Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 55
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ : اسی طرح ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِتَسْتَبِيْنَ : اور تاکہ ظاہر ہوجائے سَبِيْلُ : راستہ طریقہ الْمُجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
اور اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان کی روش بھی واضح ہوجائے اور مجرموں کا رویہ بھی بےنقاب ہوجائے
ارشاد فرمایا : وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ۔ (الانعام : 55) (اور اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان کی روش بھی واضح ہوجائے اور مجرموں کا رویہ بھی بےنقاب ہوجائے ) اس آیت کریمہ میں لِتَسْتَبِیْنَ کا معطوف علیہ محذوف معلوم ہوتا ہے ہم نے اس کو ترجمے میں کھول دیا۔ اس طرح کی حذف کی مثالیں قرآن کریم میں عام ہیں اور قرآن کریم کا یہ خاص اسلوب ہے۔ آیاتِ الٰہی کی تفصیل سے اہل ایمان اپنی منزل متعین کرسکتے ہیں حاصل مضمون کے طور پر یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے مشرکینِ مکہ کی روش کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات اور ان کے دلائل بھی دیکھے اور قرآن کریم نے ان کے الجھے ہوئے خیالات کے ازالے اور راہنمائی کے لیے نہایت موثر دلائل ارشاد فرمائے اور ساتھ ہی ساتھ قرآنی تعلیمات اور آنحضرت ﷺ کی تربیت کے نتیجے میں صحابہ کرام کی صورت میں جو نہایت خوبصورت اور دل آویز کردار تیار ہوا اس کی جھلک بھی ہم نے دیکھی۔ پھر دونوں کے انجام کو ہمارے سامنے کھول کے رکھ دیا گیا۔ ایک کا انجام دنیا میں رسوائی اور آخرت میں تباہی اور دوسرے کا انجام دنیا میں بھی کامرانی اور آخرت میں بھی فوز و فلاح ٹھہرا۔ ان دونوں کی تفصیلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے یہ تمام تفصیلات اس لیے کھول کر بیان کردی ہیں تاکہ قرآن کریم پڑھنے والوں اور اس سے راہنمائی حاصل کرنے والوں کو یہ سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئے کہ قرآن کریم کی دعوت کیا ہے اور اس کے ماننے والوں کا سیرت و کردار کیسا ہوتا ہے اور مشرکین کی الجھنیں کیا ہیں اور ہر دور میں ان کا انجام کیا ہوا ان دونوں باتوں کے واضح ہوجانے کے بعد کسی بھی قرآن کریم کے طالب علم کے لیے ہدایت و ضلالت کے حوالے سے فیصلہ کرنا اس قدر آسان ہوگیا ہے کہ اب اس فیصلہ سے صرف وہی محروم رہ سکتا ہے جس نے اپنی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ رکھی ہو اور یا وہ ہوائِ نفس کا شکار ہوگیا ہو کیونکہ جو آدمی بھی نفس کی خواہشات کو اپنے راہنمابنا لیتا ہے اس کے لیے کسی بھی صحیح بات کو قبول کرنا اور خیر و شر میں تمیز کرنا سب سے مشکل کام ہوجاتا ہے۔ آنے والی آیت کریمہ میں شرک کی تردید کے ساتھ ساتھ اس سے پیدا ہونے والے نتائج اور اس کی ہمہ گیری کو ایک نئے پہلو سے نہایت موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
Top