس کی خدائی آپ اپنے بل بوتے پر قائم ہے اور جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں۔ یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ بھی تو اپنے نام پر قربانیاں دینے کا حکم دیتا ہے۔ چناچہ ہم سال بہ سال اس کے نام پر قربانی دیتے ہیں اور مختلف وقتوں میں ‘ حسب توفیق اس کی رضا کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں تو یہ بھی تو اس کو کھلانے کی ایک صورت ہوئی۔ یہ سراسر کم فہمی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی صدقات کا حکم دیا ہے ‘ وہاں انسانی ضرورتوں کا حوالہ بھی دیا ہے اور ساتھ ہدایات بھی جاری فرمائی ہیں کہ دیکھنا ! ان صدقات سے غریبوں کو فائدہ پہنچانا اور مستحقین کو کھلانا۔ غیر مستحق لوگوں کو ہرگز نہ دینا اور اپنے بارے میں بطور خاص فرمایا کہ تم جو قربانی دیتے ہو ‘ اللہ کو اس کا گوشت پوست نہیں پہنچتا بلکہ تمہارے دلوں کا تقویٰ اس تک پہنچتا ہے۔ یعنی وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ تم جو مخلوقِ خدا کی خدمت کرتے ہو اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہو ‘ یہ ان پر احسان دھرتے ہو یا یہ سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہو۔ چناچہ یہ حصول رضاکا تصور اور صرف اسی کو خوش کرنے کی فکر ‘ یہ وہ تقویٰ ہے جو اللہ کو مطلوب ہے اور یہ اصلاً ذریعہ ہے ‘ جس کے نتیجے میں اعمال صحیح صورت اختیار کرتے ہیں۔ سوال کو بہمہ وجوہ پوری گہرائی کے ساتھ ذکر فرمانے کے بعد ‘ جواب کی ذمہ داری مخاطبوں پر ڈال دی گئی ہے۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ مشرکینِ مکہ اس کا کیا جواب دیں گے کیونکہ گزشتہ کئی سالوں کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں ان سعادت مندوں کے سوا ‘ جو ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوئے ‘ باقی لوگوں نے سوائے ضد اور ہٹ دھرمی یا دشمنی اور شقاوت کے ‘ کسی بات کا اظہار نہیں کیا۔ اس لیے ان سے یہ بات بہت بعید ہے کہ وہ اس کے سوال کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے ‘ اپنے غلط رویے سے تائب ہو کر ایمان کا راستہ اختیار کریں گے۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ اپنے مشرکانہ رویے کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تم اگر اپنے رویے سے نہیں رک رہے ہو تو تم جانو اور تمہارا خدا جانے قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ (کہہ دیجئے ! مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا بنوں) اور اپنے آپ کو بالکلیہ اپنے رب کے حوالے کر دوں ‘ سو میں تو اسی کے حکم کی تعمیل کروں گا، تم میں سے کوئی میرا ساتھ دے یا نہ دے۔ آیت کے اس حصے سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ اللہ کے پیغمبر کو تبلیغ و دعوت کے سلسلے میں چاہے کیسے ہی نامساعد حالات سے واسطہ پڑے ‘ وہ کبھی بھی حالات سے متاثر ہو کر ‘ اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں کمی نہیں آنے دیتا۔ مخالفتوں کا بڑے سے بڑا طوفان بھی ‘ اس کے عزم اور اس کی یکسوئی میں کبھی فرق پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ چناچہ یہاں بھی اسی عزم و ہمت کا اظہار کیا گیا ہے کہ تم جو کرسکتے ہو کرو ‘ میں تو اللہ کے حکم کی تعمیل میں کبھی کمی کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری بات ‘ جو ہمیں معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسانی اصلاح کے لیے پیغمبروں کی طرح بعض دوسرے لوگ بھی محنت کرتے ہیں۔ ان میں بھی مصلحین ہیں ‘ شعراء ‘ مصنفین ‘ وعظ کہنے والے اور نصیحت کرنے والے بھی ہیں ‘ ذکر کی مجلسیں قائم کر کے تزکیے کا کام کرنے والے بھی ہیں۔ لیکن ان تمام میں بالعموم ایک بات دکھائی دیتی ہے کہ یہ جس بات کی دعوت دیتے ہیں ‘ عموماً خود ان کا عمل اس کی مکمل تصویر نہیں ہوتا۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ ان کا عمل اپنی دعوت کے بالکل برعکس ہو کیونکہ اگر ایسا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنی دعوت میں مخلص نہیں ہیں۔ یہاں جو بات کہنی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ پوری طرح ان کا عمل ‘ ان کی دعوت کا عکاس نہیں ہوتا۔ ان کی کمزوریاں ‘ ان کی دعوت کے باوجود ‘ ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ وہ ہرچند کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو بہتر طور پر لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ لیکن کبھی وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں ‘ کبھی نہیں ہوتے۔ اللہ کے عظیم بندے جن کو ہم اولیائِ کرام کے نام سے جانتے ہیں ‘ وہ تو بہت حد تک اپنی دعوت کی تصویر ہوتے ہیں۔ لیکن عام طور پر دوسرے مصلحین ‘ وہ اپنی دعوت کے ترجمان تو ہوتے ہیں ‘ لیکن پوری طرح نمونہ نہیں ہوتے۔ ہماری قریبی تاریخ میں جن لوگوں نے ایک وسیع سطح پر مسلمانوں کے دل و دماغ پر اثر ڈالا ‘ ان میں علامہ اقبال کا نام بڑا محترم ہے۔ اقبال ایک نہایت قابل قدر اور قابل احترام شخصیت ہیں۔ میں ان کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں اور جو انھوں نے کام کیا ہے ‘ دل کی گہرائی سے اس کا قدردان ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ بہت نیک آدمی تھے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی اپنی زندگی ‘ ان کی دعوت کی تصویر نہیں تھی۔ وہ مسلمان نوجوانوں کو جہد مسلسل اور عمل پیہم کی تصویر دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی آرزو تھی کہ ہر مسلمان نوجوان ‘ ستاروں پر کمندیں ڈالے۔ ہر نوجوان کی جوانی بےداغ ‘ ضرب کاری اور اس کے عزم کی توانائی راستے کی بڑی سے بڑی صعوبت کو پگھلاکر رکھ دے اور اس امت کا ہر چھوٹا بڑا آدمی ‘ اپنے آپ کو اللہ کا آخری پیغام جانے۔ ان کی یہ تمام باتیں ‘ ان کے اخلاص کی دلیل ہیں۔ لیکن ان کی ذاتی زندگی نہایت ڈھیلی ڈھالی ‘ آسانیوں میں ڈھلی ہوئی اور اضمحلال کا شکار تھی۔ چناچہ ایک دفعہ کسی نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ مسلمان قوم کو جس بےپناہ قوت کا درس دیتے ہیں ‘ خود آپ کی زندگی میں تو وہ دکھائی نہیں دیتا ؟ انھوں نے جواب میں نہایت سچی بات فرمائی کہ آدمی جو بات کہے ‘ خود اس پر عمل بھی کر کے دکھائے ‘ یہ شان تو صرف پیغمبروں کی ہے ‘ ورنہ عام طور پر کہنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں اور عمل کرنے والے اور ہوتے ہیں۔ چناچہ اسی سچائی کی تائید میں فرمایا جا رہا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا بنوں یعنی میرا کام صرف دعوت دینا نہیں بلکہ میں اپنی دعوت کا نمونہ بھی ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس دعوت پر عمل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ‘ میں اس کے مطابق زندگی گزار کے دکھائوں گا تاکہ بعد میں لوگ اس نمونے سے فائدہ اٹھا سکیں اور یہ معلوم ہو سکے کہ ایک پیغمبر کی زندگی میں اور دوسرے لوگوں کی زندگی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کی پوری زندگی ‘ اس بات کی تصویر ہے کہ آپ نے جس بات کا حکم اپنی امت کو دیا ‘ اس پر نہ صرف خود عمل کر کے دکھایا بلکہ اصل حکم سے بھی بڑھ کر عمل کرکے دکھایا۔ مثال کے طور پر آپ نے امت کو پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا اور خود ہمیشہ آٹھ نمازیں پڑھیں۔ آپ نے امت پر زکوٰۃ فرض فرمائی اور باقی مال کو امت کے لیے حلال و طیب ٹھہرایا ‘ لیکن خود اپنے گھر میں مال رکھنے کو کبھی پسند نہ فرمایا ‘ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کبھی آپ پر زکوٰۃ فرض نہ ہوسکی۔ جو آیا اور جتنا آیا ‘ اس کو اللہ کے راستے میں لٹا دیا۔ مختلف علاقوں کے فتح ہوجانے کے بعد اسباب اور غلے کے اونٹ لدے ہوئے آتے ‘ لیکن آپ اس وقت تک گھر نہ جاتے ‘ جب تک اہل مدینہ میں انھیں تقسیم نہ فرما دیتے۔ اسی طرح بعض دفعہ خزانے تک آئے ‘ لیکن آپ نے اس کا ایک ایک درہم مسلمانوں میں تقسیم فرما دیا۔ لوگوں کو دنیا اور دولت دنیا سے بےرغبتی کا حکم دیا اور خود اپنا عمل یہ تھا کہ نماز عصر کے فوراً بعد گھر تشریف لے گئے ‘ تھوڑی دیر کے بعد واپس تشریف لائے تو لوگوں کو حیران دیکھ کر فرمایا کہ میں اس لیے چلا گیا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ میرے بستر پر چند اشرفیاں پڑی رہ گئی تھیں ‘ میں نے سوچا کہ کیا خبر کس وقت اللہ کی طرف سے بلاوا آجائے تو کیا میں اس طرح اللہ سے ملوں گا کہ میرے گھر میں دنیا کا مال پڑا ہوا ہوگا۔ ظفر علی خاں نے ٹھیک کہا تھا قدموں میں ڈھیر اشرفیوں کا لگا ہوا ہیں دوسروں کے واسطے سیم و زر و گہر اور تین دن سے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا اپنا یہ حال کہ ہے چولہا بجھا ہوا بد ترین حالات میں بھی اللہ کے رسول کو جو نمونہ بننے کا حکم دیا جاتا ہے ‘ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ انسانی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ جہاں کتابیں نازل فرماتا ہے ‘ وہیں اپنے رسول بھی بھیجتا ہے اور ہدایت الٰہی ‘ دونوں کے دم قدم سے پھیلتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتاب اللہ یقینا ہدایت اور نور بن کے آتی ہے۔ اسی سے رسول کا دل روشن ہوتا ہے اور اسی سے امت کی راہوں کو جلا ملتی ہے۔ مگر اس ہدایت کے لیے دلوں کے راستے اس وقت کھلتے ہیں ‘ جب ان کے سامنے ایک ایسی شخصیت اپنا فرض انجام دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ‘ جس کا ایک ایک عمل اس کتاب کے نور سے روشن اور جس کی ایک ایک بات اس ہدایت کا ثبوت ہے۔ چناچہ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ یہ شخصیت اپنی قربانی ‘ اپنی سرفروشی ‘ اپنی جاں سپاری اور اپنے مسلسل عمل سے ‘ اس ہدایت کو لوگوں تک پہنچا رہی ہے تو وہ اس شخصیت کے زور اور اس کے کردار و عمل کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ امتیں ‘ صرف صداقتوں اور اچھائیوں سے وجود میں نہیں آتیں۔ بلکہ امت کی شخصیت کی تعمیر ‘ ہمیشہ داعی کی شخصیت کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اکبر نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کس قدر سادہ انداز میں اس بات کو واضح کیا ؎ کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں آدمی آدمی بناتے ہیں نصابِ تعلیم چاہے کیسا بھی بنا لیا جائے۔ نونہالوں کی سیرت و کردار کی تعمیر اس نصاب تعلیم سے کبھی نہیں ہوتی بلکہ ان کی شخصیت کو بنانے اور ان کے خیالات کو صحیح جہت دینے اور ان کے عزائم میں رسوخ پیدا کرنے میں اصل کردار صرف استاد کا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے جس طرح آنحضرت ﷺ کو امت کے لیے نمونہ بنایا گیا ہے ‘ اسی طرح امت کے صالحین کو بھی اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ تم بھی حتی الامکان اپنے فکر و عمل سے ‘ اپنے ماحول میں نمونہ بننے کا فرض انجام دو ۔ نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ کمزور طبیعتیں جب دیکھیں گی کہ اس ماحول میں سچائیوں پر عمل کرنے والے اور اس کے نتیجے میں مختلف مصائب سے دوچار ہونے والے یہاں کچھ اور لوگ بھی ہیں تو ان کو ایک حوصلہ ملے گا اور وہ کچھ کر گزرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ شاید اسی لیے ہمیں جو دعائیں سکھائی گئی ہیں ‘ ان میں ایک دعا یہ بھی ہے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (یا اللہ ! ہمیں متقین کا امام بنا) ایک نیک آدمی کی بڑی سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ متقی بن جائے۔ لیکن یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم سے مطلوب صرف یہ نہیں ہے کہ تم نیکوکاری کی زندگی گزارو بلکہ اس سے بڑھ کر تمہارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ تم دوسروں کے لیے نیکی میں نمونہ بن جاؤ تاکہ لوگ تمہاری مثال دے کر نیکی اور نیکوکاروں کو سپورٹ کرسکیں یعنی جب کبھی یہ بحث ہو کہ آج کل اپنی اصل تنخواہ میں رشوت لیے بغیر ‘ کوئی آدمی گزارا نہیں کرسکتا۔ تو ہر سطح پر ملازمین میں کچھ لوگ تو ایسے ہونے چاہئیں کہ جن کا حوالہ دے کر لوگ کہہ سکیں کہ اگر آج کے دور میں رشوت سے بچنا ممکن نہ ہوتا اور صرف تنخواہ میں گزارا کرنا ناممکن ہوتا تو فلاں فلاں لوگ کیسے گزارا کر رہے ہیں۔ یہ ہے نمونہ بننے کا مطلب کہ ہر شعبہ زندگی میں چاہے وہ مزدوروں کا شعبہ ہو ‘ چاہے کارخانہ داروں کا ‘ چاہے کاشتکاروں کا چاہے زمینداروں کا ‘ چاہے عام لوگوں کا چاہے حکمرانوں کا ‘ ہر سطح پر ایسے لوگوں کا وجود ضروری ہے ‘ جس سے دوسرے لوگوں کو حوصلہ ملے اور مایوس ہونے والوں کو اپنی مایوسی سے نکلنے کا موقع ملے۔ توحید کی اہمیت اس آیت کے آخر میں فرمایا : وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ” آپ مشرکوں میں سے نہ ہوجائیں “۔ تعجب کی بات ہے ‘ اللہ کا نبی تو دنیا میں توحید کا سب سے بڑا علمبردار ہوتا ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ وہ شرک میں مبتلا ہوجائے ؟ لیکن قرآن کریم کا ایک خاص اسلوب ہے کہ وہ بعض دفعہ خطاب آنحضرت ﷺ کو کرتا ہے ‘ لیکن روئے سخن مخالفین کی طرف ہوتا ہے اور عتاب کا ہدف بھی مخالفین ہوتے ہیں۔ یہاں بھی خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ کو ہے ‘ لیکن سنایا مخالفین کو جا رہا ہے کہ شرک ایسی منحوس چیز ہے کہ پیغمبر جو سراسر روشنی ہے ‘ ہم اس تاریکی کو اس کے قریب بھی پھٹکتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تو تم خود اندازہ کرلو کہ تم جو سرتاپا شرک میں ملوث ہو ‘ تمہارا انجام کیا ہوگا ؟ پھر اگلی آیت میں آنحضرت ﷺ ہی کی زبان سے اس بات کو ایک دوسرے انداز میں مستحکم کیا جا رہا ہے۔
Top